پروفیسرشمس الرحمان فاروقی :ایک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آسماں کے

✒️ :عین الحق امینی قاسمی
زبان خواہ کوئی بھی ہو ،جب اس سے سچا پیار ، گہرا عشق اور یار غار کا سا رشتہ بن جاتا ہے تو زبان ،اپنے خیر خواہوں کو منفرد پہچان بھی دیتی ہے ،منصب ورتبہ اورلب و لہجہ سمیت انداز ونیاز تک میں اپنا ئیت ،قربت اور محبت ومودت سے سرفراز کردیتی ہے ۔شمس الرحمان فاروقی صاحب کو اردو سے جو لگاؤ اور عشق تھا ،اس عشق نے انہیں ،اردو کا معتبر حوالہ بنادیا ،کم لوگ ایسے گذرے ہیں جو اردو درس وتدریس سے الگ رہ کر بیک وقت ناقد ، ادیب ،شاعر،افسانہ نگار،ناول نگار اور لغت ولسانیات کے ماہر بھی ہوں ، یہ سچ ہے کہ وہ اچھوتے نثرنگار تھے اور ادبی صحافت کے فروغ کے لئے انہوں نے تقریبا چالیس سال لگادیئے؛ مگر ہاں ! اس چالیس سالہ محنت نے جہاں اردو ادب کو سمت ورفتار بخشا ،وہیں خود فاروقی صاحب کو بھی عروج بخشا،بلندیوں سے سرفراز کیا اور ہمہ جہت مواقع دیئے۔
فاروقی صاحب کا ایک بڑا کمال یہ تھا کہ جب کہ وہ خود مختلف الجہات شخصیت کے مالک تھے ،مگر اس کے باوجود بھی وہ "ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں "کے نہ صرف قائل تھے ،بلکہ جو واقعتاً ان سے سینیر تھے ،ان کو وہ صدق دل سے اخیر اخیر تک سینیر مانتے رہے ،یہ وہ خوبی تھی جو ذاتی طور پر میرے علم ومطالعے کے مطابق ماضی قریب کے ادیب ونقاد میں دیکھنے اور سننے کو نہیں ملی ۔عموما جب لو گوں کی پہچان، کسی فن میں بن جاتی ہے تو سبک گامی کے ساتھ ایک خرابی ان میں یہ ضرور درآتی ہے کہ وہ اپنے علاؤہ کسی کو امام ماننے کو تیار نہیں ہوتے ،مگر یہ چیز فاروقی صاحب میں دور دور تک نہیں تھی ، وہ دوایک کتاب لکھ لکھا کر اسٹیج شئیر کرنے والے ادیب ونقاد یا شاگردوں کے بل بوتے شہرت پانے والے اردو نواز نہیں تھے ،بنیادی طور پر وہ پڑھے لکھے انسان تھے ، فکر ومحنت اور مخلصانہ جد وجہد کے نتیجے میں انہوں نے اعتبار حاصل کیا تھا ، اسی طرح وہ نرے شاعر یا ناول نگار بھی نہیں تھے ،ایک سلجھی ہوئی سوچ کے حامل پر وقار انسان اور علم وفن سے وابستہ بھروسہ مند رجال کار تھے۔
ان کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ وہ پکڈنڈیوں پہ نئے نئے چلنے والوں کو انگلیوں کے سہارے سیدھا چلنا سکھانے کا بے مثال جذبہ رکھتے تھے اور ایسوں سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے ،یہ ان کی علم دوستی کی اعلی مثال ہے ،دوچند کے علاؤہ شاید انہوں نے کسی کو اپنے علمی سفر میں فریق مانا ہو ،بلکہ ہمیشہ انہوں نے رفیقانہ لب ولہجے میں افادہ واستفادہ کو پیش نظر رکھا ، وہ دنیا و مافیہا میں کھوجانے والی شاعری کے کبھی قائل نہیں رہے ،اسی لئے ان کی شاعری میں سماجی اورادبی جہتوں کا درک نمایاں ہوکر جھلکتا ہے ،ان کی گفتگو میں بلا کا توازن تھا ،جس سے اعتماد وافتخار جھلکتا تھا ،یہ چیزیں ان کی شاعری اور نثری موادسے بھی خوب خوب نمایاں ہوتی ہیں۔