کریم نگر کا ایک ہنگامی سفر، کچھ یادیں، کچھ باتیں

از قلم : مفتی احسان شاہ قاسمی نرمل
گزشتہ جمعہ بتاریخ :2 جمادی الاولی 1442ھ مطابق 18 ڈسمبر 2020 والدۂ محترمہ کی وفاتِ حسرت آیات نے دل ودماغ پرگہرا اثر چھوڑا، طویل زمانے پر محیط والدۂ محترمہ کی خدمت کے سبب، مرحومہ کی یادیں ان کے دنیا سے جانے کے بعد مسلسل کسک لگارہی تھی کہ بتاریخ 23 ڈسمبر2020ء بروز چہارشنبہ بندہ نمازِ فجر کے بعد والدۂ محترمہ کی قبر پر حاضر تھا اور ایصالِ ثواب کی نیت سے یاسین کی تلاوت میں مگن تھا کہ اسی اثناء، حضرت مولانا امتیاز احمد خان مفتاحی نے فون کیا، قبرستان سے فارغ ہونے کے بعد بندے نے واپس کال کیا تو مولانا نے کہا کہ چلو کریم نگر چلتے ہیں، ذہنی طور پر کچھ بوجھ بھی اترجائے گا اور بہت کچھ فائدہ ہوگا، بندے نے فوراً اثبات میں جواب دیا، اور کچھ ہی لمحوں کے بعد صبح کی اولین ساعتوں میں بندہ اور مرنجا مرنج طبیعت کے مالک، شاعرِ باکمال حضرت مولانا امتیاز احمد خان صاحب مفتاحی ،قافلۂ حفاظ نرمل کے سرخیل جناب حافظ امجد خان صاحب کی معیت میں سید کریم اللہ شاہ صاحب قادری کے آباد کردہ، تلنگانہ کے مشہورشہر کریم نگر کے سفر پر روانہ ہوگئے، اور آرمور، مٹ پلی، کورٹلہ اور جگتیال سے گزرتی ہوئی تقریباً 11بجے صبح ہماری گاڑی کریم نگر پہنچی۔
صفا بیت المال شاخ کریم نگر:
حافظ امجد شاہ صاحب کی ایک ہومیوپیتھی کے اسپیشلسٹ کسی ڈاکٹر کے ہاں ملاقات طئے تھی، لہٰذا وہ ڈاکٹر کے کلینک کے لیے روانہ ہوگئےادھر بندہ اور مولانا امتیاز احمد خان مفتاحی سب سے پہلے دفتر صفا بیت المال شاخ کریم نگر پہنچے جہاں محفلوں کو قہقہہ زار بنانے والی شخصیت،خلیق المزاج جناب سید کاظم الحسینی صدر صفا بیت المال کریم نگر اور حافظ خلیل اللہ جنرل سیکرٹری صفا بیت المال کریم نگرنے خندہ پیشانی سے ہمارا استقبال کیا اور کریم نگر وأطراف میں صفا بیت المال کے پلیٹ فارم سے انجام دی جانے والی رفاہی خدمات، طریقۂ کار، نظام کا تفصیلی معاینہ کروایا، جب بھی صفا بیت المال کی خدمات کاذکر ہوتا ہے تو یہ شعر بر ملا زبان پر آہی جاتا ہے کہ :
اپنے لیے تو کوئی بھی کرتا ہے جستجو
اوروں کی زندگی کو بنانا کمال ہے
الغرض صفاکریم نگر کی رفاہی سرگرمیوں کی روداد نے ہمارے حوصلوں کو مہمیز کیا،
مدرسہ فیض ابرار، کریم نگر کی زیارت :
اس کے بعد ہم دلوں میں رفاہی کاموں کے حوالے سے ہمتوں کو جلا بخشنے والے جذبات لیے صفا کے دفتر سے مدرسہ فیضِ ابرار گودام گڈہ کریم نگر پہنچے،اس مدرسے کے بانی وناظم جناب حافظ رضوان صاحب فلاحی، انتہائی سرگرم، فعال اور متحرک شخصیت کے حامل نوجوان ہیں جو دارالانصارسوسائٹی سمیت مختلف دینی اور رفاہی تنظیموں سے جڑکر بین مسلکی ومذہبی اتحاد کے لیے جدوجہد کررہےہیں، موصوف کی شبانہ روز محنتوں کا ہی ثمرہ ہے کہ کم عمری کے باوجود اس مدرسے نے تیزی سے ترقیات کے منازل طئے کیے، حافظ رضوان فلاحی سے بندہ جب بھی ملتا ہے تو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ :
یوں تو ملنے کو بہت اہلِ کرم ملتے ہیں
بےغرض ہوتے ہیں جو لوگ وہ کم ملتے ہیں
مدرسہ اسلامیہ افضل العلوم اور القلم ریسرچ فاؤنڈیشن:
