نہتے کشمیریوں کاخون بولتاہے

عبدالرافع رسول
ارض کشمیرپر ظلم و استبدادکی نت نئی لہو رنگ کہانیوں کی طویل فہرستیں جابجا آویزاں ہے ۔چاک گریباں اسلامیان کشمیرنالہ کناں ہیں لیکن پیہم گرتی ان کی لاشوں اوران کے موج خون کودیکھ کربھی دنیاوالوں کادل نہیں پسیچ جاتا۔گذشتہ تین عشروں سے ایسے لاتعداددلدوزواقعات رونماہوئے ہیں جب سفاک بھارتی فوج نے پرموشن کی حرص وآزکی آگ اورسینے پرمیڈل سجانے کی طمع کی روگ میںکشمیری نوجوانوں کورات کے وقت گھروں سے گرفتارکرکے پاس ہی علاقوں میں فرضی جھڑپ رچاکر انہیں شہید کردیااورپھراس بات کاڈھول پیٹاکہ انہوں نے فوج پرحملہ کیااورجوابی حملے میں مارے گئے۔لیکن سفاک بھارتی فوج کی ایسی خونین کارروائیوں کوکسی نے نہیں ماناکیونکہ ایسے واقعات میں شہیدہوئے کشمیری نوجوانوں کے حوالے سے ان کے لواحقین ،محلے دار اوراہل علاقہ سب جانتے تھے کہ یہ مجاہد نہیں تھے بلکہ دکاندار،صنعت کار،سٹوڈنٹ ،نوکری پیشہ یاپھرکسان اورمزدورتھے۔
کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ کشمیر کی سلگتی اور لہو لہو وادی میں پیش آئے سانحات پرعالمی اداروںمیں کوئی ارتعاش پیدانہیں ہوگا۔ یہ ادارے بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔دراصل ان کی خاموشی ایک طویل اور گہری سازش (Planning)کا شاخسانہ ہے ۔انسانیت کے سفاک دشمنوں ، قاتلوں اورمکروہ درندو ں کے حافظے میں بہتے لہو کا یہ پیغام محفوظ رہنا چاہیے کہ رات جتنی بھی لمبی ہو کبھی نہ کبھی ختم ضرور ہوجاتی ہے ۔ ایک دن ضرور آئے گا ، جب انسانیت کے قاتل بے نقاب ہو جاتے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ خون بولتاہے اورنہ صرف قاتل کے کھروں کانشان بتاتاہے بلکہ قاتل کاگریبان پکڑکراسے سب کے سامنے لاکھڑاکرتاہے۔لیکن بصارت پرپردے اورکانوں میں سیسہ پڑے تو وہ دوسری بات ہے ۔عالمی بے رخی کے باوجود البتہ مظلوم انسانیت کا بہتا لہو اپنا خراج پانے میں سرخرو ہوجائے گا ۔ان سفاک قاتلوں کوعلم ہوناچاہئے کہ معصوم کشمیریوں کا لہو چلا چلاکر تمھیں بے نقاب کردے گا۔
منگل 29دسمبر 2020کو مقبوضہ کشمیر میں درندہ صفت ایک بھارتی فوجی افسر اور اس کے دو ساتھیوں پر جعلی مقابلے میں راجوری کے تین مزدوروں کی لاشوں کے ساتھ ہتھیارباندھ کر انہیں کشمیری مجاہدقرار دینے کے جرم میں مبینہ طورپر ملوث پایاگیا ہے۔گذشتہ تین عشروں میںقابض بھارتی فوج کے ہاتھوںایسے بے حدوحساب سانحات رونماہوئے ہیں کہ جعلی مقابلوں کے ڈرامہ رچاکرنوجوانان کشمیرکوموت کے گھاٹ اتاراگیا اورپھرقاتل فوجی افسروں اوراہلکاروںسے کوئی بازپرس ،جواب طلبی،مواخذہ اورمحاسبہ ہوا نہ ہی انہیں سزا ملی ۔قابض بھارتی فوج کشمیری مسلمانوں کے اجتماعی قتل کے جرم عظیم کااعتراف نہ بھی کرے توبھی ان کے جرائم کاپتالگ ہی جاتاہے ۔اسلامیان کشمیرکوبھارتی فوج کے ہاتھوں نازی استبداد جیسا سامنا ہے۔ اس استبداد کی کہانی ایک مختصرکالم کے پانچ لفظوں میں سما نہیں سکتی ۔ہمالہ جیسے ظلم کے پہاڑوں کاکیاشمارہے۔ لیکن باوقار قوم مگر ننگ خلق جابروں کے کرتوت پوری طرح جانتی ہے۔