ان کی تصنیفات میں قبض زماں ،شب خو ن، تفہیم غالب ،تنقیدی معاملات ،اردو کا ابتدائی زمانہ،کئی چاند تھے سر آسماں،مجلس آفاق میں پروانہ ساں ،تعبیر کی شرح ،معرفت شعر نو،تحفۃ السرور،عجب سحر بیاں تھا ،ہمارے لئے منٹو صاحب ،خورشید کا سامان سفروغیرہ کافی دلچسپ تصنیفات ہیں ۔
وہ گرچہ کہیں باضابطہ درس وتدریس کی دنیا سے وابستہ نہیں تھے ،یعنی اردو ادب کی ترویج واشاعت کے لئے انہوں درس وتدریس کو پیشہ کے طور پر نہیں اپنا یا اور نہ اس کا سہا را لیا ،چوں کہ اصل میں وہ انگریزی دنیا کے انسان تھے ،مگر اردو سے یارانہ اور سچے پیار کی وجہ سے جتنا کچھ انہوں نے اردو کے لئے مواد اکٹھا کردیا وہ ان کی عظمت کو دوبالا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اردو کے حوالے سے اردو دنیا میں ان کی جو پہچان بنی ، انگلش داں ہوکر بھی وہ مقام وپہچان انہیں انگریزی دنیا میں حاصل نہیں ہوسکی، انہیں جو اعزازات ملے ہیں وہ سب اردو کی دین ہیں ،بلکہ اردو ادب سے وابستگی اور خدمات کے اعتراف میں ہیں، انہیں ڈاکٹریٹ اور پروفیسر شب کی سند وڈگری بھی جو تفویض ہوئی ہے یہ اردو نوازی کا صلہ ہے، البتہ ان کی قابلیت ،صلاحیت اور سرفروشانہ محنت ،سبھوں کو متائثر کرتی رہی ہے۔
ایک خوبی ان کی یہ بھی تھی کہ وہ اوروں کی بنی بنائی راہ پر آنکھیں موند کر چلنے کے قائل نہیں تھے ،بلکہ اپنی عقل وفہم اور مطالعہ کا سہارا لے کر سچائی تک پہنچے کی کامیاب کوشش کرتے اور جب انہیں یہ احساس ہوتا کہ یہی حق اور سچ ہے تو پھر وہ پرانی روایتوں کو اتنی مضبوط دلیلوں سے توڑنے کی اپنے اندر سکت رکھتے تھے کہ کوئی دوسرا انہیں اپنے موقف سے سر مو منحرف نہیں کرسکتا تھا ،سچ مچ وہ اپنی دنیا آپ بنانے کا ہنر رکھتے تھے۔اکثر پایا گیا ہے جن لوگوں نے بھی کوئی مقام حاصل کیا ہے تو وہ اپنے مضبوط دل مثبت خیالات اور معیاری موقف سے ،چاہے زمانے نے شخصیت کو تسلیم کرنے میں دیر کردی ہو ،مگر دیر یاسویر زمانے کو تسلیم کرنا پڑا ہے ،مرحوم پروفیسر شمس الرحمان فاروقی صاحب بھی انہیں باکردار اور اپنی راہ آپ متعین کرنے والوں میں سے تھے ،لیکن اب وہ ہمارے بیچ نہیں رہے ،مگر ان کی فکری ، علمی اور قلمی خدمات سے ایک دنیا فیضیاب ہوتی رہے گی ۔
بنائیں گے نئی دنیا ہم اپنی
تری دنیا میں اب رہنا نہیں ہے
Comments are closed.