سال نو کی آمد اور ہم مسلمان

یہ اقامت ہمیں پیغام سفر دیتی ہے
زندگی موت کے آنے کی خبر دیتی ہے
گزشتہ شب ہی ہمارا سال رفتہ ہم سے الوداع کہہ کر چلا گیا یہ تک نہ پوچھا میں جاتا ہوں اور اس کے جاتے ہی کچھ لوگ اس کو الوداع کرنے کے لئے مختلف قسم کی باتیں کرنے لگے ایک بڑی تعداد ان کی تھی جو دوستوں کو دعائیں دینے لگے تو کچھ اس پر مباکبادی کے پیغام دینے لگے کسی نے یہ شعر سنا دیا کہ اک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات سے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا پر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے سال نو کے نام پر جشن منانے کے لئے انتہائی غلیظ اور حرام طریقہ اختیار کرکے ناچ گانے اور مجرے کے ساتھ الوداع کہنے کا طریقہ ایجاد کر لیا اور گھر سے دور ماں باپ کے سائے سے دور ہوکر محفل میں کسی انجان لڑکے یا لڑکی کے ساتھ جشن کے نام پر مجرہ کرتا رہا مخمور آنکھوں کے ساتھ جوں ہی ہوش آیا تو احساس بھی نہ ہوا کہ کیا کھویا اور کیا پایا
زندہ اقوام
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
جشن منانے میں زندہ اقوام یقین نہیں رکھتی وہ تاریخ یا سال کے لئے نہیں جیتے وہ ماضی کے ساتھ ہی اپنی لاچاری کا اظہار نہین کرتیں اور نہ ہی حال میں رہ کر مایوسی کا شکار ہوتی ہیں نہ ہی مستقبل سے نا امید ہوکر اپنی معذوری کا اظہار کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے ماضی حال مستقبل سے لاپرواہ ہوکر اپنے کل کی امید کو باقی رکھنے کے لئے صرف دعاؤں کا سہارا لیتے ہیں بلکہ وہ ماضی میں جھانک کر حال سے خوش ہوکر مستقبل کی تیاری کرتے ہیں اور آئندہ نسل کے لئے ایک بہتر کارنامہ انجام دینے کے لئے کوشاں ہوجاتے ہیں دیکھا جائے تو ہم صرف اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے کچھ بھی بچکانہ حرکات کو انجام دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے کوئی تیر مار لیا اور ہم زندہ ہیں زندگی کا احساس دلانے کا کیا فائدہ جب ہم کوئی بہتر مستقبل کی نوید سنانے کے لئے کام نہ کرسکیں یہ اہل علم و جاہل ایک ہی صف میں کھڑے ہیں علماء کی قبیل کے لوگ سمجھتے ہیں کہ دعائیں کرکے مستقبل کو روشن بنایا جاسکتا ہے اس کے لئے مختلف دعائیں کی جاتی ہیں یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی دعائیں دیکھ لیں المیہ یہ ہے کہ نبی اکرم اور اصحاب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھ کر اپنے کام کے بارے میں متفکر ہوکر مشاورت کیا کرتے تھے وہ راتوں کے عابد اور دن کے مجاہد بن کر آس پاس برائیوں کا گلا گھونٹ دیا کرتے تھے اور علم و ادب پاکیزگی اور دیانت داری صداقت حق پرستی کے مثالی کارنامے انجام دے کر معاشرے کو تحریک دیا کرتے تھے وہ سماج اور سوسائٹی میں رہ کر اپنے کردار اور گفتار سے اپنے ہونے کا احساس دلاتے تھے اپنی صلاحیتیں استعمال کرکے اہل دنیا کے لئے خوشحالی امن و اخوت کی شمع روشن کرنا اپنا فریضہ انجام دینے میں ہمہ وقت مصروف العمل رہتے تھے کبھی انہوں نے باتوں سے اپنی اولوالعزمی اور اپنی ہمت دیانت داری کا احساس دلانے کا طریقہ اختیار نہیں