جاگ اٹھا انسان "۔ (کہانی )

. از :_شیبا کوثر (آرہ ،بہار )انڈیا ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

سڑک کے کنارے ایک چھوٹی سی گندی گلی ہے جس میں دوسرے غریبوں کے ساتھ وہ ایک گونگا آپا ہج بھی اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے ۔یہ آپاہج محنت مزدور ی کرنے کے قابل نہیں ہے اس لئے بھیک مانگ کر اپنی زندگی کی گاڑ ی کو کسی طرح گھسیٹتا ہے۔ اداسی اور ما یوسی ایسے لوگوں کا مقدّر بن جاتی ہے اور وہ اس کے عادی بھی ہو جاتے ہیں ۔اس روز یہ دونوں کچھ اداس اداس اور بجھے بجھے سے تھے کیونکہ ایک ایک سکہ جوڑ کر ضروریات زندگی کے جو کچھ سامان ان لوگوں نے اکٹھا کیا تھا اسے کوئی اٹھا لے گیا تھا ۔چوری کی رپورٹ تو بڑے بڑے سیٹھوں ،ساہو کاروں اور لکھ پتیوں و کروڑ پتیوں کی ہی لکھی جاتی ہیں ۔چار پھٹے پرانے کپڑے ۔۔۔دو چار المو نئیم اور ا سٹیل کے برتن یا چند روپے چوری ہونے پر کسی تھانے جایا بھی جائے تو انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر بھگا دیا جاتا ہے۔پولیس محکمہ کے لوگ یہ محسوس ہی نہیں کر سکتے کہ یہ ٹوٹے پھوٹے برتن اور یہ پھٹے پرانے کپڑے امیر وں کے ہزاروں رو پیو ں کی چوری سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ سیٹھ سا ہو کار اپنا سا مان پھر خرید سکتے ہیں ۔یہ گونگا آپا ہج دس سال پہلے زبان کاٹ دئے جانے کے با عث بولنے کی طاقت کھو چکا تھا۔پیروں اور ہاتھوں سے پہلے ہی معزور تھا۔شاید پیدائش سے پہلے ہی اس کا بدن گہنا گیا تھا ۔بہرحال کسی طرح زمین پر رگڑتا چلتا اور بے ہنگم سی آواز نکال کر لوگوں کو مخاطب کرتا۔کوئی اسے نفرت سے دیکھتا کوئی دوچار باتیں سنا کر اور رحم کھا کر دس پانچ رو ئپے اس کی طرف پھینک دیتا۔اس طرح کچھ روپے اسے مل جاتے ۔وہ جھونپری میں جا کر اپنی بیوی دھنیا رانی کے ہاتھ پر رکھ دیتا ۔جس سے وہ جو کچھ ہو سکتا پکا کر اسے کھیلا تی اور خود بھی کھا لیتی ۔دھنیا رانی چاہتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ بھیک مانگے ۔لیکن اسے یہ گوارا نہیں تھا کہ اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ بھیک مانگے ۔

اس لئے دھنیا اور بھی اس گندی غلیظ جھونپڑی میں رہتے ہوئے تازہ ہوا اور دھوپ سے محروم ہو کر بیمار ہو گئی تھی ۔کھانسی اسے مسلسل آتی تھی ۔کبھی کم اور کبھی زیادہ ۔جب بھی اسے کچھ زیادہ پیسے مل جاتے تو وہ اس کے لئے دوا لے آتا ،وہ کبھی اسے لیکر ہسپتال نہیں جاتا تھا ۔اس لئے کہ اسے معلوم تھا کہ ہسپتال ہوتے تو ہیں غریبوں کے لئے،لیکن ان سے فائدہ سرکاری افسروں ،ممبر وں اور وزیر وں کو ہی پہنچتا ہے ۔انہیں قیمتی سے قیمتی دوائیں دی جاتی ہیں ۔اور بیچارے غریبوں کو پانی جیسا مکچر ۔۔۔۔اور معمولی گولیاں جو کبھی کبھی نقلی بھی ہوتی ہیں اور ان کے لئے بھی غریبوں کو گھنٹوں لائن لگا کر کھڑا رہنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔!

ایک روز آچنک اس گونگے آپا ہج بھیک منگے بھیکو کی بیوی کو تیز بخار تھا ،بول تو سکتا نہ تھا سامنے بیٹھی اپنی دھنیا کو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتا اور کچھ سوچنے لگتا ۔پھر مانو جیسے اس کے دل سے آواز آنے لگی ۔۔۔۔۔”میری پیاری لو گا ئی (بیوی )میری دھنیا رانی ۔۔۔۔تو اتنی بیمار ہے اور ہم تہرا کے کچھ نئیکھے کر سکت۔۔۔۔۔؟اوہو ایسی حالت میں بھی ۔۔۔کاش ہمہو آپا ہج نہ ہوت تو ہمہو ں اتنا روپیہ کما ت کہ توہار کونو دکھ نہ ہوئے دیت ۔۔۔۔۔!! (تو اتنی بیمار ہے اور میں کچھ نہیں کر سکتا )آور تو آور ہم تہرا سے کھانا پکوا ت ہے ۔۔۔۔(اور تو اور میں تجھ سے کھانا پکوا تا ہوں،وہ بھی ایسی حالت میں ۔کاش میں آپا ہج نا ہوتا ۔۔۔میں بھی اتنے رو پے کما تا کہ تجھے کوئی دکھ نا ہونے دیتا ۔۔۔۔۔۔اچھے اچھے کپڑے پہنا تا ۔۔۔۔۔اچھے اچھے کھانا پکواتا ۔۔۔میرا بھی ایک آپن (اپنا )گھر ہوتا ۔اس وکت (وقت )میں تجھے ایسی پانی ٹپکتی جھونپڑ ی میں تھوڑے ہی رکھتا کہ پانی برسنے میں سمٹ کر کونے میں بیٹھے کو پڑے ۔ہم تہرا لئے (میں تیرے لئے ) اچّھے اچّھے پھل لا کر د یت (دیتا )۔۔۔۔۔ہم جانت ہیں (میں جانتا ہوں ) میری دھنیا رانی تہرا کے (تجھے )بڑی کھرا ب (خراب ) بیماری ہو گئل(گئی ) ہے ۔تہرا کہ اچّھی کھورا ک کی جرورت ہے۔ (تمہیں اچّھی غذا کی ضرورت ہے ) اگر تجھے میرے کھیا لات (خیالات )معلوم ہو جائے تو ،تو کہے گی میں اتنا روپیہ کہاں سے لاؤنگا ۔۔۔۔؟

