نمکین غزل… دباتے ہیں بیگم کا سر دیر تک ، سو سوتے ہیں وقتِ سحر دیر تک

افتخار راغب دوحہ قطر
دباتے ہیں بیگم کا سر دیر تک
سو سوتے ہیں وقتِ سحر دیر تک
نکلتا نہیں گھر میں کوئی بھی لفظ
پھڑکتے ہیں لفظوں کے پر دیر تک
غزل کہہ لوں دو پل میں اور اے خدا
ملے داد ہر شعر پر دیر تک
پہنچتے ہی گھر آگئی میری آنکھ
لڑی تھی نظر سے نظر دیر تک
میسّر ہے نذرانہ اچھّا جنھیں
نہیں کھٹکھٹاتے وہ در دیر تک
نہیں آنے والا اِنھیں جلدی ہوش
رہے گا غزل کا اثر دیر تک
یہ شاعر بتائیں کہ کیا ہے علاج
پڑھے کوئی شاعر اگر دیر تک
کبھی مل گئی کچھ زیادہ جو داد
تو آتا نہیں کچھ نظر دیر تک
سناتے ہیں ‘سر’ پُھسپھسی ہی غزل
پہ دُھنتے ہیں شاگرد سر دیر تک
اُڑائی ہے جھوٹے نے کر کے ‘ٹویٹ’
"اُڑے گی ابھی یہ خبر دیر تک”
نہ چھوڑیں گے راغبؔ وہ مائک ابھی
سنائیں گے، المختصر، دیر تک
Comments are closed.