کیا بلکہ وہ میدان عمل میں آکر اس بات کو یقینی بنایا کرتے تھے کہ کیسے مستقبل کو تابناک بنایا جاسکتا ہے نتیجہ تاریخ کے بوسیدہ اوراق میں دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا ان کی قدم بوسی کو سرمایہ افتخار سمجھا کرتی تھی ایک ہم ہیں کہ ہمارا وجود ہی پوری دنیا میں ہی کیا ہمارے اپنے معاشرے میں نہ ہونے کے برابر ہے ہم نے معاشرے کے لئے کیا کیا سماج سوسائٹی کو بنانے میں ہمارا کیا کردار ہے یہ ہم سب جانتے ہیں امن اخوت بھائی چارے کے لئے ہم نے کیا کیا یہ سوچنے کی بات ہے گر آپ برا نہ مانیں تو حق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کو اس قدر دھندلا کردیا کہ مستقبل ہمارا ماتم کناں ہے کہ کیا سے کیا ہوگئے ہم اب رہی ان بیچارے لا علم لوگوں کی بات وہ اپنے نفس کی بندگی اور نفس کی غلامی کے سوا کسی چیز میں بھی سکوں نہیں محسوس کرتے ان کا کام آج سے شروع آج ہی ختم ہوجاتا ہے اسی لئے نت نئے طریقے ایجاد کرکے اپنی خوشیوں کو بنائے رکھنا ان کی مجبوری ہے پوچھ لیں وہ بے سکونی کی دلدل میں ہی پھر بھی غلطاں رہتے ہیں اور اپنی تسکین قلب کے لئے ہر برائی اور ضلالت کا طریقہ اپنانے کو ہی وجہ تسکین سمجھ کر لمحات کو خوشگوار بنانے کے چکر میں اپنی دنیا ہی برباد کر دیتے ہیں پھر تو حال ہی بگڑ کر ان کے اداس چہرے قابل دید اور قابل عبرت بن کر رہ جاتے ہیں
مستقبل کی تیاری
اہل ایمان علماء کرام گر اپنے اسلاف کو دیکھیں تو یقین کریں وہ نہ ہی انہیں کسی مسند پر بیٹھے ملیں گئے نہ ہی صرف مسلا بچائے دعائیں کرتے ملیں گئے وہ انہیں کسی عالی شان منبر پر چلاتے دیکھیں گئے اور نہ اپنی پاکیزگی کا رونا روتے پائیں گئے بلکہ وہ کتابوں کی دنیا میں پائے جاتے ہیں سفر کی صعوبت برداشت کرتے ہوئے علم حدیث اور نئے نئے افکار و نظریات کی جانچ پڑتال کرتے ملیں گئے وہ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوکر بھی علم کی روشنی بکھیرتے ملیں گئے وہ زرق برق لباس زیب تن کرکے خود کو متقی و دیانت دار منوانے کے چکر میں سرگرداں بھی نہیں ملیں گئے بلکہ پھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ اک جذبہ حق سے سرشار چٹانوں کا سینہ چاک کرتے ملیں گئے وہ پہاڑوں کی اونچائیوں سے گھبرا کر راستہ بدلتے نہیں ملیں گئے بلکہ انہیں اونچائیوں کو قدموں سے رودندتے ہوئے محو پرواز دیکھائی دیں گئے وہ تن آسانی کے لئے حیلے بہانے اور نت نئے اجتہاد کرتے بھی نہ ملیں گئے بلکہ پرخار راہوں میں ایمان کی شمع روشن کرتے ملیں گئے وہ راتوں کے عابد انکساری سے دعائیں مانگتے ملیں گئے پر دن کے انتہائی متحرک اور چاک و چوبند اپنے اپنے ذمہ داری کو انجام دیتے ملیں گئے یہ جو علم کی موٹی موٹی کتابوں اور اپنے اسلاف کے کارنامے ہم سناتے ہیں جہاں میں وہ بستروں میں دبک کر یا مسند پر بیٹھے انجام نہیں دئے گئے کہنے کو اتنا کہہ سکتے ہیں ہم تھوڑی ہی ایک دن کے لئے جیتے ہیں یا ایک سال کے رخصت ہونے پر دعائیں دینے کے لئے آئے ہیں بلکہ ماضی سے سبق لے کر حال کو خوشگوار بنانے اور مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے ہمارے ذمہ بہت کام ہے سوچنا یہ ہے