ضمیرکے گورکن لیکن کب تک؟؟

سمیع اللہ ملک
پرنس ہیری برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس اورآنجہانی لیڈی ڈیاناکے دوسرے صاحبزادے اوربرطانیہ کی متوقع بادشاہت میں تیسرے نمبرپرہیں،پرنس ہیری15ستمبر1984 میں پیداہوئے اوران کی والدہ انہیں عام انسان دیکھناچاہتی تھی چنانچہ لیڈی ڈیانانے شاہی روایات توڑتے ہوئے ہیری کوعوامی پارکوں،کھیل کودکے میدانوں،میکڈونلڈاورسینما گھروں میں لے جاناشروع کیا،ہیری بارہ برس تک اپنی ماں کے ساتھ لندن کی عام زندگی دیکھتے رہے لیکن1997میں اپنی ماں کے انتقال کے بعد دوبارہ شاہی خاندان کی روایات میں دفن ہوگئے۔1988میں سکول کی تعلیم کیلئے ایٹن آئے توانہوں نے آزادی کاذائقہ چکھنے کیلئے سپورٹس کاسہارالیا،وہ فٹ بال،سکینگ اورگھڑسواری میں دلچسپی لینے لگے،پرنس2005میں ملٹری اکیڈمی سینڈ ہرسٹ میں داخل ہوئے،انہوں نے 44ہفتے کی عسکری ٹریننگ کے بعدبرطانوی فو ج میں بطور سیکنڈ لیفٹیننٹ ونڈسرمیں بلیوزاوررائل رجمنٹ جوائن کرکے تمام خطرناک اورمشکل آپریشنزمیں حصہ لیا۔
پرنس ہیری اکتوبر2007کے آخرمیں برطانوی اخبارات کی”کورسٹوریز”اور ٹیلی ویژن کی خبروں میں بھی بری طرح”ان” ہوگئے۔پرنس ہیری کی مشکلات کاپس منظربہت دلچسپ تھا۔پرنس ہیری نے مشرقی برطانیہ نورفوک میں ملکہ برطانیہ کی بہت بڑی جاگیرکے علاقے نائم سینڈرنگ ہیم کی ایک شاہی محل کے ساتھ ایک طویل جنگل میں،اکتوبر کے آخری ہفتے میں لاعلمی میں پرندوں کے شکارپرپابندی کے علاقے میں ایک خاص قسم کی نایاب بران رنگت کی مادہ مرغی اوراس کے نرجوخواراک کی تلاش میں پروازکررہے تھے ، پردوفائرکئے اور یہ دونوں پرندے زخمی ہوکرگرگئے،سینڈرنگ ہیم کے قرب وجوارمیں اس وقت دوعام شہری اورجنگلی حیات کاایک وارڈن موجودتھے،ان لوگوں نے فوراپولیس کو اطلاع دی،پولیس فوری طورپرسینڈرنگ موقع پرپہنچی اوراس نے زخمی پرندوں کوقبضے میں لیکرعلاج کیلئے بھیج دیا،جس کے بعدشہزادے سے ابتدائی تفتیش شروع ہوگئی،شہزادے نے اس واقعے سے لاتعلقی ظاہرکی لیکن پولیس نے اسے تفتیش کاحصہ بنالیا،یہ واقعہ دوسرے دن اخبارات کی شہ سرخی بن گیا،شاہی خاندان کاترجمان یہ اعلان کرنے پرمجبورہوگیا، اگر شہزادہ قصوروار ثابت ہواتواس کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی۔برطانوی قانون میں اس پرندے کونقصان پہنچانے کی سزاچھ ماہ قید اورپانچ ہزارپائونڈ جرمانہ ہے،برطانوی قانونی ماہرین نے قومی پریس کوبتایاکہ اگرشہزادے کے خلاف جرم ثابت ہوگیا تو اسے نہ صرف یہ سزابھگتناپڑے گی بلکہ اسے فوج سے بھی فارغ کردیاجائے گا۔پھر دنیا کے تمام باخبرمیڈیانے اس کاروائی کومانیٹربھی کیااوربرطانیہ کی عدالتی کاروائی کوتحسین کے کلمات سے بھی نوازا۔
آپ پرنس ہیری کے خلاف چھپنے والی تمام رپورٹس کوآج بھی پڑھ لیں،ان میں چارچیزیں نمایاں ہیں،اول برطانیہ میں کوئی رکن اسمبلی،کوئی لارڈ،کوئی جرنیل اورشاہی خاندان کا کوئی فردقانون سے بالاترنہیں،دوم عام شہری سے لیکر جنگلی حیات کے وارڈن تک برطانوی خاندان کے خلاف شکایت کرسکتاہے اورپولیس تفتیش کیلئے شاہی محل میں بھی داخل ہو سکتی ہے، سوم برطانیہ کے شاہی خاندان کے چھوٹے سے چھوٹے جرائم بھی میڈیا میں آجاتے ہیں اورخاندان کا کوئی فردمیڈیاپراثر انداز ہونے کی کوشش نہیں کرتااورچہارم اگر شاہی خاندان کے کسی فردکے خلاف جرم ثابت ہوجائے توبرطانوی عدالتیں فیصلہ سناتے دیرنہیں لگاتیں اوراس فیصلے پرفوراعمل درآمدہوتاہے۔میں برطانوی معاشرے کی ان خوبیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے پاکستانی معاشرے کاجائزہ بھی لے رہاتھا۔