اپنی سفاکیت کوجاری رکھتے ہوئے سفاک بھارتی فوجی اہلکاروں نے 18جولائی2020بروز ہفتہ کشمیرکے جنوبی ضلع شوپیاں کے امشی پورہ گائوں میں ایک اور جعلی مقابلہ رچاکرتین عدم شناخت مجاہدین کو شہید کرنے کا دعوی کیا تھاتاہم گائوں کے مکینوں نے فوری طور پرفوج کے اس دعوے کو شدت سے مسترد کردیا۔ان کاکہناتھا کہ فوجی اہلکاروں نے نیم شب کو ضلع راجوری سے آئے ہوئے مزدوروں کی ایک عارضی قیام گاہ پرچھاپہ مارا،اوریہاں مقیم تین مزدوروں کو اپنے ساتھ اٹھاکر لے گئے ،انہوں نے اپنی گرفتاری پرشور مچایالیکن انہیں دبوچ لیاگیا۔پھرسحرہنگام کوعلاقے میں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سنائی گئی جس کے بعدسفاک بھارتی فوج کی طرف سے بیان سامنے آیا کہ یہ تینوں مجاہد تھے اورایک مقابلے میں مارے گئے ۔
تینوں مزدورنوجوان21سالہ امتیاز احمد ،25سالہ ابرار احمد اور17سالہ محمد ابرار ،راجوری کے رہنے والے تھے۔سفاک بھارتی فوج نے انہیں نہایت بے رحمی کے ساتھ شہیدکرکے ان کی لاشوںکو شمالی کشمیرکے ضلع بارہمولہ کے علاقے گانٹھ مولہ کے قبرستان میں سپرد خاک کردیاگیا۔ گانٹھ مولہ گائوں کایہ قبرستان شوپیان سے تقریباََسو کلو میٹر کی دوری پرواقع ہے اوراس قبرستان میں پہلے عدم شناخت شہداء کو سپرد خاک کیاجاتارہالیکن اب اس قبرستان میںکشمیرکے شناخت شدہ شہدائے کوبھی اس ڈر کے مارے دفنایا جاتاہے کہ کہیں انکے جنازوں میں ہزاروں لوگ شرکت نہ کرسکیں اورفلک شگاف نعروں سے بھارت کے دروبام نہ ہلائیں۔ سوشل میڈیا پرتینوں مزدوروں کو جعلی مقابلے میں شہید کئے جانے کے ساتھ جب ان تینوںکی تصاویر وائرل ہوئی تو پورے کشمیرمیں سوگ کی کیفیت پیداہوئی،سوشل میڈیاکے ذریعے اس خبرکے تہلکہ مچ جانے کے بعدسفاک بھارتی فوج کے سیاہ کرتوت ایک بار پھر طشت از بام ہوئے۔
18اگست کوہی سرینگر میں قابض بھارتی فوج کے ترجمان راجیش کالیا کاکہناتھاکہ امشی پورہ شوپیان کیس میں فوج کی جانب سے کی جانے والی تفتیش مکمل ہو چکی ہے۔ اس تفتیش کے دوران بادی النظر میں کچھ شواہد سامنے آئے ہیں جو یہ اشارہ کرتے ہیں کہ آپریشن کرنے میں ’’افسپا‘‘1990میں دیے گئے اختیارات کی حد سے تجاوز کیا گیا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کے منظور شدہ کوڈ کہ فوجی افسران کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ہے کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔اس کے نتیجے میں انضباطی اتھارٹی نے ہدایت کی ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کرے جو پہلی نظر میں جوابدہ ہیں۔واضح رہے کہ جموں و کشمیر میں بھارتی کالا قانون افسپا 10ستمبر 1990کو نافذ کیا گیا تھا۔ ہندوستان کے کالے قانون’’افسپا‘‘ کے تحت اسلامیان کشمیرکاگھیرائوجاری ہے اورقابض بھارتی فوج کے پاس کشمیرمیں ماردھاڑ کے وسیع اختیارات ہیں یہ گویااسلامیان کشمیرکے قتل عام کاکھلا لائسنس ہے۔
