شاہین باغ مظاہرہ: خواتین قیادت میں جمہوری قدروں کی اعلی مثال

✒️ :عین الحق امینی قاسمی 

بھارت میں بھاری اکثریت کے ساتھ بنی بی جے پی حکومت میں جہاں بہت سے قوانین بنے اور بگڑے ان میں CAAجیسا کالاقانون ،بھارت کی جمہوریت کے لئے بد نما داغ ہے ۔10/دسمبر 2019 سے قبل بھارتیہ جنتا پارٹی کی برسر اقتدار حکومت نے اپنے کیبنیٹ میں شہریت ترمیمی بل کو اولا پاس کیا ،پھر10/دسمبر2019 کو لوک سبھا سے منظور کر 11/12/2019 کو راجیہ سبھا سے بھی پاس کرا لیا گیا اور اس کے بعد صدر جمہوریہ نے بھی اسے اپنی منظوری دیدی اور دستخط ثبت کرنے کے بعد اسے حتمی قانون کی شکل دیدیا گیا ۔ اس بل کے قانونی شکل لیتے ہی آسام ،تری پورہ وغیرہ میں زبردست احتجاج شروع ہوگیا ،اس درمیان دہلی میں جامعہ کے طلباء نے بھی ،ایک معزز شہری ہونے اور جمہوریت کی بقا کے لئے احتجاج درج کرانا اپنا فرض خیال کیا ،نتیجے کے طور پراقدامی طریقے سے 13/دسمبر 2019 کو جامعہ کی سینٹرل لا ئبریری میں بے اجازت پولیس نے گھس کر ریڈنگ ہال میں طلبہ و طالبات پر بے رحمانہ طریقے پر نہ صرف لاٹھیاں برسائیں ،بلکہ ظلم و بر بریت کی ساری حدوں کو پارکر دیا ،جس سے طلباءبری طرح گھائل ہوئے ،خبر کے مطابق ایک طالب علم کی آنکھ بھی چلی گئی ،جب کہ متعد زخمی ہوئے اور ان کے ہاتھ پاؤں توڑنے پر بھی اکتفا نہیں کیا،ان کے سروں تک کو پھاڑ دیا گیا ۔اس موقع پر جامعہ کے وی سی وغیرہ نے اپنا مذمتی بیان جاری کر اطمینان کی سانس لی اور ایک عدد انکوائری بٹھانے کے نام پر طلباء کی ہمدردی بٹورنے کی ناکام کوشش کر خاموش ہوگئے ۔
پولیس کے اس ناجائز و بے ضرورت حملے کے بعد احتجاج کاروں میں مزید شدت آگئی ،یہاں تک کہ جامعہ کے سپورٹ میں جے این یوکے طلباء بھی آگئے ،بلکہ یہ آگ پھیل کر علی گڑھ تک پہنچ گئ ،وہاں اے ایم یوکے طلبا نے احتجاجی لو،کو مزید توانا کردیا ،اب یہاں دہلی میں 15/ دسمبر سےپوری طرح جامعہ کے طلباء وطالبات نے مورچہ سنبھال لیا اور دستور ہند کے خلاف ہونے والے فیصلے کا دندان شکن جواب دینے کے لئےخود کو تیار کر لیا ،یہ سارےطلبا نہتھے ضرور تھے مگر ان کےاندراپنے ملک ووطن اور اہل وطن کے تعلق سے جو پاک جذبہ تھا وہ انہیں نہتھے ہونے کے باوجود شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سربکف کھلے آسمان کے نیچے مائنس ڈگری ٹمپریچر میں بھی ثابت قدم رہنے پر مجبورکررہاتھا۔
اس احتجاج میں جہاں طلبا شامل تھے، اس سے زیادہ جوش وجنون کے ساتھ قوم کی بیٹیاں سڑکوں پر نکل کر اپنے علم وہنر سےصدائے احتجاج کی علامت بن رہی تھیں ،یہی وجہ ہے کہ جب جامعہ کے طلباء کا مارچ پارلیمنٹ گھیراؤ کے لئے ہورہا تھا ،تب طالبات بھی اپنے دم خم کے ساتھ مارچ کو منزل تک لے جانے میں اپنے ہنر آزمارہی تھیں ،مگر ہتھیاروں سے لیس پولیس جتھوں نے اپنی وردی کو تارتار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،ان طالبات پر لاٹھی ڈنڈے برسائے گئے ،ان پر آنسو گیس کے گولے داغے گئے ،ان کے پیٹوں کو بوٹوں سے کچلا