Baseerat Online News Portal

طیب أردوغان اور ترکی کیلئے گزشتہ سال کی اہمیت –

 

محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043

طیب أردوغان کی پیش قدمی اور سیاسی پالیسیوں نے مغرب سے لیکر ایشیائی ممالک تک سبھی کے ہوش فاختہ کردیئے ہیں، ان کی سوچ و فکر اور صلابت بلکہ حکمت و سوجھ بوجھ کے ساتھ اٹھتے قدم پر دنیا حیران ہے، ایک انسان جو ترقی یافتہ ممالک اور متعصب افکار کے پروردہ حکومتوں کو چیلینج کر رہا ہے، دجالی طاقتوں اور خرافتون کے ایک نئی آواز بن کر ابھر رہا ہے، بالخصوص ایمانی جوش و حمیت اور انسانی حقوق کو حقیقی معنوں میں دنیا کے سامنے لا رہا ہے، چنانچہ امریکہ اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوئے ہے، اسرائیلی سیاست میں کھلبلی مچی ہوئی ہے، یورپی یونین میں بھی تشویش ہے، خلیجی ممالک تو پہلے سے ہی خار کھائے بیٹھے ہیں، ہندوستان اسے اپنا دشمن سمجھنے لگا ہے، گزشتہ سال اگرچہ کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے دنیا ایک بڑے بحران سے دوچار رہی مگر اعلی ترین تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ٢٠٢٠ طیب أردوغان کیلئے بہترین سال رہا ہے، بی بی سی جیسے عالمی نیوز ایجنسی نے انہیں خصوصی کوریج دی ہے، اور سال گزشتہ پر مستقل ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے، ان کا ماننا ہے کہ طیب أردوغان نے پچھلے سال سیریا، آذربائیجان اور لیبیا میں فوجی سرگرمیاں جاری رکھیں، جس نے دنیا کے سامنے ترکی کی قدر و قامت کو دوبالا کیا، اسے ایک حیثیت دینے پر مجبور کیا، وہ عالمی طاقتیں جو کبھی ترکی کو پچھڑا اور اپاہج سمجھتی تھیں اس نے بھی نوٹس لیا؛ اس کی فوجی کارروائی کو ایک چیلینج کے طور پر دیکھا، جس نے سعودی عرب اور ان کے ہم نواؤں کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کو حیران کردیا، امریکہ اور روس کے مابین خلیج مزید بڑھادی؛ حالانکہ پست معیشت، اندرونی اختلافات اور امریکی پابندیوں نے انہیں خوب روکا، ترکی سکہ لیرا کی قیمت ڈالر کے مقابلہ میں کافی گری ہے، جس نے مہنگائی، بےروزگاری اور دیگر ترقیاتی اداروں کو متاثر کیا ہے، اس کے باوجود صدر محترم کی حکمت نے نوجوانوں کو کم ہمت نہیں ہونے دیا، انہیں نئے نئے میدان فراہم. کرنے کی کوشش کی گئی، ایسے میں اس بحران کے ساتھ امریکی دباؤ جھیل گئے؛ لیکن نئی نسل کا جوش و خروش اور طیب أردوغان کے تئیں محبت و وارفتگی میں کوئی کمی نہ آئی.
اندرونی لوگوں نے بھی سیاسی داؤ پیچ کے ذریعے ان کی سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کی کوشش کی، ذیلی انتخابات میں شکست کا بھی سامنا ہوا؛ ان سب کے باوجود ان کی مذہبی شخصیت اور ابھرتی طاقت میں کوئی کمی نہ ہوئی، جب جب دنیا نے پروپیگنڈہ کیا اور انہیں کمزرو و لاچار بنانے کی کوشش کی تب تب انہوں نے دنیا کو کسی دوٹوک قدم سے آگاہ کیا، گزشتہ سال سب سے بڑی خبر آیا صوفیہ کو مسجد میں بدل دینے کے سلسلہ میں رہی، جو کبھی چرچ ہوا کرتا تھا، مگر محمد فاتح نے اسے خرید کر مسجد کی شکل دے دی تھی؛ لیکن جدید ترکی یعنی مذہب بیزار ترکی کے بانی مصطفی کمال اتاترک نے اسے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا، عرصہ ہوا کہ لوگ اسے مسجد کی شکل میں دیکھنا چاہتے تھے، سلطان محمد فاتح کی وراثت کو سینے سے لگانا چاہتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جب اس عمارت کو مسجد میں بدلا گیا تو ایک طرف عالمی برادری میں ہلچل مچی تو دوسری جانب ملکی پیمانے پر ان کی شخصیت مزید مسلم ہوتی گئی، طیب