برطانیہ ہماراآقاتھا،وہ ہم پرڈیڑھ سوسال حکومت کرتارہاتھالیکن بعدازاں ہمیں محسوس ہواہم مسلمان ہیں اورمسلمان نظریات، خیالات اورروایات میں برطانیہ کے کافروں سے بہت آگے ہیں چنانچہ ہم نے1947میں کافروں سے آزادی حاصل کرلی لیکن2007میں ہمارے کافرآقاں کی اخلاقیات اورقانون پروری کایہ عالم دنیانے ملاحظہ کیاکہ وہاں دوپرندوں کوزخمی کرنے پرنہ صرف پولیس شاہی شکارگاہ میں داخل ہوگئی بلکہ شہزادہ درجنوں مرتبہ شامل تفتیش رہااورشہزادہ میڈیا سے بھی منہ چھپاتارہاجبکہ انہی دنوں ہم جیسے اہل ایمان کے ملک میں پی ایچ ڈی کی مشکوک ڈگری کے ساتھ وزارتِ قانون کا قلمدان سنبھالیوزیرقانون ایک مخصوص چارٹر طیارے کے ذریعے ملک بھرکی بارکونسلزمیں کروڑوں روپے بانٹ کرزرداری حکومت کی خدمت سرانجام دیرہاتھااورجوآج بھی انصاف کے نام پرایوانِ اقتدارمیں آنے والی جماعت میں قانون انصاف کے مشیرکے نام پراقتدارکے مزے لوٹ رہاہے۔
میں سوچ رہا تھا،ایک طرف”کافروں”کے شہزادے دوپرندے زخمی کرنے کے جرم میں قانون کے شکنجے میں آجاتے ہیں جبکہ دوسری طرف اللہ کی محبوب ترین قوم کے حکمران خود کوقانون اورآئین سے بالاترثابت کر دیتے ہیں،قوم نے عدلیہ کی آزادی کیلئے قربانیاں دیں لیکن آج حکمرانوں کے تمام مقدمات کوگہری نیندسلادیاگیاہے۔ہم اقتدارمیں رہتے ہوئے صرف ایک شخص کو بچانے کیلئے پاکستان کے تمام ادارے تباہ کردینے کی جارحانہ کوشش کرگزرتے ہیں، ہم قانون اور آئین کی دھجیاں بکھیردیتے ہیں،ہم اللہ کے سامنے کیامنہ لے کر جائیں گے!کیا قیامت کے دن یہ لوگ ہمارامنہ نہیں چڑائیں گے؟۔
ہمارے حکمرانوں کوکون بتائے دنیاکے تمام مذاہب کی کوئی نہ کوئی ایک بڑی خصوصیت ہے مثلا ہندومت عاجزی کامذہب ہے (بلاشبہ مودی اپنے دھرم کابھی سب سے بڑامجرم ہے )بودھ بے لوث ہوتے ہیں مگرروہنگیامیں انہوں نے خوداپنے ہاتھوں منہ پرکالک مل لی ہے اورعیسائیت قربانی اوریہودیت بالا دستی کادرس دیتی ہے جبکہ اسلام عدل کانام ہے،اگر ہم اسلام سے عدل اورمسلمانوں سے انصاف نکال دیں توپیچھے سوکلوگرام گوشت کاڈھیررہ جاتاہے لیکن آپ ہماری بد قسمتی دیکھئے آج یہودی،عیسائی،بودھ کے پیروکارجانوروں تک سے انصاف کررہے ہیں،ان کے معاشروں میں ملکہ سے لیکرفریادی تک کویکساں حقوق حاصل ہیں،وہا ں دوزخمی پرندے زنجیرعدل ہلادیتی ہیں لیکن اللہ کی محبوب قوم کے حکمران ہرروزانصاف،قانون اورعدل سے جوتے صاف کرتے ہیں،اگران کے خلاف کوئی فیصلہ آجائے تواس کی دھجیاں اڑادینے میں ایک لمحہ تاخیرنہیں کرتے۔
ذرادل پرہاتھ رکھ کربتائیے آج اگربرطانیہ کی عدالتیں شاہی خاندان کومحلات خالی کرنے کاحکم دیں توکیاملکہ کے پاس کوئی دوسراراستہ ہوگا؟اب آپ اللہ کے نام پربننے والے پاکستان کودیکھئے،ہماری سپریم کورٹ کے احکامات کی کس قدرتحقیر ہو رہی ہے۔اس کے فیصلوں پرعمل درآمد کی بجائے دوسرے تاخیری حربوں سے کام لیکراپنے اقتدارکودوام دیا جاتا ہے۔ایک طرف جعلی ڈگری یافتہ کی تقرری قانون کے ساتھ کھلاکھلواڑہے،عین اس وقت ایوانِ اقتدارمیں مولاناطارق جمیل عدل وانصاف کے موضوع پرلیکچردے رہے ہوتے ہیں۔
حضرت علی نے چودہ سوسال پہلے فرمایاتھا’’دنیامیں کفرکی حکومت قائم رہ سکتی ہے لیکن بے انصافی کی نہیں‘‘اورہم وہ بدنصیب لوگ ہیں جن کی حکومتوں کے سارے پائے بے انصافی کی مٹی سے بنتے ہیں اورصرف وہ لوگ حکومت کرسکتے ہیں جن کے ڈانڈے لمبے ہوتے ہیں یاجواپنے اپنے ضمیرکے گورکن وسوداگرہوتے ہیں لیکن کب تک؟؟
Comments are closed.