گیا ،ان کے پرائیوٹ پارٹس کو لہو لہان کر جسمانی طور پر نیم مردہ حالت بنا دیا دیا گیا ، زندگی اور موت کے بیچ جینے والی ان جوان بیٹیوں کے حوصلے تب بھی پست نہیں ہوئے ،بلکہ اپنے احتجاج کاروں پر ہونے والے ہر ظلم وجبرکے سامنے دیوار بننے والی ان جواں سال بیٹیوں نے ظالموں کے دانت کھٹے کردیئے اور آہنی دیوار بن کر مردانہ وار مقابلہ کرتی رہیں اور خواب غفلت میں سونے والوں کو للکارتی رہیں کہ آج جاگنے کا وقت ہے اور تم غفلت میں ہو ،ا بھی اٹھ کھڑا ہونے کی گھڑی ہے اور تم ماحول کو سمجھنے میں لگے ہو ،یہ لڑائی تنہا میری یا میرے دوستوں کی نہیں ،بلکہ ایک سو تیس کروڑ دیش باسیوں کی ہے اور ان تمام امن پسند بھائی چارےکے پیغامبروں کی ہے جو ملک کے دستور کے محافظ ہیں اور جو دستور کو عزیز جانتے ہیں ،” احتجاج میں شامل طالبہ نازیہ نےCAAکو لے کر کہا کہ ایک سیکولر ملک میں اسطرح کا قانون بننے سے پہلے ہی خارج ہوجاناچاہئے، ہندوستان کے لوگوں نے ایسے قانون کو کبھی بھی قبول نہیں کیا ہے، اسے بھی ناکار دیں گے، اس کےلیے بس لوگوں کو سڑکوں پر اترنے کی ضرورت ہے۔ وہیں ایک طالب علم اسد نے کہاکہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرنے والا ہے، اس سے ملک میں تقسیم کے حالات پیدا ہوں گے، بی جے پی حکومت اس طرح کا قانون لاکر مسلمانوں کے ساتھ بھید بھاؤ کررہی ہے، ہمCAA او رNRCکی مخالفت کرتے ہیں، یہ صرف مسلمانوں کو ڈرانے والا ہے۔ جامعہ ٹیچرس یونین کے سیکرٹری جنرل پروفیسر ماجد جمیل کا کہنا تھا کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آج ہندوستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے طالب علم اور اساتذہ سڑکوں پر ہیں، ہم اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں کیونکہ بھارت ایک سیکولر ملک ہے یہ صرف ہندو یامسلمان کا نہیں ہے ۔ بین الاقوامی سیاسی امور کے لکچرار محمد سہراب کا کہنا تھاکہ اس شہریت ترمیمی قانون میں نہ صرف مسلمانوں کو دوئم درجے کا شہری بنا دیا گیاہے، بلکہ ایک سبجیکٹ محض بن کر رہ گئے ہیں،گویا ہم یہاں کے شہری ھی نہیں۔
ظلم کےدن بیتتے رہے ، کربناک راتیں گذرتی رہیں ،اپنے بچوں پر وردی دھاریوں کے بڑھتے ظلم اور ملک کو کالےقانون سے نجات دلانے اور دستور ہند کے تحفظ کے لئے خواتین متحد ہونے لگیں اور سریتا وہار سے کالندی کنج ہائی وے پر دہلی کے شاہین باغ علاقے میں ایک جگہ پہ بیٹھ گئیں ، ابتدا میں عموما شام کے وقت جب جامعہ کی طرف سے طلباء وطالبات اور مقامی خواتین اپنی ذاتی ضروریات سے فارغ ہوکر وہاں پہنچتیں تو اس وقت خواتین میں جمہوری اقدار کی پاسداری کا منظر دیکھتے ہی بنتا تھا،خواتین کا یہ احتجاج نہ صرف CAA/NRC کے خلاف جامعہ سے شروع ہونے والے تاریخی پروٹسٹ کے سپورٹ میں تھا بلکہ مذہبی بھید بھاؤ میں دستور ہند کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور ایک خاص طبقے کو نشانہ بناکر ملک کی جمہوریت کو مٹانے والی برسر اقتدار بی جے پی حکومت کے خلاف سمیت پورا احتجاجی ڈھانچہ جمہوری قدروں کے تحفظ وپاسداری اور قانون ودستور کے دائرے میں تھا ۔
