کشمیر: سیاسی خلیج بڑھ گئی خاروں سے پھول ہارے

ش م احمد کشمیر
7006883587
ماہ مئی۱۹۴۴ کو محمد علی جناح صاحب کے دورۂ کشمیر کا مقصد اولیٰ یہ تھا کہ نیشنل کا نفرنس اور مسلم کانفرنس قائد اعظم محمدعلی جناح یک جان ویک قالب ہوں۔ وہ نہیں دل سے متحد و یک جا دیکھنا چاہتے تھے۔ صحیح ترالفاظ میںوہ کشمیر میں تاریخ کے سیل ِرواں کو نیا رُخ اور نئی جہت دینا چاہتے تھے ، خاص کروہ شیخ محمد عبداللہ کی سیاسی سوچ کو اپنے خیالات اور نظریات کے قالب میں ڈھالنا چاہتے تھے ، مسلم اکثریتی ریاست کشمیر کو اپنی مجوزہ مملکت کا حصہ بنتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے یہ بات لازم وملزوم تھی کہ کشمیری مسلمانوں کی سیاسی آواز کا رنگ وآہنگ یکساں ہو اوراُن کی جادہ ومنزل ایک ہو ۔ سری نگر میں اپنا ڈیرہ ڈھائی ماہ تک ڈالنے کی ساری کدوکاوش میں یہی ایک مقصدچھپا تھا، ورنہ قائد دو ہم مذہب حریف سیاسی پارٹیوں کو آپس میں ملانے کا جو کھم اٹھانے کے لئے اتنا وقت صرف نہیں کرتے ،وہ بھی اس حقیقت کی موجودگی میں کہ جناح صاحب مزاجاً ایسے شخص واقع ہوئے تھے کہ کبھی خشک دریا میں تیرنے کی فضول مشق میں وقت کا زیاں نہ کر تے، وہ جو بھی کام کر تے اس کے پیچھے ایک سنجیدہ ذہن، تجربے کا بہی کھاتہ اور ایک ٹھوس فکری و نظری اساس لازماًہوتی۔ کشمیر میں ان کے تحت الشعور میں بھی نہ تھی کہ یہاں اتحادی کاوشیں ٹیڑھی کھیر ہے کیونکہ یہاں کے بیش تر سیاسی رہنما الٹی کھوپڑیاں ہیں ۔
بایں ہمہ کشمیر ی مسلمانوں کی دو اہم مگر حریف سیاسی پارٹیوں کو اتحاد کی لڑ ی میںپرونے کے حوالے سے مسٹر جناح کے قلب وجگر میں اور کیا کیا خوش اُمید یاں بسی تھیں، تاریخ کے صحیفے میں وہ کہیں مذکور نہیں، البتہ ان کا اندزاہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں
اس دور کی تاریخِ کشمیر اس بات کی شاہد عادل ہے کہ نیشنل کانفرنس نے جو سیاسی راہ ۱۹۳۸ سے اختیارکر لی تھی اور اس سلسلے میں جتنی لمبی مسافت طے کر چکی تھی، اُس سے واپس مڑکر مسلم کانفرنس میں گھر واپسی کر نا بعیدا ز فہم تھا۔اگرچہ تاریخ ناقابل ِفہم حادثات کی صورت گری بھی کر تی ہے مگر شیخ صاحب اس حاد ثے کے لئے کسی صورت اپنی لیڈری کی قیمت پر تیار نہیں تھے۔ اور یہ کوئی سربستہ راز نہ تھا ۔یہی وجہ ہے کہ قائد کی مشاورت اور مصالحت کے باوجود لیڈرانہ اناؤں کی برف نہ پگھل سکی۔
یہ کوئی سر بستہ راز نہ تھا کہ شیخ محمد عبداللہ عملاً برسوں سےآل انڈیا نیشنل کا نگریس کے زلف ِ گرہ گیر کے سرتاپااسیرتھے ۔ لہٰذا مروجہ سیاسی اصطلاح میں بات کریں تو این سی کشمیر میں کانگریس کی عملاً بی ٹیم تھی ۔
بہر حال جناح صاحب کی پہل پر جب طے شدہ پروگرام کے مطابق مسلم کانفرنس کے روح رواں چودھری غلام عبا س نیشنل کانفرنس کےدراز قامت سیاسی قائد شیخ صاحب سے اپناہاتھ ملانے کے لئے اُن کی رہائش گاہ صورہ سری نگر تشریف لے گئے تو وہاں بات چیت فلاپ ہوئی ۔ گفتگوکا کیا ر نگ رہا،اس کی ایک جھلک موصوف نے اپنی سوانح عمری’’ کشمکش‘‘ میں یوں رقم کی ہے :
