آپ کے شرعی مسائل؟

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا ۔ بانی وناظم المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد
ٹیپ ریکارڈ سے اذان
سوال: آج کل بعض خلیجی ملکوں میں ایک ہی وقت میں اور خوبصورت اذان دینے کے لئے دو طریقوں کو رواج دینے کی کوشش کی جار ہی ہے، ایک یہ کہ اذان کا ریکارڈ سی ڈی میں موجود ہوتا ہے، جب اذان کا وقت ہوتا ہے تو یہ سی ڈی چلا دی جاتی ہے، دوسرے: مرکزی مسجد میں کوئی اچھی اذان دینے والا مؤذن اذان دیتا ہے اور اس کو تمام مسجدوں سے نشرکر دیا جاتا ہے، اس طرح اذان دینا درست ہے یا نہیں؟ (عبدالسمیع قادری، شارجہ)
جواب: اذان صرف نماز کا اعلان نہیں ہے؛ بلکہ بجائے خود ایک عبادت بھی ہے؛ اسی لئے اذان دینے والے کا باوضوء ہونا بہتر ہے، اگر اذان کا مقصد صرف اعلان ہوتا تو سفر میں جب کہ تمام نماز پڑھنے والے جمع ہوں، اذان دینے کا حکم نہیں ہوتا؛ اس لئے اذان کا ریکارڈ سنا دینا یا جیسے ریڈیو پر اعلان نشر ہوتا ہے، اس طرح اذان کا نشر کر دینا اذان کی روح کے خلاف ہے، اگر ریکارڈ ہو اور اس کو بجا دیا جائے تو یہ اذان نہیں ہے، اذان کی نقل وحکایت ہے، اس کو اذان نہیں سمجھا جائے گا، اور یہ کافی نہیں ہوگا، خود رابطہ عالم اسلامی کے تحت ’’ المجمع الفقہی الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ نے ۱۴۰۶ھ (دورۂ تاسعہ) میں جو فیصلہ کیا ہے، وہ یہ ہے:
’’ نماز کا وقت داخل ہونے پر مسجدوں میں ریکارڈر اور اس طرح کے دوسرے آلات کے ذریعہ اذان نشر کرنے پر اکتفاء کرنا کافی نہیں ہے، اس سے عبادت (اذان) کی ادائیگی نہیں ہوگی، مسلمانوں پر واجب ہے کہ ہر نماز کے وقت ہر مسجد میں براہ راست اذان دی جائے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر اب تک کا معمول ہے‘‘
اگر ایک مسجد میں مؤذن نے اذان دی اور اسی اذان کو ساتھ ساتھ دوسری مسجدوں میں نشر کر دیا گیا تو اذان تو ہو جائے گی؛ کیوں کہ یہ براہ راست ایک مکلف شخص کی دی ہوئی اذان ہے، مگر سنت ادا نہیں ہوگی، سنت یہ ہے کہ ہر مسجد میں الگ الگ اذان ہو، فتاویٰ محمودیہ میں ایک استفتاء پر حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کا جواب اس طرح ہے:
’’ دو مسجدیں قریب قریب ہیں، ایک کی اذان دوسری تک سنائی دیتی ہے تو کیا ایک ہی مسجد میں پڑھنا کافی ہے یا نہیں؟ اگر کافی نہیں تو دوسری مسجد والے کہ جس میں اذان نہیں ہوئی تھی، گنہگار ہوں گے یا نہیں؟
الجواب حامدا ومصلیا: دونوں مسجدوں میں علیحدہ علیحدہ اذان مسنون ہے، صرف ایک پر اکتفاء کرنا خلافِ سنت ہے، جو لوگ ایسا کریں گے تو وہ تارک سنت ہوں گے‘‘ (فتاویٰ محمودیہ: ۵؍ ۳۹۹، باب الاذان ، جامعہ فاروقیہ)
سجدۂ تلاوت کا فدیہ
سوال: عام طور پر میت کی نمازوں کا فدیہ ادا کیا جاتا ہے؛ لیکن بہت سی دفعہ سجدۂ تلاوت بھی ذمہ میں باقی رہ جاتا ہے، تو کیا اس کا بھی کوئی فدیہ ہے؟ ( حامد حسین، منڈی میر عالم)
جواب: قرآن وحدیث میں تو سجدۂ تلاوت پر فدیہ کا ذکر نہیں آیا ہے؛ اس لئے سجدۂ تلاوت چھوٹ جانے پر فدیہ واجب نہیں ہے؛ لیکن چوں کہ سجدہ بھی نماز کا ایک جزء ہے اور آیت سجدہ کی تلاوت پر واجب ہے؛ اس لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ احتیاطاََ فدیہ ادا کر دیا جائے؛ چنانچہ مشہور صاحب افتاء حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ فرماتے ہیں:
’’ سجدہ تلاوت رہ گئے ہوں تو احتیاط اس میں ہے کہ ہر سجدے کے بدلے میں پونے دو سیر گندم یا اس کی قیمت کا صدقہ کیا جائے‘‘ (جواہر الفقہ: ۱؍۳۹۳)
روضۂ اطہر پر ہاتھ باندھ کر سلام پیش کرنا
سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضۂ اطہر پر جب سلام پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو کیا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا چاہئے؟ بعض حضرات اس سے منع کرتے ہیں کہ یہ عبادت کی کیفیت ہے اور عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ (ابو الحسن قادری، ملک پیٹ)
جواب: بہتر ہے کہ روضۂ اطہر پر ہاتھ باندھ کر اس طرح کھڑا ہو کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ہو، اور چہرہ روضہ شریف کی طرف، اس کا مقصد عبادت نہیں ہے، احترام ہے، اور اللہ تعالیٰ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر لائق احترام کون ہو سکتا ہے؟ اہل علم نے اس کی صراحت کی ہے:
’’فقام تجاہ الوجہ الشریف متواضعا خاضعا خاشعا مع الذلۃ والانکسار………. واضعا یمینہ علی شمالہ أی متأدبا فی حال اجلالہ مستقبلا لوجھہ الکریم (ارشاد الساری الی مناسک ملا علی قاری: ۵۵۸)
علماء ہند میں مشہور صاحب علم شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے بھی یہ بات لکھی ہے کہ بارگاہ نبوی میں احساسِ عظمت کے ساتھ اس طرح کھڑا ہو کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے جیسا کہ نماز کی حالت میں رکھتا ہے:
’’ در وقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم وقوف در آن جناب با عظمت دستِ راست، بر دست چپ نہند، چنانکہ در حالت نماز کند ((جذب القلوب: ۲۱۷)
جالی دار کپڑوں میں نماز
سوال: آج کل نیٹ کے کپڑوں کا رواج ہو گیا ہے، جیسے آستین یا پنڈلی کا حصہ جالی دار کپڑوں کا ہوتا ہے، اس میں بدن پوری طرح نظر آتا ہے، اگر خواتین اس طرح کا کپڑا پہن کر نماز ادا کریں تو کیا ان کی نماز درست ہو جائے گی؟ (شبانہ اختر، بنجارہ ہلز)
جواب: کپڑے کا مقصد جسم کو چھپانا ہے نہ کہ جسم کو دکھانا؛ اس لئے ایسا کپڑا پہننا نماز سے باہر بھی جائز نہیں ہے، اور اگر ایسے کپڑے پہن کر نماز ادا کرے تو نماز درست نہیں ہوگی:
’’ إذا کان الثوب رقیقا بحیث یصف ما تحتہ أی لون البشرۃ لا یحصل بہ ستر العورۃ اذ لا ستر مع رؤیۃ لون البشرۃ‘‘ (حلبی کبیری: ۱۲۴)
بہت افسوس کی بات ہے کہ بے شرمی اور بے حیائی پر مبنی ایسے ملبوسات مسلم سماج میں بھی رواج پا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔
تولیدی مادہ کو محفوظ کرنا
سوال: ۲۲؍ دسمبر ۲۰۲۰ء کے ایک انگلش اخبار کے مطابق آج کل کھلاڑی لڑکیاں، ملازمت پیشہ خواتین ودیگر شعبہ جات زندگی سے تعلق رکھنے والی نوجوان لڑکیاں اور شادی شدہ خواتین اپنا کیرئیر بنانے کی خاطر حاملہ نہ ہونے کے لئے اپنے مادۂ منویہ کے انڈے کسی دواخانہ کے فریزر میں محفوظ کروا دیتی ہیں، اسے انگلش میں Egg Freezing یا Eggs Frozen کہتے ہیں،یہ کام IVF کلینکس انجام دیتے ہیں، IVF کے ماہرین کی نگرانی میں یہ کام کیا جاتا ہے، ملکِ ہند میں عورات کے انڈوں کو فریزر میں رکھوانے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے ، کیا شرعی طور پر مسلم نوجوان لڑکیوں یا ملازمت پیشہ یا غیر ملازمت پیشہ خواتین اپنے مادۂ منویہ کے انڈوں کو فریزر میں رکھوا سکتی ہیں؟ ان انڈوں کے ذریعہ لڑکے یا لڑکی کی ولادت کا سسٹم کیسا ہوگا؟؟ کیا یہ سسٹم جائز ہوگا یا نہیں ہوگا؟ (قاری ایم ایس خان، ملک پیٹ)