مدرسہ فیضِ ابرار کی زیارت سے فارغ ہوکر ہم لوگ حافظ مرزا خلیل اللہ صاحب اور حافظ کاظم صاحب کی رہنمائی میں کریم نگر کے مدرسہ اسلامیہ افضل العلوم وارد ہوئے، یہ مدرسہ علاقے کے بافیض مدارس میں شمارکیا جاتا ہے، اس مدرسے کے بانی وناظم استاذ الاساتذہ محترم جناب معظم حسین صاحب فیضی مدظلہ ہیں، یہاںنونہالانِ ملت کو زیورِ تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا جاتا ہے، مدرسے میں جیسے ہی ہماری آمد ہوئی تو مدرسے کے ملنسار ناظم محترم حافظ محمد معظم حسین صاحب فیضی اور حافظ عبدالحکیم صاحب نےپُرجوش انداز میں ہمارا استقبال کیا، اور ماحضر سے ضیافت کی مدرسے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے ایک کشادہ کمرےمیں علمی، تحقیقی کاز کے لیے” القلم فاؤنڈیشن “ نامی ایک ممتاز اکیڈمی بھی قائم ہے جس کے روح رواں و ڈائریکٹر میرے رفیقِ درس مفتی صادق حسین قاسمی صاحب ہیں، جو ایک حق نویس قلم کے بے تاج بادشاہ ہیں، جن کے قلمی شہ پاروں اور ادبی تخلیقات سے طبقۂ علماء خوب شناسا ہیں، ماشاءاللہ اس تحقیقی اکیڈمی کے تحت بہت کم مدت میں قابلِ قدر کتابچے اور پمفلٹس اور سوشل میڈیا پر دینی رہنمائی کرنے والے بے شمار پوسٹس امیجز کی شکل میں منظر عام پر آچکے ہیں اور دادِ تحسین وصول کرچکے ہیں، یقیناً مدرسے کے ذمہ داران کی جانب سے نوفارغ باصلاحیت علماء کرام کی اس طرح حوصلہ افزائی قابلِ تقلید عمل ہے،اخیر میں اللہ تعالیٰ سے اس ادارے اور القلم فاؤنڈیشن کی ترقی کے لیے دعا کا اہتمام کیا گیا،دفترالقلم فاؤنڈیشن میں ایک صاحبِ قلم کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات میں یوں محسوس ہوا گویا صادق حسین قاسمی صاحب کی قلمی جولانیاں زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں:
ہم پرورش لوح وقلم کرتے رہیں گے
دل پہ جو گزرے گی رقم کرتے رہیں گے
شفا کلینک میں حاضری:
افضل العلوم سے سیدھے ہم عالی جناب ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب کے شفا کلینک پہنچے، ڈاکٹرعبدالقدوس صاحب ایک حرکیاتی کارکن ہیں جو دارالخیر سوسائٹی کے بیانر تلے بڑے پیمانے پر مختلف علاقوں میں صرف انسانیت کی بنیاد پر متنوع سماجی خدمات انجام دے رہے ہیں، ڈاکٹر صاحب کی شبانہ روز جدوجہدپر شاعرکا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے کہ :
یہی ہے عبادت، یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں، انساں کے انساں
چوں کہ ماہر نرملی صاحب کی ڈاکٹر صاحب سے پہلے ملاقات ہوچکی تھی، اسی پہلی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب کی ساحرانہ شخصیت سے متاثر ہوچکے تھے، چنانچہ شفا کلینک پہنچ کر ماہر نرملی نے اپنا منظوم تہنیتی کلام طغرے کی شکل میں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پیش کیا، یہ منظر بھی یاد گاررہا،
نمازِ ظہر وظہرانہ اور دفتر جمعیۃ الحفاظ میں حاضری:
ڈاکٹر صاحب کے کلینک سے نکل کر ہم لوگوں نے ظہر کی نماز مسجدِ جعفری میں ادا کی اور نماز کے بعد جناب حافظ رضوان صاحب فلاحی نے پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا،ظہرانے سے فراغت کے بعد حافظ رضوان بھائی کی رہنمائی میں دفتر جمعیۃ الحفاظ کریم نگر میں حاضری ہوئی، جہاں صدر قاضی کریم نگر جناب احمد منقبت شاہ صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جمعیۃ الحفاظ کریم نگر کا دفتر ایک وسیع عمارت میں ہے جس میں شرعی فیصلہ کمیٹی کا کیبن بھی بناہوا ہے، جمعیۃ الحفاظ، کریم نگر کے منڈلس ودیہاتوں میں 70 سے زائد معلمین کو ماہانہ تنخواہ سے نوازتی ہے، بایں دجہ جمعیۃ الحفاظ کا خدامِ دین کے طبقے میں اچھا خاصا اثر ورسوخ ہے، ذمہ دارانِ جمعیۃ الحفاظ کی کامیاب کاوشیں دیکھ کر بے ساختہ زبان پر یہ شعر مچلنے لگا کہ:
"نقشوں ” کو تم نہ جانچو، لوگوں سے مل کے دیکھو
