یکم جنوری موج ومستی کی گھڑی یا احتساب کا دن؟

محمدنافع عارفی
کارگزارجنرل سکریٹری آل انڈیا ملی کونسل بہار
گروپ ایڈیٹربصیرت آن لائن
موبائل نمبر:9304145459
جس وقت یہ تحریر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگی؛اس وقت کلنڈر کا ایک ورق پلٹ چکا ہو گا،اورہم 2021میں ہوں گے،یعنی اپنی زندگی سے ایک سال دور اوراپنی موت سے ایک سال قریب ہوں گے،دن ورات کا بدلنا اورسورج نکلنا اورڈوبنا جس پر مہینے اورسالوں کے حساب کادارومدار ہے وہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشارد ہے: اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ(آل عمران:190)کہ آسمان وزمین کی تخلیق میں اوردن و رات کے ادلنا بدلنا یقینا اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں علقمندوں کے لیے،یعنی ایک دانا اوربینا شخص آسمان اورزمین کی تخلیق پر ورفلکیات وارضیات کا علم حاصل کر لے اللہ کی معرفت حاصل کر سکتا ہے،اوران باتوں پر غوروفکر کر کے خدا کی خدائی پر ایمان لے آئے گا ایسے ہی تاریخوں کا بدلنا اورمہینوں کا گزرنا اورپھر مہینوں کے ذریعہ سالوں کاختم ہوجانا اورنئے سال کا شروع ہونا یہ محض ایک سال کی تبدیلی نہیں ہے؛ بلکہ ایک باشعور انسان کے لیے یہ وقت احتساب ہے،مومن کی شان یہ ہے کہ وہ اللہ کی ہر نعمت کے تئیں بیدار اورجواب دہ ہو،کیوں کہ یہ نعمتیں جو اللہ کی طرف سے ہمیں عطا کی گئیں ہیں ان کے بارے میں ہم اللہ کے حضورجواب دہ ہیں،چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:ثم لتسئلن یومئذ عن النعیم۔(التکاثر:8)یعنی اللہ تعالیٰ تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال کرے گا جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عطا فرمائی ہیں،کہ جس نعمت کا شکر تم نے کس طرح اداکیا،کیا ان نعمتوں کے بارے میں تم نے اللہ اورتاس کے رسول کے حکم پر عمل کیا یا نہیں؟
اللہ کی جونعمتیں ہمیں اس دنیا میں میسر ہیں،اس میں ایک عظیم ترین نعمت وقت اورعمر ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:نعمتان مغبون فیہما کثیرمن الناس الصحۃ والفراغ۔(صحیح البخاری،حدیث نمبر:6075)کہ اللہ کی دو نعمتیں ایسی ہیں جس بارے میں بہت سارے لوگ بالکل ہی لا پرواہ ہیں،صحت وتندرستی اوروقت،یعنی صحت و تندرستی کے زمانے میں انسان انتہائی لا پرواہی کے ساتھ اپنی زندگی گزارتا ہے اورعمر عزیزکا بیش قیمت سرمایہ لا یعنی کاموں اوربے مقصد چیزوں میں برباد کرتا رہتا ہے،بس اس کا مسلک یہی ہوتا ہے ”صبح ہو تی ہے شام ہوتی ہے٭عمر یونہی تمام ہوتی ہے“ہزاروں گھنٹے،دن ورات انسان اپنی عاقبت سے بے خبر ولاپرواہ بس یونہی سڑکوں پر مٹر گشتیوں،اورموبائل کے اسکرین پر کھوئے ہوئے برباد کردیتا ہے،پھر جب وقت گزر جاتا ہے اوروہ پلٹ کر ان دنوں کو یاد کرتا ہے تو اس کے سامنے آنسوبہانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا،بطورخاص ہمارے نوجوان اپنا وقت،اس قدر برباد کرتے ہیں کہ اگر انہیں اس کا ہلکا سا بھی احساس ہوجائے توشاید اس احساس کے بوجھ تلے ندامت کے آنسؤوں میں ڈوب کر مرجائیں گے،نواجوانوں کا فلسفہ ان کے رویوں سے یہی آشکارہوتا ہے کہ جوانی کے یہ دن ہیں،موج ومستی اورعشق محبت کی وادیوں،جل پریوں کے آغوش اورحسیناؤوں کے زلفوں کے سائے میں گزرجائے تبھی تو جونی کا مزہ ہے ورنہ توکیا خاک جوانی ہے؟