حضر تِ قائداعظم نے شیخ محمد عبداللہ کو اطلا ع بھیجی تھی کہ وہ اور میں خود آپس میں ملیں، چنانچہ دوسرے دن میری اور شیخ محمد عبداللہ کی ملاقات ہوئی، اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد میں نے اصل موضوع کے متعلق سلسلۂ کلام چھیڑا، لیکن شیخ محمد عبداللہ پہلے ہی اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔ اُن دنوں اُس کارِنگ ماسٹر مولوی مسعودی تھا۔ بدقسمتی سے وہ بھی وہاں موجود تھا۔اُس نے میری باتوں کا جواب دینا شروع کردیا، شیخ محمد عبداللہ نے اُس کی باتوں کو دہراتے ہوئے مجھے دوٹوک بات کہہ دی کہ دیکھئے چودھری صاحب !آپ کےسیاسی عقیدہ کومیں اچھی طرح جانتاہوں اور میرے عقیدے کو آپ۔ میرے خیال میں دونوں کے عقیدوں میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ میں نے کہا کہ مجھ سے آپ گفتگو کریں ، اگرآپ مجھے قائل کریں گے تو میں اپنا عقیدہ تبدیل کرنے کے لئے تیار ہوجاؤں گا۔اس طرح آپ کی بھی یہی روش ہونی چاہیے۔اس پر اُس نے صاف کہہ دیا کہ ہمارے سیاسی راستے الگ ہوچکے ہیں۔ اس لئے میں بحث کے لئے تیار نہیں۔‘‘
شیخ کے صریح انکار سے کشمیری مسلمانوں کے دو متحارب خیموں کو اکھٹا کر دینے اتحادی کاوش کی رگ ِ جاں ہمیشہ کے لئے کٹ کر رہ گئی۔
چودھری صاحب کے ا س اقتباس سے مترشح ہوتا ہے کہ شیخ صاحب کو کشمیرمیں ملّی اتحاد کےنام سے کی جانے والی قائد کی کوششوں سے رتی بھر بھی دلچسپی نہ تھی مگر رُکئے، اختلافات اور ٹکراؤ کے دومتوازی خطوط پر منقسم اس سیاست کی گتھی کے حوالے سے ایک نقطہ ٔ نظر یہ بتا تا ہے کہ شیخ صاحب کا اصولی موقف یہ تھا کہ مسلم کانفرنس میں نیشنل کانفرنس کےادغام کا فیصلہ میری ہاں اور ناں یا ذاتی پسند وناپسند کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے لئے دونوں پارٹیوں کے اُن سرفروش ساتھیوں کی رائے حتمی تھی جنہوں نے قربانیاں دے کر کشمیر کی تحریک کو اپنے خون پسینے سے سینچا تھا ۔ شیخ کا عندیہ تھا کہ دونوں پارٹیوں کا یہ ایثار پیشہ کیڈر ایک ہی جگہ سرجوڑ کر بیٹھے اور آپسی تبادلہ ٔ خیال سے یہ ادغام کا معاملہ طے کرے، اگر نیشنل کا نفرنس کے صف ِ اول یہ ساتھی مسلم کا نفرنس میں مدغم ہونے کے لئے بر ضا ورغبت تیار ہوں تو میں خود اُن کی رائے کے احترام میں کوئی پس وپیش نہیں کروں گا، لیکن اگر صورت احوال یہ بنی کہ نیشنل کا نفرنس کے سینئر ساتھی مسلم کانفرنس کے اکابرین کو قائل کریں کہ پارٹی کو تحلیل کر کے نیشنل کانفرنس کو کشمیر کا واحد سیاسی پلیٹ فارم تسلیم کر یںتو اس جماعت کو بھی بلا چوں چرا یہ فیصلہ ماننا ہوگا ۔
چودھری غلام عباس کو شیخ صاحب کا یہ موقف ماننے سے تامل رہا،اور جناح صاحب بھی بوجوہ چاہتے تھے کہ باہمی اتحاد کا معاملہ اُن دونوں کے درمیان طے ہو نا چاہیے، نہ کہ اسے عام لوگوں پر چھوڑا جائے مگر اس جہت میں ملاقات میںکوئی بات ہی نہ بنی ۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ صورت حال کشمیر یوں کے بین بین قائد کے لئے بھی کوئی نیک شگون نہ تھی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ شیخ صاحب نے زندگی بھر اپنے سیاسی اقدامات اور فیصلہ جات کے لے عوام تو عوام کبھی اپنے کسی قریب سے قریب تر ساتھی یا پارٹی عہدیدار کو اعتماد میں لینے کا کوئی تکلف نہ کیا۔ مسلم کانفرنس کے متوازی نیشنل کانفرنس کے قیام سے لے کرمرزا محمد افضل بیگ کے پارٹی سے اخرا ج تک کی ساری کہانی سے عیاں بیاں ہوتا ہے کہ موصوف نے بھولے سے بھی سیاسی معاملات میں کسی کو اعتماد میں لینا تو دور، کسی سے مشاورت کرنا تک ہمیشہ ا پنی کسر شان سمجھا ۔