أردوغان نے ساتھ ہی مسلمانوں کیلئے ایک اسلامی بلاک بھی تیار کرنے کی کوشش کی تھی، پاکستان، ملیشیا اور ترکی نے ایک ساتھ کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، مگر سعودی عرب نے پاکستان پر دباؤ بنایا تو وہیں مہاتیر محمد عہدہ سے مستعفی ہوگئے، یہ ایک بڑی ناکامی رہی، ترکی نے اس کے علاوہ مزید کئی اقدام سخت اٹھائے؛ حالانکہ وہ کمزور معیشت سے جوجھ رہے تھے، اس کے باوجود اس نے ہندوستان کو اپنا دشمن بنایا، جس سے ان کے قریبی تعلقات رہے ہیں، معاشی آمد ورفت کا بھی ایک میدان رہا ہے، مگر مسلمانوں کے ساتھ بڑھتی زیادتی و ظلم کے جلاف آواز اٹھانا زیادہ مناسب سمجھا گیا، چنانچہ کشمیر اور سی اے اے کے سلسلہ میں دخل اندازی کی گئی، جس کی بنا پر دونوں ممالک سیاسی بیان بازی اور معاشی سلسلہ میں آمنے سامنے آگئے. اسی طرح یورپی یونین کی شمولیت کے بجائے انہیں چیلینج کرنا شروع کیا، یورو کو اہمیت نہیں دی، بلکہ لیرا کو مقدم رکھنے کی سعی رہی، امریکہ کو کئی موقع پر آئینہ دکھایا؛ بلکہ ایک دفعہ یہاں تک کہہ دیا کہ وقت آنے پر ہم امریکہ سے حساب لیں گے، اسرائیلی جارحیت کے خلاف سینہ سپر رہے، غزہ پٹی کیلئے آواز اٹھائی فلسطین اور بیت المقدس کیلئے کوشاں رہے.
یہ بات الگ ہے کہ ان سخت پیش قدمیوں سے کچھ خاص حاصل تو نہ ہوا؛ لیکن وہ امت جو اپنے آپ کو یتیم و رسوا اور بے یار و مددگار سمجھنے لگی تھی اسے ایک سہارا ملا، درد کا درماں کرنے والا نہ سہی مگر اس کیلئے آواز بلند کرنے والا ملا اور سچ جانئے لوگوں نے طیب أردوغان کو اسی نظر سے دیکھنا شروع کیا، بالخصوص اقوام متحدہ میں دھاڑتی ہوئی تقریریں اور نقشے کے ساتھ اسرائیلی خونخواری کا ریمارک قابل تحسین اور نور نظر رہے، مگر اسی درمیان ٹرمپ کی شکست اور امریکی سیاست میں بائیڈن کی تبدیلی اور ان کی پالیسیوں کے ساتھ ترکی اور طیب أردوغان میں ایک نئی تبدیلی اور نیا محاذ تیار ہوتا ہوا بھی نظر آرہا ہے، کیونکہ یہ جگ ظاہر ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیاں خلیج اور ترکی کے سلسلہ میں متشدد ہونے کے ساتھ ساتھ افہام و تفہیم کی رہی ہے، جبکہ بائیڈن اپنی صراحت کر چکے ہیں کہ وہ جارج ڈبلوبش کی پالیسیوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں، ایسے ترکی ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ قدم اٹھا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ترکی اب اسرائیل سے بات کرنے کو تیار ہے، ہندوستان سے بھی نرمی دکھائی جارہی ہے. اسی طرح ایسا کہا جاتا ہے کہ اس سال طیب أردوغان ایک نئی پالیسی کے تحت کام کریں گے جس میں اندرون ملک انتشار کو دور کرنا اور لیرہ کی کی حیثیت بحال کرنا بھی شامل یے، نیز ترکی و طیب أردوغان کی شہرت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی ڈرامے اور سیریلز نے گزشتہ سال کئی رکارڈ بنائے ہیں، جن کی خاص بات یہ رہی ہے کہ وہ دینی حمیت، اسلامیت اور تاریخی واقعات کی روشنی میں امت مسلمہ کی بیداری کا باعث بن رہے ہیں، ایک طویل زمانہ تک مسلمان ہالی وڈ اور ہندوستانی بھگوائی رنگ سے دوچار تھے، اب انہیں ایک ایسا پلیٹ فارم ملا ہے جس سے وہ تفریح کے ساتھ اسلامی تعلیمات سے واقف ہوتے ہیں، غالباً یہی چیز ہے جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے، اور بہتر کوالٹی، پکچرائیزیشن نے غیر مسلموں کا دھیان بھی کھینچا ہے؛ حتی کہ غازی اتغرل پر مبنی سیریز کو گیم آف تھرون سے تشبیہ دی گئی ہے؛ بہرحال ٢٠٢٠ میں ترکی کی ناموری میں اسے نہیں بھولا جاسکتا.

 

Comments are closed.