کیا چیزجی رہی ہے،کیا چیز مر رہی ہے
جناب اختر علی صاحب سے ملاقات :
جمعیۃ الحفاظ کریم نگر کی مؤثر سرگرمیوں کو سن کر ولولوں میں تازگی پیدا ہوئی، نئے عزائم نے انگڑائی لی،شہرِ کریم نگر کی ہردلعزیز شخصیت جناب اخترعلی صاحب سے ملاقات،
ان ملاقاتوں کے سلسلے کی آخری کڑی تھی ، موصوف کریم نگر شہر میں چلنے والے سیوا بینک کے نگراں اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کنوینر اور انجمن ترقی اردو کے صدر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں اور ملت اسلامیہ کریم نگر کی فلاح وبہبود کے لیے سرانجام دی جانے والی مختلف کوششوں کو یکجا کرنے کے لیے مسلسل فکرمند رہتے ہیں چنانچہ اسی تناظر کچھ دیر تک موصوف سے تجربات وخیالات کا تبادلہ کیا گیا، اور موصوف کی تجرباتی گفتگو سے ہم میں سے ہر فرد نے اپنے ظرف کے مطابق بہت کچھ اخذ کیا ۔اس آخری ملاقات کے بعد ہم سفر سے اپنے مقام پر واپسی کے لیے پَر تولنے لگے تھے کہ رضوان بھائی نے کہا کہ مجھے بھی عادل آباد جانا ہے لہذا نرمل تک آپ حضرات کے ہمراہ میرا بھی سفر رہے گا، یہ سن کر برجستہ یہ شعر زبان آگیا کہ :
نہ ہم منزلوں کو، نہ رہگزر کو دیکھتے ہیں
عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں
لاریب واپسی میں رضوان بھائی کی معیت نے اس سفر کی لذت کو دوبالا کردیا، چنانچہ ہم نے واپسی میں نمازِ عصر کی ادائیگی کے لیے جگتیال میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کیا جہاں مدرسہ روضۃ العلوم نرمل کے قدیم ترین فرزند جناب حافظ ابرار شریف صاحب سے اچانک ملاقات میسر آئی، جن سے مل کر حافظ امجد شاہ صاحب نے پرانی یادیں تازہ کی،
مفتی عبدالمعز شامزی صاحب سے ملاقات:
عصرانے سے فارغ ہوکر ہم نے سلسلۂ سفر کو جاری رکھا تاآں کہ مغرب کا وقت شروع ہونے کے آدھے گھنٹے بعد ہماری گاڑی مٹ پلی میں داخل ہوئی،اور کچھ ہی منٹ بعد ہم علاقے کے بافیض،ممتاز عالمِ دین، ولولہ انگیز مقرر حضرت مولانا مفتی عبدالمعز شامزی صاحب کے مکان پر حاضر ہوگئے، اور شامزی صاحب کے ساتھ موجودہ حالات پر مختصر مگرپُر مغز گفتگو ہوئی، دورانِ گفتگو شامزی صاحب نے ان کے زیرِ مطالعہ، مولانا ابن الحسن عباسی رحمہ اللہ کی آخری تازہ قلمی کاوش” یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ“ پر ایک چست تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں سے چند احباب کی تحریر پڑھ کر یوں لگا گویا وہ اپنے مطالعے کے احوال کم اور اپنی شخصیت کا تعارف زیادہ کروارہے ہیں حتی کہ بعض تو اپنی مصروفیات کے سبب قلتِ مطالعہ کا تذکرہ کرکے مطالعے کے میدان میں اپنی ناکامی کا برملا اظہار کررہے ہیں، نیز مفتی صاحب نے اس بات پر اپنے شدید افسوس کا اظہار کیا کہ کسی نے شیخ الہند، اور شیخ الاسلام کو اپنے مطالعے کی مرکزی کرداروں میں نہیں کردانا ۔اس مختصر علمی گفتگو کے دوران شامزی صاحب نے عربوں کے طرز پر کاجو، بادام،شہد اور گھی میں بھگوئے ہوئے تر کھجوراور گھاوے سے شائستہ ضیافت کی، جس کے معاً بعد ہم نے صورتاً جمع بین الصلاتین کرتے ہوئے مغرب وعشاء ادا کی اور اپنے وطن نرمل کی طرف چل پڑے اور تقریباً ساڑھے نو بجے شب نرمل پہنچے ۔اس طرح کریم نگر کا یہ ہنگامی سفر مختلف سماجی اور مذہبی تنظیموں اور شخصیات سے ملاقات کے نتیجے میں ان سے بہت کچھ تجرباتی حصولیابیوں کا سبب بنا، اسی لیے جس نے بھی کہا سچ کہا کہ:
سفر سقر ہوتا ہے
لیکن وسیلۂ ظفر ہوتا ہے
Comments are closed.