ارے پگلی !میں محنت مجوری(مزدور ی ) کرتا یا کوئی چھوٹا موٹا سا کاروبار کرتا پھر ہم تہرا کو بڑکے ڈاگڈرکو دکھا ئتے ۔ (پھر میں تم کو بڑے ڈاکٹرکو دکھا تا ) اچھی کھو راک (خوراک)دیتا ۔قیمتی دوائی لاکر دیتا ۔۔۔۔کاش ایسن (ایسا )ہو تا تو میرا لڑکا لالو ٹا ئیفڈ سے نہ مرتا۔ ۔۔۔میری سونا پیلیا (جونڈ یس) کی بھینٹ نہ چڑھتی ۔۔۔۔؟

پھر اس نے سوچا ہماری سرکار کو بھی ہم پر رحم نہیں آتا ہماری یہ جھونپڑی بھی پولیس اجاڑ دیتی ہے جس میں ہم جانور جیسن(جیسے ) رہت (رہتے ) ہیں ۔ سرکار ہماری حالت سدھار نے کے لئے روپیہ دیتی ہے مگر اِی پتا نئکھے چلت کہ اُو روپیہ کہا ں جاوت ہے ۔

اوپر سے نیچے تک سب بٹ جا وت ہے۔ ہم نی کے ویسے ہی بھوکے رہ جاوت ہیں ۔

پھر اس نے اپنی بیوی دھنیا کا ہاتھ پکڑ کر دیکھا اس کا بدن کوئلے کی بھٹی کی طرح جل رہا تھا ۔اسے دوا کی سخت ضرورت تھی ۔کچھ پیسوں کا انتظام کرنا بہت ضروری تھا ۔تا کہاپنی دھنیا رانی کے لئے دوا لا سکے ۔

سیٹھ رادھا چرن اس کی نظر میں بڑے دیا لو آدمی تھے کسی طرح وہ انکی کوٹھی تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔سامنے ہی کسی دکان پر ایک ریکارڈ بج رہا تھا ۔۔۔۔۔”غریبوں کی سنو وہ تمہاری سنے گا۔”

در بان نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا اور بھگا نے لگا۔آپاہج گونگے بھیکو نے کسی طرح اسے سمجھایا کہ اس کی گھر والی بہت بیمار ہے ۔وہ در بان کے قدموں پر گر پڑا ۔رویا گڑ گرایا تب کہیں وہ پسیجا ۔اور اسے لیکر سیٹھ رادھا چرن کے پاس پہنچ گیا۔اور سیٹھ کو سمجھایا ۔۔۔۔۔سیٹھ نے سو روپیہ کا نوٹ اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہا۔

"تم لوگ یونہی جھوٹ مو ٹ بہانے بنا کر روپیہ ائنٹھتے ہو ۔۔۔یہ لو جاؤ مگر آئندہ ہولی اور دورگا پوجا کے علاوہ کبھی یہاں نا آنا "۔

آپا ہج بھیکو نے نوٹ کی طرف دیکھا سوچا اٹھا لے ۔لیکن اس کے اندر کا انسان جاگ اٹھا تھا ،بےدار ہو چکا تھا ۔اس نے سوچا اس کی سچی بات کو بھی بہانہ سمجھا جاتا ہے ۔۔۔۔۔؟ اس وہ نوٹ نہیں لیا ۔دعا ئیں دیتا ہوا باہر نکلنے لگا تو سیٹھ کے کسی مصا حب نے کہا۔ ۔۔ ۔ "دیکھا آپ نے سیٹھ جی !یہ کتنے موٹے ہیں ۔۔۔۔ لو گا ئی (بیوی )مر رہی ہوتی تو یہ کبھی ایسا نہ کرتا ۔۔۔۔مکّار چار سو بیس ہے "۔

آپا ہج گونگا بھیکو یہ نا قابل برداشت باتیں سنتا ہوا باہر نکل کر سڑک پر بیٹھ گیا ۔وہ دوا لے کر ہی اپنی دھنیا رانی کے پاس جانا چاہتا تھا ۔شام تک اس نے کچھ روپیے جمع کر لئے تھے اور دوائی لے کر اپنی بانس اور پلا سٹک سے بنی جھونپڑی میں پہنچ گیا ۔دھنیا رانی سو رہی تھی ،اس نے اسے جگانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کی نیند نہیں ٹوٹی ۔وہ ہمیشہ ہمیشہ کی تکلیف سے چھٹکارا پا کر اطمینان کی نیند سو چکی تھی ۔دوا کی شیشی آپاہج گونگے بھیکو کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گئی ۔گولیاں بکھر گئیں اور بھیکو کی بھیانک چیخ سے آدمی کا ہجوم لگ گیا، سبھی اس کی بے بسی پر افسوس کر رہے تھے ۔(ختم شد )۔

Comments are closed.