پوری گہرائی کے ساتھ معاملے کودیکھاجائے کہ حسب سابق شوپیان کے اس جعلی مقابلے پربھی قابض بھارتی فوج کا یہ ایک بہت ہی مبہم بیان تھا جس میں کہاگیا کہ ابتدائی شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فوجی اہلکاروں نے شوپیان معاملے میں افسپاکے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ ا صریحاََیک جعلی انکائونٹر تھا۔ یہ بھی نہیں کہا گیا ہے کہ مارے جانے والے مزدور تھے اوریہ بھی نہیں بتایاملوث فوجی درندوں کوکس نوعیت کی سزادی جائے گی۔تاہم ایک بات اہم ہے کہ قابض بھارتی فوج نے قبول کرلیاہے کہ وہ کشمیرمیں جعلی انکائونٹر رچاکراسلامیان جموںوکشمیرکے قتل عام میں ملوث ہے اور1990سے آج تک بارباراس جرم عظیم کاارتکاب کرتی ہے۔
جعلی مقابلے میںشہیدکردیئے گئے تینوں نوجوانوں کے لواحقین نے تحقیقات پراپنے ردعمل میںکہاکہ تب تک سارافریب اوردھوکہ ہے جب تک نہ قاتل اہلکاروں کو سزائے موت دے دی جائے۔لواحقین نے اس انکوائری رپورٹ پراپنامطالبہ دہرایاکہ ان کے بچوں کی لاشوں کو فوری طور پر ان کے حوالے کیا جائے کیونکہ وہ اپنے بیٹوں کی لاشوں کا انتظار کر رہے ہیں ۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ ان قابض فوجی درندوںکو سخت سے سخت سزاملنی چاہئے جنھوں نے فرضی مقابلے کاڈرامہ رچاکرانکے بچوں کوموت کے گھاٹ اتارا۔
خیال رہے کہ سفاک بھارتی فوجیوں کوکشمیری مسلمانوں کے قتل عام پرکبھی سزانہیں ملتی۔سنہ 2000میں جنوبی کشمیر کے اسلام آباد ضلع کے پتھری بل گائوں میں ایک جعلی مقابلے میںقابض بھارتی فوج نے سات کشمیری نوجوان شہیدکردیئے تھے۔ لیکن14سال بعدقابض بھارتی فوج نے کہا کہ فوجیوں کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ملا اور یہ کیس سنہ 2014میں بند کردیا گیا۔اسی طرح سنہ 2010میں شمالی کشمیر کے ضلع کپواڑہ میں مچھل علاقے میں سفاک بھارتی فوج نے ایک جعلی مقابلے کاڈرامہ رچاکر تین نوجوان شہیدکردیئے ۔جن کی شہادت کے بعد دو ماہ تک وادی کشمیر میں مظاہرے ہوئے اوران مظاہروں کوختم کرنے کے لئے سفاک بھارتی فوج نے اپنی کھلی بربریت میںمزید100نوجوان شہیدکردیئے ۔اس سانحے پرفوجی ٹریبونل بینچ نے سات درندہ صفت فوجی اہلکاروںجن میں ایک میجر اور دو دیگرافسران بھی شامل تھے کو عمر قید کی سزا سنائی لیکن سنہ 2015میں قاتل فوجی اہلکاروںنے نئی دہلی میں ٹریبونل بینچ کے سامنے کورٹ مارشل کی کارروائی کو چیلنج کیا اور 25جولائی سنہ 2017کوفوجی ٹریبونل نے تمام ساتوںقاتل فوجی اہلکاروں کی عمر قید کی سزا کو معطل کرکے بری کردیا۔
Comments are closed.