جواب: اولاد کے پیدا ہونے اور انسان کے ماں باپ بننے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک فطری نظام قائم فرمایا ہے، اسی نظام کے تحت شروع سے نسل انسانی کی افزائش کا سلسلہ جاری ہے، اس میں حیا کا لحاظ بھی ہے، نسب کی حفاظت بھی ہے اور انسانی شرافت کی بھی پوری رعایت ہے، کسی شدید مجبوری کے بغیر اس کو چھوڑ کر دوسرا طریقہ اختیار کرنا فطرت کے خلاف ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ لہٰذا اولاََ تو کیرئیر بنانے کے لئے اولاد سے بچنا ہی ایک قبیح عمل ہے، اور پھر اس کے لئے مرد یا عورت کا اپنے مادۂ تولید کو فریزر میں محفوظ کرنا اور بھی بری بات ہے، قدرت کی طرف سے انسان کے جسم میں مادۂ تولید کی جگہ مقرر ہے اس سے ہٹ کر بلا ضرورت مصنوعی جگہ پر رکھنا خلاف فطرت ہونے کی وجہ سے جائز نہیں، اگر کسی نے اس طرح مادۂ تولید کو محفوظ کر ہی لیا تو اجنبی عورت کے جسم میں مادۂ تولید کی پرورش ناجائز بھی ہوگی اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد کا نسب بھی اس مرد سے ثابت نہیں ہوگا؛ کیوں کہ جو بچہ بیوی کے بطن میں پرورش پائے، اسی کا نسب مرد سے ثابت ہوتا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بچہ صاحب فراش کا ہوتا ہے: الولد للفراش (بخاری، حدیث نمبر: ۶۸۱۸) اگر شوہر کا مادہ تولید محفوظ کرا دیا اور بیوی نے شوہر کے انتقال کے بعد اس سے اپنے آپ کو حاملہ کیا تو یہ بھی جائز نہیں ہوگا؛ کیوں کہ شوہر کے انتقال کے بعد وہ اس کی فراش باقی نہیں رہی؛ اس لئے اب وہ اس کے بچہ کی ماں نہیں بن سکتی؛ البتہ اگر کسی بیماری کی وجہ سے فطری طریقہ پر عورت کا ماں بننا ممکن نہ ہو اور یہ بات ممکن ہو کہ شوہر کا مادۂ منویہ محفوظ کر کے پھر عورت کے جسم میں منتقل کر دیا جائے، مادہ شوہر کا ہو اور اس کی پرورش اسی کی بیوی کے رحم میں ہو تو اس کی گنجائش ہوگی؛ بشرطیکہ ڈاکٹر نے اس کا مشورہ دیا ہو اور شوہر وبیوی دونوں اس پر رضامند ہوں؛ کیوں کہ یہ علاج کی ایک صورت ہے۔
تولیدی مادہ کی فروخت
سوال: خارجاََ مسموع ہوا کہ بعض نوجوان لڑکے لڑکیاں بوجہ غربت اپنا مادۂ منویہ اور خون بیچا کرتے ہیں اور یہ مادہ منویہ لا ولد جوڑوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، کیا از روئے شریعت غربت کو دور کرنے کے لئے مسلم لڑکوں اور لڑکیوں یا نوجوان عورت اور مرد ایسا کر سکتے ہیں؟ ( قاری ایم ایس خان، ملک پیٹ)
جواب: یہ صورت قطعاََ جائز نہیں ہے، زمانۂ جاہلیت میں لوگ مادہ کی نر جانور سے جفتی کراتے تھے اور اس کے بدلہ میں نر جانور کے مالک کو اجرت ادا کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع فرما دیا:
نھی النبی صلی اللہ علیہ وسلم عن عسب الفحل (بخاری، حدیث نمبر: ۲۲۸۴) یہ تو اس سے بھی کہیں بدتر شکل ہے، مرد یا عورت کے مادہ تولید کے بیچنے میں دو قباحتیں ہیں، ایک تو یہ انسانی شرافت کے خلاف ہے، انسان اور اس کا کوئی جزو ایسی چیز نہیں ہے جس کی خریدوفروخت ہو، دوسرے: انسان کی ایک خصوصیت نسب اور شناخت کی حفاظت ہے، مادہ تولید کے فروخت کرنے اور استعمال کرنے میں نسب کی حفاظت نہیں ہو سکے گی؛ اسی لئے تو شریعت میں زنا کو بہت بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے؛ لہٰذا مادۂ تولید کی خریدوفروخت حرام اور شدید گناہ ہے۔
رحم کرایہ پر دینا
سوال: بعض غریب خواتین لا ولد جوڑوں کے لئے اپنا رحم کرایہ پر دیتی ہیں، اس کے عوض انہیں معقول رقم دی جاتی ہے، کیا بوجہ غربت یا راتوں رات لکھ پتی بننے کے چکر میں مسلم عورتیں اپنا رحم کرایہ پر دے سکتی ہیں؟؟ (قاری ایم ایس خان، ملک پیٹ)
جواب: رحم کرایہ پر دینا ناجائز وحرام ہے، اور اس میں انسانیت کی تذلیل ہے، غربت کا علاج گناہ اور اپنی شرافت کو بیچنا نہیں ہے، غربت کا علاج محنت اور جدوجہد ہے، اور اللہ نے ہر جاندار کے رزق کا ذمہ لیا ہے، یہ زنا ہی کی ایک صورت ہے، اور یہ نزاع کا بھی سبب بن سکتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ سماج کو اس سے بچانا ہر سمجھ دار شخص کا فریضہ ہے۔
(بصیرت فیچرس)
Comments are closed.