آپ کے شرعی مسائل

فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ العالی
جنرل سکریٹری :اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا۔بانی وناظم :المعہدالعالی الاسلامی حیدرآباد

فقہ شافعی کے لحاظ سے نماز عصر
سوال: بعض دفعہ سفر کے لئے نکلنا ہوتا ہے، فقہ شافعی کے لحاظ سے عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے، احناف کے لحاظ سے عصر کا وقت شروع نہیں ہوتا ، اگر نماز پڑھے بغیر سفر کے لئے نکل جائیں تو نماز کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہوتا ہے، کیا ایسی صورت میں مسلک شافعی کے مطابق عصر کی نماز پڑھ کر سفر کے لئے نکلا جا سکتا ہے؟
(خبیب احمد قاسمی، ممبئی)
جواب: شوافع کے نزدیک عصر کا وقت ایک مثل پر شروع ہو جاتا ہے، یعنی جب انسان کا سایہ اس کے برابر ہو جائے،ان کے اس نقطۂ نظر پر متعدد حدیثیںموجود ہیں،شوافع کے علاوہ مالکیہ، حنابلہ اور احناف میں امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ اور امام زفرؒ کی بھی یہی رائیں ہیں، مشہور حنفی محدث امام طحاویؒ نے بھی اسی رائے کو اختیار کیا ہے، امام ابو حنیفہؒ سے دونوں رائیں منقول ہیں، یہ بھی کہ ایک مثل پر نماز ادا کی جائے، جس وقت پر ہمارے ملک میں عموماََ شوافع کے یہاں نماز ادا کی جاتی ہے،دوسرا قول یہ ہے کہ دو مثل پر وقت شروع ہوتا ہے، جیسا کہ احناف کے یہاں معمول ہے، دو مثل پر نماز ادا کرنا احتیاط پر مبنی ہے؛ کیوں کہ دو مثل ہونے کے بعد عصر کا وقت شروع ہو جانے میں کوئی اختلاف نہیں ہے؛ اس لئے اس کو ترجیح دی جاتی ہے؛ لیکن جب آپ سفر میں نکل رہے ہیں اور ایک مثل پر نماز نہ پڑھنے کی صورت میں نماز کے فوت ہو جانے کا اندیشہ ہے تو اب احتیاط یہی ہے کہ ایک مثل پر نماز ادا کر لی جائے؛ اس لئے جو صورت آپ نے لکھی ہے، اس میں شافعی وقت کے مطابق عصر کی نماز پڑھ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے:
’’ووقت الظھر من زوالہ إلیٰ بلوغ الظل مثلیہ، وعنہ مثلہ وھو قولھما وزفرو الأئمۃ الثلاثۃ، قال الطحاویؔ وبہ نأخذ‘‘ (درمختار مع الرد، کتاب الصلاۃ، مطلب فی تعبدہ علیہ السلام: ۲؍ ۱۴)

مؤذن ’’ الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ بھول جائے
سوال: ہمارے محلہ کے مؤذن صاحب نے فجر کی اذان دی مگر ’’ الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہنا بھول گئے تو کیا اذان ہوگئی؟یا دوبارہ اذان دینی چاہئے تھی؟
(رفیع الدین، ملے پلی)
جواب: اذان میں ’’ الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہنا مستحب ہے، واجب نہیں ہے: ویقول ندبا بعد فلاح أذان الفجر ’’ الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ (ردالمحتار، کتاب الصلوٰۃ، باب الاذان: ۲؍۵۴) ؛ اس لئے اذان کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔

ضم سورہ سے پہلے بسم اللہ
سوال: سورۂ فاتحہ کے شروع میں تو امام آہستہ بسم اللہ کہتا ہے؛ لیکن کیا ضم سورہ سے پہلے بھی بسم اللہ پڑھنا چاہئے؟ (صہیب احمد ندوی، چار مینار)
جواب: سری نمازوں میں امام ہو یا تنہا نماز پڑھ رہا ہو، بہتر ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد دوسری سورت شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھ لے، یہی نقطۂ نظر فقہائے احناف میں امام محمدؒ کا ہے:….. ولا یأتی بھا بین السورۃ والفاتحۃ إلا عند محمد فإنہ یأتی بھا فی الصلوٰۃ مخافۃ (ہدایہ ، باب صفۃ الصلوٰۃ: ۱؍۱۰۴)؛ کیوں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع فرماتے تو ’’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ پڑھتے، اور جب سورہ فاتحہ سے فارغ ہو جاتے تب بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ عن ابن عمر، حدیث نمبر: ۴۱۷۸)

