کسی بھارتی آرمی چیف کا پہلادورہ سعودی عرب

عبدالرافع رسول
یہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہواکہ جب کسی انڈین آرمی چیف کادورہ سعودی عرب کیااور جنرل نراوانے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ کرنے والے بھارتی فوج کے پہلے آرمی چیف بن گئے ہیں۔8دسمبر2020منگل کوبھارتی آرمی چیف جنرل ایم ایم نراوانے مشرق وسطیٰ کے ایک ہفتے کے سرکاری دورے کے پہلے پڑائو متحدہ عرب امارات پہنچے جہاں انہوں نے اماراتی بری فوج کے کمانڈر اور اسٹاف میجر جنرل صالح محمد صالح الامری سے ملاقات کی ہے اور باہمی دلچسپی اور دفاعی تعاون کے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا۔قبل ازیں جنرل نراوانے کو متحدہ عرب امارات کی لینڈ فورس کے ہیڈکوارٹر میں گارڈ آف آنردیا گیا جب کہ شہدا کی یادگارپرپھولوں کی چادر بھی چڑھائی۔یہاں سے بھارتی آرمی چیف جنرل ناروانے10دسمبر2020جمعرات کو سعودی عرب کا ایک مفصل دورہ کیا جوچاردنوں پرمحیط تھاجہاں انہوں نے سعودی عرب کی فوجی اور سیاسی قیادت کے علاوہ نیشنل ڈیفنس کالج سے بھی خطاب کیا ہے جو تاریخ کا ایک منفرد واقعہ ہے۔سعودی عرب کا نیشنل ڈیفنس کالج وہی ادارہ ہے جہاں متعدد مرتبہ پاکستان کے ملٹری حکام خطاب کر چکے ہیں اور اب بھی سعودی افواج کو پاکستانی فوج کے افیسران تربیت دے رہے ہیں۔ سعودی عرب کا وہ نیشنل ڈیفنس کالج جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی جنگی مہارتوں اور توحید کے لیکچردیے جاتے ہیں آج بتوں کی پوجا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے اور واحد ملک بھارت کے چیف آف آرمی اسٹا ف نے وہاں اپنا لیکچر دیکر دنیا بھر میں بسنے والے اربوں مسلمانوں کے دلوں کو دکھایا ہے لیکن حیرت ہے کہ گزشتہ پچاس سال سے مقامات مقدسہ کی وجہ سے دنیا بھر کے مسلمانوں کی قیادت کر نے والے سعودی عرب کو ملت اسلامیہ کے ان جذبات کی کوئی پرواہ نہیںہے۔ مودی حکومت کااس دورے پرجوبیان سامنے آیااس میں کہاگیاکہ انڈین آرمی چیف کے دورے کے نتیجے میں بھارت او ر سعودی عرب ایک دوسرے کے مزید قریب آگئے ہیں اوردونوں کے تعلقات میں پہلے سے ہی جو کافی استحکام اور گہرائی بھی پائی جارہی ہے اس میں مذیدپختگی آجائے گی ۔
بھارتی حکمران اس دورے کوتاریخی قراردے رہے ہیں۔ بھارتی آرمی چیف جنرل نرونے نے اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں یو اے ای اور بعد ازاں سعودی عرب میں دونوں ممالک کی اعلی فوجی قیادت سے اہم ملاقاتیں کیں اور ان ممالک سے دفاعی تعاون بڑھانے پر بات چیت کی۔ یہ دورہ ایسے وقت میں کیا گیا جب خطے میں ایک طرف اسرائیل کے حوالے سے سیاسی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جبکہ دوسری طرف پاکستان کے سعودی عرب اور یو اے ای سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانی شہریوں پر ورک اور وزٹ ویزے پر پابندی اور سعودی قرضوں کی واپسی اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
بھارتی آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب کادورہ سعودی خاندان اوربھارت کے مابین ایک اورخوفناک گٹھ جوڑ کاپتادیتا اسے قبل سعودی حکمرانوں کا اسرائیل کے ساتھ درپردہ ساز کی خبریں عام ہیں۔ بھارت کاسعودی عرب کے شاہی خاندان کے ساتھ دفاعی اعتبارسے تعلقات استوارکرنا مسلمانان عالم بالخصوص پاکستان کے لیے بھی یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے کیونکہ مستقبل میں غلیظ سفاک انڈین آرمی نہ صرف مقدس سرزمین پراپنے ناپاک قدم جمائے گی بلکہ حرمین الشریفین کاحصارباندھے گی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارتی آرمی چیف کے حالیہ دورے سے سعودی عرب اور بھارت کے مابین نہ صرف فوجی تعاون بڑھے گا بلکہ سعودی فوجیوں کو تربیت کیلئے بھارت بھیجا جائے گا اور بھارتی فوجی بھی سعودیہ میں فوجی تربیت حاصل کریں گے جبکہ یہ امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقوں کا بھی آغاز کریں۔اس دورے کے بعد بھارت اورسعودی عرب کے مابین جہاں فوجی تعاون بڑھے گا ان میں سے ایک یہ ہے کہ سعودی فوجی افسران کی تربیت سازی کے لیے انڈیا بھیجا جائے اور وہاں سے کچھ انڈین فوجی سعودی عرب میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ٹریننگ کریں۔اب سعودی عرب جن کیڈٹس کوپاکستان حلال کھانے کے لئے بھیج رہاتھااب انہیں خنزیرکھانے کے لئے بھارت بھیجاجائے گا۔
بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ خلیجی ممالک میں پاکستان کا اثر و رسوخ ختم کرکے اپنی جگہ بنائے جو پاکستان کیلئے یقینا کسی دھچکے سے کم نہیں ہوگا۔ انڈین آرمی چیف کے اس دورے سے یہ بات بھی الم نشرح ہوجاتی ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کی طرف سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میںپہلی جیسی گرمجوش نہیں رہی اور یہ عرب ممالک کے شاہی خاندانوں کاایک بڑا’’یوٹرن‘‘ہے جس پراگر توجہ نہیں دی گئی تو آنے والے وقت میں مزید دوریاں پیدا ہوں گی جس کا فائدہ یقینا پاکستان کادشمن ملک بھارت اٹھائے گا۔
پاکستان او ر سعودی عرب کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران معاشی اور دفاعی تعلقات کافی قریبی رہے ہیں اور پاکستان کی سکیورٹی فورسزمقامات مقدسہ کے علاوہ سعودی شاہی خاندان کی حفاظت پر بھی مامور ہیں اس کے علاوہ سعودی عرب یمن کے حوثی قبائل کے خلاف جو جنگ لڑ رہا ہے اس کے لیے بنائے گئے ’’عالمی ملٹری الائنس ‘‘کی سربراہی بھی ا فوج پاکستان کے سابق سربراہ جنرل راحیل شریف کے ہاتھ میں ہے جو اب بھی سعودی عرب میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اس کے باوجود بھارتی آرمی چیف کا دورہ سعودی عرب دنیائے اسلام کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے بالخصوص انتہائی غیر متوقع اور باعث حیرت بنا ۔
مبصرین کاکہناہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری اور غلط فہمیوں نے اس وقت جنم لیا جب2019کو ترکی کے صدر طیب اردوان، ملائیشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اور وزیراعظم عمران خان کے درمیان کوالالمپور میں اسلامی ممالک کے سربراہان کا اجلاس بلانے پر اتفاق ہوا جس پر سعودی عرب کا سخت ردعمل سامنے آیا۔ اسی طرح یواے ای نے او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس میں پہلی بار بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا جس کے ردعمل میں پاکستان نے او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے مسئلہ کشمیر پر او آئی سی اجلاس طلب نہ کرنے پر سعودی عرب کو تنقید کا نشانہ بنایا جس سے تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہوئی۔ بھارت نے پاک سعودیہ، یو اے ای کشیدہ صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور مودی نے سعودی عرب اور یو اے ای کا دورہ کیا جہاں انہیں اعلی شہری اعزاز سے نوازا گیا جس کے بعد بھارت اور ان خلیجی ممالک کے درمیان سفارتی، معاشی اور دفاعی شعبوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔
دراصل سعودی عرب نے یمن میں ساتھ نہ دینے پر پاکستان کو سزا دینے کے لیے بھارت سے اپنی قربتیں بڑھائی ہیں اس کے علاوہ سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے بھی پاکستان پر شدید دبائوڈ ال رہا ہے ترکی ،ایران اور چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات بھی سعودی عرب کے ولی عہد کو پسند نہیں۔دوئم یمن کی جنگ میں پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ کی کوئی بھی ناجائز بات نہیں مانی ہے اور کھل کریہ کہہ دیاہم اس جنگ میں اپنی فوج مروانہیں سکتے ۔سعودی عرب کی طرف سے پاکستان سے کہاجارہا ہے کہ اسرائیل کرلیں اوربھارت کی خواہشات پوری کرکے کشمیریوں کی حمایت کرنابندکردے ہیں لیکن پاکستان اسے اپنے لئے موت سمجھتاہے غرض جو سعودی عرب کی قیادت میں عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستیں پاکستان سے منوانا چاہتی ہیں جوپاکستان کے لئے نا ممکن ہے بھارتی آرمی چیف کے خلیج کے دورے کو انہیں حقائق کی روشنی اور اسی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