صورہ ملاقات سے شیخ محمد عبداللہ اور چودھری غلام عباس کے درمیان دوریاں کم نہ ہوئیں بلکہ اُلٹاپہلے سے ہی موجود خلیج بڑھ گئی جس سے دوطرفہ تلخیاں، رقابتیں، شکوک وشبہات، تصادمات کا وہ تکلیف دہ سلسلہ چلا کہ بالآخر کشمیر ی عوام کا سوادِ اعظم ہمیشہ شخصیاتی ٹکراؤ کی نذر ہو کر رہا۔انتشار وخلفشار کی اس بٹھی کو مزید سلگانے کے بارے میں وہ اشتعال انگیز تقریر بھی ذمہ دار بتائی جاتی ہے جو چودھری صاحب نے اتحادی کوشش کی ناکامی کے پس منظر میں تاریخی جامع مسجد سری نگر میں مئی سنہ۴۴ میں کی۔ جامع مسجد عملاً مسلم کانفرنس کا صدر دفتر تھی ، اسی کے منبر ومحراب سے چودھری صاحب نے اپنا تیکھا ردعمل دیتے ہوئے شیخ صاحب کے خلاف زہر افشانی کی ۔اس سے ملّی اتحاد کی تمام اُمید یں یکسر دم توڑ گئیں۔
چودھری صاحب کی آتشیں تقریر کے جواب میں شیخ صاحب نے ایک بیان میں خود کو اتحاد پرور جتلاتے ہوئے یہ دلیل دی کہ جو شخص ریاست میں رہنے والے مسلمانوں اور غیر مسلموں کو متحد دیکھنے کا آرزو مند رہا ہو،وہی انسان کس طرح مسلمانوں میں افتراق وانتشار برداشت کر نے کا روادار ہوسکتا ہے۔
مسلمانوں میں سیاسی تقسیم کے اس مایوس کن سر پھٹول، تناؤ ا ور کشدگی کے بیچ قائد نے سری نگر میںپریس کا نفرنس کر کے اپنی پوزیشن واضح کی ۔ کشمیر کے مقامی پریس نمائندگان پریم ناتھ کنہ
( مارٹنڈ)، غلام محی الدین نور (اخبار ِ نور) خواجہ صدرالدین مجاہد ( خالد ) نند لال واتل( ہمدرد)، عبدالعزیر شورہ ( روشنی ) محمد ایوب صابر ( البرق)، دنیا ناتھ مست (رہبر) ، عبدالغفار ڈار ( اصلاح ) کے سامنے جناح صاحب نے غیر مبہم الفاظ میں واضح کیا کہ این سی اور مسلم کانفرنس کے علاوہ ریاست میں کئی غیر مسلم پارٹیاں بھی ہیں اور یہ ریاستی عوام کا صوابدیدی اختیار تھا کہ جو راستہ وہ اپنے لئے زیادہ موزون اور بہتر سمجھیں، اُسے اختیار کریں ۔ پریس کانفرنس میں جناح صاحب نے ایک سوال کے جواب میں مرزائیوں کے لئے بھی بیک جنبش زبان مسلم کانفرنس کے دروازے کھول دئے کہ میں کون ہوتاہوں اس شخص کو غیر مسلم مانوں جو خود کو مسلمان کہتا ہو ۔ قبل ازیں شیخ صاحب اور میرواعظ محمد یوسف شاہ صاحب کے درمیان مرزائیوں کی مسلم کانفرنس میں شمولیت کے بارےمیں کافی لے دے اور ہوچکی تھی ۔اس سے ان کے درمیان اختلافات اور دوریاں کی شروعات ہوئی تھیں ۔
اسی اثنا میںمسلم کانفرنس نے اپنے سابقہ پروگرام میں ردوبدل کر کے اپنا سالانہ اجلاس سری نگر میں ہی منعقد کر نے کا فیصلہ لیا۔ اجلاس میں قائد کی شرکت سے پارٹی اپنی عوامی ساکھ کو مستحکم کر نے میں مدد ملنا قابل ِ فہم بات تھی ۔
باقی باقی
نوٹ : ش م احمد کشمیر کے آزاد صحافی ہیں
Comments are closed.