حالاں کہ سچائی یہ ہے کہ یہی وہ دن ہیں جس کے بارے سب سے زیادہ محتاط رہنے اورقدم قدم پر اللہ سے ڈرنے کی ضرورت ہے،کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:لا تزول قددم ابن آدم یوم القیامۃ حتٰی یسئل عن خمس:عن عمرہ فیم أفناہ وعن شبابہ فیم أبلاہ ومالہ من أین اکتسبہ وفیم أنفقہ وماذا عمل فیم علم (ترمذی باب ماجاء فی شأن الحساب والقصاص،حدیث نمبر:2416)کہ روز قیامت آدم کی اولاد سے پانچ سوال ہر حال میں ہوں گے اوراسے جواب دینا ہی ہوگا،(۱)اس کی عمر کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ بالغ ہونے کے دن سے آخری سانس تک دنیا میں جوتمہیں موقع ملا اس میں تم نے کیا کیا؟اللہ کی اطاعت کہاں کہاں کی؟اوراللہ اوراس کے رسول کے کن کن حکموں سے اورکب کب تم نے اعراض اوررو گردانی کی؟اوربطورخاص اللہ تعالیٰ جوانی کے بارے میں دریافت فرمائیں گے کہ جوانی کے دن ورات کس طرح بتائے؟جوانی کے کن لمحات کو اللہ کی رضا اورخوشنودی کے لیے استعمال کیا؟اورجوانی کے کن اوقات میں اللہ اوراس کے رسول سے بغاوت کی،جوانی کے بارے میں الگ سوال اس لیے کہ جوانوں کے دنوں کی عبادتیں اللہ کو پیاری ہیں،اوریہی وہ دن ہیں جن میں انسان اپنی دنیا وآخرت سنوارتا اورسجاتا ہے،اوراسی جوانی کی شہ زوریاں انسانو کو شیطان کا اسیر وغلام بنا کر اللہ اوراس کے رسول کی باغی بنادیتی ہے،اسی لئے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نوجوانوں کے لیے جوجوانی میں اللہ کی عبادت کریں،قیامت کے روز عرش کے سائے میں جگہ پانے کی بشارت دی ہے،اسی طرح اللہ تعالیٰ مال و دولت اورعلم کے بارے میں سوال کرے گا کہ مال و دولت جائز طریقے سے حاصل کی یا نہیں؟اورجو کچھ حاصل کیا اس کو جائز مصرف میں خرچ کیا؟یا عیاشیوں میں اڑایا،اسی طرح علم کے بارے میں سوال ہوگا کہ اس پر عمل کیا یا نہیں؟
2020ہم سے رخصت ہو گیا اور آج 2021کی سورج اپنی کرنیں بکھیررہاہے،تو یہ دن ہمارے لیے موج ومستی اورعیاشیوں کا نہیں بلکہ ایک مومن کی شان ہے کہ وہ یکم جنوری سے لے کر 31دسمبر تک کا رجسٹر اپنے سامنے کھول کر بیٹھے اورایک ایک لمحہ پر رک کر غور اوراپنامحاسبہ کرے کہ اللہ کی اس عظیم نعمت سے ہم نے کتنا نفع اٹھایا اورکتنا ضائع کیا؟یہ بارہ مہینے کیا اللہ کی اطاعت میں گزرے یا اللہ کی نافرمانی اورشیطان کی غلامی ہم نے گزاری،اگر اللہ عبادت اوراس کی اطاعت میں یہ دن گزرے ہیں تو سجدہ شکر بجا لایے،اورخدانخواستہ اللہ کی نافرمانی میں یہ دن گزرے ہیں تو بھی اللہ کے حجور سجدہ ریز ہو جائیں اورندامت کے آنسو بہائیں،اللہ سے معافی کے طلب گار ہوں،خدا کے حضور کریں،اورآئندہ گناہون سے بچنے کاعہد اللہ سے کریں اوراللہ سے گڑگراکر اس عہد کی پاسداری کی توفیق مانگیں،یہی ہے 31دسمبر کی رات کا عمل اوریکم جنوری کا مومنانہ سبق۔
Comments are closed.