انڈین آرمی چیف کے اس دورے کو خطے کے میڈیا نے بھی خبروں کی زینت بنایا ہے۔ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا چین، امریکہ اور جاپان کے بعد سعودی عرب انڈیا کا چوتھا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ اس کے علاوہ انڈیا، سعودی عرب سے سب سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے۔ حالیہ برسوں میں نریندر مودی حکومت نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے پر بھی توجہ دی ہے۔خلیجی ممالک میں انڈیا کے 85لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ صرف سعودی عرب میں ہی 27لاکھ سے زیادہ انڈین کام کرتے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات کی 30فیصد آبادی انڈین ہے۔
جبکہ خبر رساں ادارے مِڈل ایسٹ آئی نے جنرل نراونے کے دورے کو خاصی اہمیت دی ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے انڈیا کے آرمی چیف کا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات خراب دور سے گزر رہے ہیں۔ مڈل ایسٹ آئی نے لکھا ہے کہ باجوہ کے اس دورے کے دوران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ان کی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ فروری 2018 میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس FATF))کی گرے لِسٹ میں شامل کیے جانے پر سعودی عرب نے اسے ویٹو نہیں کیا تھا جس سے پاکستان کو جھٹکا لگا تھا۔ سعودی عرب نے یمن میں اپنے زیر قیادت فوجی اتحاد میں اپنی فوج بھیجنے پر پاکستان پر زور دیا تھا لیکن پاکستان نے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔
بات اصل میں یہ ہے کہ امریکہ ٹرمپ کی قیادت میں مڈل ایسٹ میں اسرائیل کے ذریعے سے ایک بہت بڑاکھیل کھیل رہا ہے اورخلیجی ریاستوں سے جوکچھ کہاجارہاہے جس طرح کاحکم انہیں مل جاتاہے تووہ بسروچشم قبول کرتی ہیں ۔خلیجی ریاستیں امریکہ سے اتنی خوفزدہ ہیں کہ اگر امریکہ یہ نعرہ لگا دے کہ ان ممالک میں جمہوریت ہونی چاہیے تو یہ حکومتیں دنوں میں گر جائیں گی۔ لہذا یہ امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے اس لیے اسرائیل اور انڈیا ان ممالک میں اپنے قدم جما رہے ہیں۔
29اکتوبر 2019کو سعودی عرب کے دورے کے دوران وزیر اعظم مودی نے عرب نیوز کو دیے گیے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 2016میں پہلی بار میں سعودی عرب آیاتو اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات میں کافی پیش رفت ہوئی ہے، میں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے پانچ بار ملاقات کی ہے۔ مجھے ولی عہد شہزادہ سے پہلی گرم جوشی سے کی گئی ملاقات مجھے آج بھی یاد ہے اور اس دورے میں ہم ایک بار پھر اسی جوش کے ساتھ ملنے جا رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں دونوں ممالک کے باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔مودی نے اس انٹرویو میں کہا تھا تقریبا 27لاکھ انڈین سعودی عرب کو اپنا دوسرا گھر بنا چکے ہیں۔ وہ یہاں کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ انڈین شہریوں کی ایک بڑی تعداد ہر سال حج اور کاروبار کے لیے یہاں آتی ہے۔ میرا ان کے لیے پیغام ہے کہ آپ نے سعودی عرب میں اپنا جو مقام بنایا ہے اس پر ہمیں فخر ہے۔ان کی محنت اور عزم کی وجہ سے سعودی عرب میں انڈیا کا مقام بلند ہوا ہے اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ آپ کا تعلق اسی طرح جاری رہے گا۔
حالیہ برسوں میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب انڈیا کے قریب آئے ہیں۔ دونوں ممالک نے وزیر اعظم مودی کو اعلی شہری اعزاز بھی دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب دونوں انڈیا کی ریاست مہاراشٹر میں 42 ارب ڈالر کا پیٹرو کیمیکل پلانٹ بنا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کا خیال ہے کہ انڈیا توانائی کا سب سے بڑا صارف ہے۔متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر خاموش رہے تھے جبکہ پاکستان کی جانب سے پورا دبا تھا کہ دونوں ممالک کو کچھ کہنا چاہیے۔گذشتہ ماہ متحدہ عرب امارات نے مجموعی طور پر 13 ممالک کے شہریوں کو کام کی غرض سے عرب امارات آنے کا ویزا دینا بند کر دیا تھا اور پاکستان بھی ان ممالک میں شامل ہے۔

Comments are closed.