کہ میں اپنا کام کا حد تک انجام دے چکا ہوں غیر اقوام کو ہی کیجئے کسی ایک سائنس داں یا کسی بڑی شخصیت جس نے کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہو کسی ایک کو بھی آپ مسخرہ نہیں پائیں گئے نہ ہی وہ مجرے والے تھے نہ ہی وہ دن اور سال کے لئے سرگرداں ہوکر اپنی صلاحیتیں برباد کرتے تھے بلکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے لئے سوچا کرتے تھے چلتے چلتے سوچئے جس اسرائیلی ریاست کو ہم اپنی دعاؤں سے نیست نابود کرنے کے لئے سرگرداں ہیں اس کے بارے میں سوچئے کیا یہ صرف ان کی دعاؤں سے بن گئی یا اس کے لئے پہلے سال ہا سال تیاریاں کی گئی اور پھر بن گئی چلے یہ جو ہم اندلس سے مٹ گئے کیا پوچھا جاسکتا ہے کہ وہاں روتے بلکتے اہل ایمان دعائیں کرنا بھول گئے اس لئے ایسا ہوا نہیں ہرگز بھی نہیں بلکہ وہ حال کی خوشحالی سے مست ہوگئے اور مستقبل کو برباد کر بیٹھے تو ہم کیوں نہیں سمجھتے ہم کیوں غور و فکر نہیں کرتے کہ ہمارا کل کیا ہوگا
میرا وطن میرا دیس
ہم سب کا وطن جہاں ہم صدیوں سے جی رہے ہیں مر رہے ہیں کو ہی دیکھئے کہ ہم نے اس کے لئے کیا کیا ہماری حالت کیڑے مکوڑے جیسی ہے جسے کوئی بھی ہلکی سی آندھی روند کر چلی جاتی ہے کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارا کیا ہوگا یا آئندہ ہماری نسل جو بربادی بے حیائی اور ڈرگ مافیا کی نظر ہورہی ہے ہمارا کون سا نام روشن کرے گی یہ خطا ان بے سمجھ بچوں کی نہیں بلکہ ہم سب کی خطا ہے جو انہوں نے یہ غلیظ راہیں تلاش کرکے منتخب کی ہم آئے روز اخبارات میں انہیں نصیحت تو کرتے ہیں پر زمینی سطح پر ہم نے کیا کیا اس بارے میں یا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بگڑی نسل ہماری باتوں سے سنبھل جائے گئی آج کل ہارٹ اٹیک کے دورے مختلف بیماریاں یتیم بیواؤں کے المیے غربت افلاس کے مسائل صحت نہیں ہے تو یہ پریشانیاں اس سلسلے میں کون سے کارہائے نمایاں ہم نے انجام دے الٹا ہم دیکھتے ہیں کہ ان ناموں پر ہم نے مختلف کاروباری دکانیں بنا لی ہیں ہم روتے ہیں کہ حکمراں ایسے ہیں ویسے ہیں اہل اقتدار پر چلاتے ہیں ایک کام ایسا دکھا سکتے ہیں کیا جہاں ہم ایک قوم کی حالت میں نظر آتے ہیں ایمان و یقین رسالت توحید پرہیزگاری میں بھی ہم الگ الگ ہی چل رہے ہیں ہر اینٹ پر ہماری فکر ہے نہ کہ ہماری اجتماعیت یا ہماری دیانت تو سوچئے ہم کیا سے کیا ہوگئے اور غم سنا رہے ہیں کہ سال نو آیا اور سال گزشتہ گزر گیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ سال گزشتہ میں ہم نے کیا کیا اور کیا رہ گیا جو ہمیں کرنا چاہئے تھا اس فکر کو لے کر آگئے بڑھیں تو یقینا کل روشنی کی نوید لے کر آئے گا
گزشتہ سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے، سال ختم ہوتاہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا ہے :
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی
حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔(قیمة الزمن عند العلماء، ص: ۲۷)
حسن بصری فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔(حوالہ بالا)
یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔
حضرت علی فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”مِنْ حُسْنِ إسْلاِمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ مَالاَیَعْنِیْہِ“۔ (ترمذی ۲/۵۸ قدیمی) ترجمہ: آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے۔
آگے کا لائحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی ، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی دونوں معاملات میں ہو جیساکہ حدیث سے معلوم ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اِغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ شَبَابَکَ قَبْلَ ہَرَمِکَ ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِکَ، وَغِنَاکَ قَبْلَ فَقْرِکَ، وَفَرَاغَکَ قَبْلَ شُغْلِکَ ، وَحَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ“۔ (مشکاة المصابیح ۲/۴۴۱ کتاب الرقاق)
ترجمہ: پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو (۱) اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۲) اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے (۳) اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے (۴) اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے (۵) اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے:” وَأنْ لَیْسَ لِلإنْسَانِ إلاَّ مَاسَعٰی، وَأنَّ سَعْیَہ سَوْفَ یُرٰی، ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الأوْفیٰ“۔ (سورئہ نجم، آیت/ ۳۹،۴۰،۴۱)
ترجمہ: اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
کام بہت ہے فرصت کم
تو آئے صاحبان فضل و کمال
سال گزشتہ نے ہمیں وہ کرب دیا کہ ہم ان تلخ لمحات کو ہرگز بھول نہ پائیں گئے کرؤنا وائرس کے قہر نے ہمیں شدت سے احساس دلایا کہ ہماری اوقات کیا ہے کتنوں کے پیارے ہم سے بچھڑ گئے کس قدر اذیت ناک لمحات تھے کیسے دنیا نے ایک پل میں شٹ ڈاون کو اختیار کر لیا اس کے علاوہ بھی مسائل ہیں مشکلات ہیں مصائب ہیں جن کے تدارک کے لئے لازم ہے کہ ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کوئی کارنامہ انجام دے سکیں اپنی سوسائٹی کو پاکیزہ بنانے کے لئے اور سماج میں بہتری لانے کے لئے متحرک رہیں مسائل و مشکلات سے نہ گھبراتے ہوئے آگئے بڑھیں اور امن و امان اخوت و مساوات کی شمع روشن کرنے میں کردار ادا کریں افلاس زدہ افراد کا سہارا بنیں اپنا احتساب کریں کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ورنہ سال بدلا ہے اور ہم نہیں بدلے والی کیفیت میں آہستہ آہستہ وہ گھڑی آجائے گئی جب گھڑیاں خبر سنائے گا تیری گھڑی کا اختتام ہوگیا پیارے اور ہم خالی ہاتھ چل دیں گئے اور پھر سال بدلے گا ہمارا نام نہ ہوگا پر اذیت و مسائل میں گری انسانیت مزید مشکلات کا شکار ہوتی جائے گی اور دنیا مسائل و مشکلات کی آماجگاہ بن جائے گی اور ہم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے کیا کیا صرف اپنی دنیا سنوارنے کے لئے پوری دنیا کو جہنم بنا کر چلے آئے
الطاف جمیل ندوی
بیورو چیف جموں و کشمیر بصیرت آن لائن
Comments are closed.