جماعت میں تاخیر کی جائے تو اذان میں کیا کرنا چاہئے؟
سوال: بعض دفعہ کسی پروگرام کی وجہ سے جماعت کو مؤخر کیا جاتا ہے ، ایسی صورت میں کیا اذان میں بھی تاخیر کرنی چاہئے یا اذان اپنے وقت پر دی جائے؟ (محمد اسلام، ملک پیٹ)
جواب: اذان دراصل جماعت کا اعلان ہے، اذان کے ذریعہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اب اس مسجد میں جماعت ہونے والی ہے؛ اس لئے جب جماعت میں تاخیر کی جائے تو اذان کو بھی اسی لحاظ سے مؤخر کرنا چاہئے؛ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ جلدی اور تاخیر کے اعتبار سے جو حکم نماز کا ہے، وہی حکم اذان کا بھی ہے: حکم الاذان کصلوٰۃ تعجیلا وتاخیراََ(درمختار: ۵۴) حدیث سے بھی اس کا اشارہ ملتا ہے کہ ایک سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گرمی کی شدت کی وجہ سے دیر سے نماز ادا کرنے کا ارادہ کیا، حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک سے زیادہ دفعہ اذان دینی چاہی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رکنے اور تاخیر سے اذان دینے کا حکم فرمایا:کنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر فأراد المؤذن أن یؤذن فقال: أبرد ثم أراد أن یؤذن فقال لہ: أبرد ثم أراد أن یؤذن فقال أبرد الخ(بخاری، عن ابی ذر، حدیث نمبر: ۶۲۹)

رکعات نماز کی نیت
سوال: ہم لوگ نماز کے لئے اس طرح نیت کرتے ہیں: میں نیت کرتا ہوں چار رکعت نماز ظہر کی، کیا اس طرح نیت کرنا ضروری ہے؟ (خورشید احمد، مہدی پٹنم)
جواب: یہ نیت کرنا کافی ہے کہ میں ظہر کی نماز پڑھتا ہوں، رکعت کی تعداد جیسے چار رکعت، دو رکعت ضروری نہیں ہے، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے: ولا یشترط نیۃ عدد رکعات (فتاویٰ ہندیہ: ۱؍۶۶)

کھانے کے بعدپلیٹ دھو کر پینا
سوال: بعض احباب کھانا کھانے کے بعد کھانے کی پلیٹ کو دھو کر پیتے ہیں، دوسرے لوگوں کو اس سے کراہت ہوتی ہے، کیا اس طرح برتن دھو کر پینا سنت یا مستحب ہے؟ (شرافت علی، کتہ پیٹ)
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کو اچھی طرح چاٹ کر کھانے کو پسند فرمایا ہے: من أکل فی قصعۃ ثم لحسھا استغفرت لہ القصعۃ (ابن ماجہ، حدیث نمبر:۳۲۷۱)اگر کوئی شخص اس نیت سے پلیٹ کو دھو کر پی جائے تو امید ہے کہ اس کے لئے یہ عمل باعث اجر ہوگا؛ مگر یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ کا معمول نہیں تھا؛ اس لئے یہ مسنون اور مستحب نہیں ہے، اور جہاں کھانے میں دوسرے لوگ بھی شامل ہوں، اور ان کو اس عمل سے ناگواری ہوتی ہو، وہاں اس سے بچنا بہتر ہے؛ کیوں کہ کوئی بھی ایسا عمل مناسب نہیں جو دوسرے مسلمان کے لئے تکلیف کا باعث ہو۔

کیا گوشت دھونا ضروری ہے؟
سوال: عام طور پر جو گوشت پکایا جاتا ہے، اس میں کچھ نہ کچھ خون باقی رہتا ہے، اگر گوشت کو پانی میں ڈال دیا جائے تو پانی کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے، کیا ایسے گوشت کو دھونا ضروری ہے؟ (محمد سلمان، جل پلی)
جواب: رگوں میں جو بہتا ہوا خون ہے، وہ ناپاک ہے، گوشت میں جو خون ہوتا ہے، وہ ناپاک نہیں ہے؛ اس لئے اگر دھوئے بغیر اسے پکا لیا جائے تو کھانا پاک ہے؛ البتہ از راہ نظافت دھو لینا بہتر ہے،جیسا کہ ہندوستان وغیرہ میں لوگوں کا معمول ہے:
’’وما ینبغی من الدم فی عروق الذکاۃ بعد الذبح، لا یفسد الثوب وإن فحش، وکذا الدم الذی یبقی فی اللحم؛ لأنہ لیس بمسفوح، ودم الکبد والطحال لیس بنجس‘‘ (فتاویٰ عالمگیری، کتاب الطہارات ، الفصل الثانی فی الأعیان النجسۃ: ۵؍ ۴۶)
(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.