خواتین قیادت نے ملک وسمودھان کے تعلق سے عام مسلم خواتین کو بھی جرئت وبے باکی کے ساتھ اپنی بات رکھنے کی طاقت دینے کا کام کیا تھا ،آزادی کے بعد سے لے کر آج تک مسلم عورتوں کو گونگی بہری تصور کیا جاتا رہا ،انہیں صرف چولہا پھونکنے اور بچوں کے گیلے کپڑے بدلنے والی کی حیثیت سے دیکھا جاتا رہا ،انہیں گومگو کے درمیان گھر سے باہر تک محدود دائرے میں جینے کاعادی سمجھا جاتا رہا ،اپنوں کے ساتھ ساتھ غیروں نے بھی اِس صنفِ نازک کو حقوق طلبی سے محروم رکھا ،یہاں تک کہ ملک کے سودا گروں نے بھی اِنہیں بے وقوف سمجھ کر کبھی ورغلانے اور کبھی جھانسہ دے کر قانون سازی کی خوب کوشش کی اور سچائی بھی ہے کہ اِن شاہین صفت خواتین نے اب تک ہر گام پہ صبر و ضبط سے کام لے کر نہ صرف اپنے وطن عزیز کو ترقی دینے کا کام کیا ہے بلکہ اپنے ووٹوں کی قیمت وصولے بغیر حکومت کے کام کاج کو گھر گھر تک پہونچانے میں بھر پور ساتھ دیا ہے ۔
مگر جب حکومت نے اِن کے وجود کو نشانہ بنایا ،اُن کی نسلوں کے لئے بھارت کی زمین تنگ کرنے کی پلاننگ کی اور ملک کے دستور کے خلاف کالا قانون لاکر ملک اور جمہوریت کو نقصان پہونچانے کی ناکام کوشش کی، تب اِن خواتین نے بڑھ کر خود مورچہ سنبھال لیا اس طرح شاہین باغ میں بیٹھیں ان خواتین کی جرئتوں نے نہ صرف دھیرے دھیرے پورے ملک کو شاہین باغ میں بدل کر پہلی بار آزاد بھارت میں متحد ہونے کا پیغام دیا تھا ،بلکہ یہ پورے ملک کے لئے آئڈیل بن گئیں ۔اُنہیں احساس تھا کہ آج کے یہ گولی اور ڈنڈے ہی کل ہماری نسلوں کو ڈیٹنشن سینٹر میں ذلت کی زندگی اور سسک سسک کر جینے سے بچا سکتے ہیں اور ایک باعزت شہری کا خواب تبھی پورا ہوسکتا ہے،جب ڈاکٹر امبیڈ کر کے بنائے سیکولر دستور کا تحفظ کیا جائے، مودی کے لائے ہوئے اس کالے قانون کی پرزور مخالفت کی جائے،تاکہ بھارت نہ صرف جلنے سے بچے،بلکہ نفرت کو مٹاکر آپسی اتحاد کے سہارے ایک اور بٹوارے سے بھی بچے۔اسی عزم کے ساتھ ملک کا ہر طبقہ اپنے حصے کا احتجاج درج کرانا اپنا فرض سمجھ رہا تھا اور اس کے لئے نوجوان لڑکے لڑکیاں سمیت باحجاب خواتین،معصوم بچے بچیاں، سوسال کی بڑی بوڑھی دادی اماں سب سڑکوں پر نکل چکی تھیں ،تاکہ کل ہماری نسل ہم سے ہماری بزدلی کی سزانہ پائے۔
اِن خواتین کی وطنی غیرت وحمیت کو سلام کہ اِنہوں نے یہاں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ،بلکہ خود کو للکارتے ہوئے کہا کہ کیا تم اس ملک کے باعزت شہری نہیں ہو ،کیا تمہیں اس ملک سے پیار نہیں ہے ، کیا تم نے اس دیش کی آزادی کے لئے قربانیاں نہیں دی ہیں ، کیا تم چاہتی ہو کہ دیش دوبارہ غلام بن جائے ،کیا تم باعزت شہری بن کر جینا پسند نہیں کرتی ہو ،کیا تمہیں یہ منظور ہے کہ تمہاری نسلوں کو ذلیل کیا جائے ،انہیں دیش سے نکال کر ڈیٹنشن سینٹر میں ڈال دیا جائے ،کیا تم اپنی کوکھ سے لعینوں کی اولادوں کو جنم دینا چاہتی ہو ،کیا تم اس دن کا انتظار کررہی ہو کہ تمہیں غلام اور باندی بناکر ہوس رانی کا ستم ڈھایا جائے ، تمہارے بچوں کو تلواروں کی نوک پر اچھال کرقہقہے لگائے جائیں اور کل کو تمہاری اولاد تمہاری بزدلی پر تمہیں کوسے اور شرمندہ کرے،اگر تم اِن سب کو دل سے برا مانتی ہو اور یقینا بُرا مانتی ہو ،چوں کہ تم سمیہ وصفیہ اور خدیجہ وفاطمہ کی دلدادہ ہو تو اٹھو! اور بتادو دیش کے اُن ستم گروں کو کہ تم ہمارے بچوں کو پیٹ پیٹ کر اُن کے جسم کو توڑ سکتے ہو مگر اُن کے عزائم کونہیں توڑ سکتے ،اب آو جھانسی کی رانی بن کرہم تمہارے سامنے ہیں ،تم نے ہماری خاموشی کو بزدلی سمجھا ہوا تھا، ہم گھروں سے یوں نہیں نکلتے ،لیکن آج جب دیش کا سمودھان خطرے میں ہے ،اُس کو بدلنے کی سازش کی جارہی ہے ،تب ہم رضیہ سلطانہ بن کرسڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہیں ،ہم نے آزادی کی لڑائی اس لئے نہیں لڑی تھی کہ ہمیں خوف میں مبتلا کیا جائے ،ہم نے ملک کو غلامی سے آزادکرانے کے لئے اپنے معصوم بچوں کو گولیوں کا نشانہ اس لئے نہیں بنایا تھا کہ تم اقتدار کے غرور میں یہاں کے دبے کچلے غریب مزدور کسانوں اور فٹ پاتھ پر راتیں بتانے والوں پر قہر ڈھاتے رہو ۔
پورے ملک میں جاری خواتین کے ان مظاہروں سے حکومت بوکھلائی ہوئی تھی ،اس نے اپنی انا کا سوال بنا لیا تھا، اس لئے وہ ایک انچ پیچھے ہٹنے سے بھی انکارکررہی تھی اور شاہیں باغ مظاہرین کو وقفے وقفے سے ہراساں وپریشاں کرنے کی غرض سے دن کے اجالے میں کبھی گولیوں سے تو کبھی دلا ل میڈیا کے چاٹو کاروں کے ذریعے بھدی گالیاں اور بھونڈے فقروں سے ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی ناپاک کوششیں کی جاتی رہیں ،مگر خواتین قیادت تمام پروپیگنڈوں کا ثابت قدمی اور استقلال سے جواب دیتی رہی ،اس درمیان سپریم کورٹ کے نمائندوں نے بھی ان مظاہرین کو حکومت کی پالیسیوں اور مرعوب کن لہجوں میں انہیں مظاہرہ ختم کردینے یا جگہ تبدیل کردینے کی صلاح دی ،مگر ان خواتین نے اپنے دانشمندانہ جوابات سے نمائندوں کو الٹے پاؤں واپس ہونے پر مجبور کیا ۔
جب ملک کورونا کی وبا سے دوچار ہوا، لوگ اپنے اپنے گھروں میں روپوش تھے ،حکومت اور پولیس مل کر مظاہرین کو کھدیڑنے کی ساری تدبیریں آئے دن اپنا رہےتھے ،تب بھی علامتی طور پر چند خواتین ،تمام تر احتیاطی تدابیر کے ساتھ سناٹوں میں تنہاڈٹی ہوئی تھیں ،جب ہر طرف سے ناکہ بندی ہوگئی ،شاہین باغ کی گلیوں اور مکان کی چھتوں پر تحفظ اور سیکورٹی کے نام پر فورسز بھر دئیے گئے ، درجن بھر سے زائد مظاہرین مردو خواتین کو بے وجہ اٹھا لیا گیا ،ڈرون کیمرے نصب کردیے گئے ،تب تک شاہین باغ مظاہروں کے 101 دن پورے ہوچکے تھے ۔خواتین قیادت نے 101دن پورے کرکے حکومت پہ اس بات کو واضح کر دیا کہ ہم تادم زیست شہریوں کے حقوق اور دستور کے تحفظ کے لئے لڑتے رہیں گے ،ہمیں خاموش کرنا بہت آسان نہیں ہے ،مگر ہم آج سے اس لئے اپنے مظاہرے موقوف کررہے ہیں ،تاکہ ملک پہلے صحت یاب ہولے ۔

Comments are closed.