"”سوتن بنام””” آج کا اینڈرایڈ موبائیل "””

تحریر۔۔۔محمّد سُلطان اختر نوادہ،،،
آج کل کے معاشرہ میں بہت سی خرابیاں پھیلی ہیں جس میں اینڈرائیڈ موبائل بھی بہت سی ازدواجی زندگی کو خراب کرنے میں اہم رول ادا کر رہا ہے۔۔ازدواجی زندگی کے لئے بھی اسلام نے ہمیں طریقہ بتایا ہے۔۔۔ اسلام ایک کامل ومکمل دین ہے۔ جو دنیائے انسانیت کے لئے خالق کائنات کاایک حسین تحفہ اور بے مثال نذرانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنفس نفیس اس کے احکام و قوانین وضع فرمائے ہیں۔ اور یہ احکام و قوانین عین انسانی فطرت سے ہم آہنگ اور موافق ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ خالق انسانیت ہے۔ اسی نے انسانی فطرت اور مزاج تخلیق فرمایا ہے۔ لہٰذا اس سے زیادہ انسان کا مزاج شناش اور فطرت شناش اور کون ہوسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلامی احکام اور قوانین میں جو انسانی مزاج اور فطرت کی رعایت نظر آتی ہے۔۔۔۔۔
اسلام میں عورت کو شوہر کی مکمل فرمانبرداری کا حکم دیا گیا ہے، اگر شوہر بیوی کو کسی بات سے منع کردے تو بیوی پر اس کی بات کا ماننا لازم ہے، اور شوہر کو بھی چاہیئے کہ بیوی کے حقوق ادا کریں۔گھر پر جب جائیں تو بیوی سے باتیں کریں مزاح بھی تاکہ ماحول خوشگوار بن جائے۔۔۔
لیکن افسوس صد افسوس کہ اینڈرائیڈ موبائل نے گھر پر بیوی کے پاس بھی مشغول کر دیا ہے۔۔
آج کل کے معاشرے میں جہاں ہر طرح کی چیزوں پہ بے زوال آیا اور معاشرہ بدلتا ہوا دیکھ رہا ہے ٹھیک اسی طرح سے ازدواجی زندگی بھی ایک دوسرے سے سے بالکل بدلتی ہی نظر آ رہی ہے بات کریں اینڈرائڈ موبائل جو آج کے دور میں عورتوں کے لئے یہ ٹیلی ویژن سے کم نہیں کام کر رہی ہے اور موبائل میں لگی ہوئی ہیں بسا اوقات کام بھی خراب ہو جاتا ہے۔۔ آپ کو بتا دیں کہ جس طرح جب سے یہ موبائل آیا ہے دراصل مرد حضرات اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر جاتے ہیں موبائل دیکھنا شروع ہو جاتا ہے بیوی چاہتی ہے کہ کچھ ہم سے گفتگو کریں، انڈرائڈ موبائل آنے سے پہلے یہ مرد حضرات گھر میں جاتے ہی بیوی کے قصیدے پڑھا کرتے تھے،آج بہت کم ہوگیا ہے۔اُنہیں موبائیل دیکھنے سے فرصت کہاں، محبت و الفت کی باتیں دور کی ہیں۔یہاں تک کہ کھانا کھاتے کھاتے چیٹ ہوتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی اپنے ہاتھوں سے نہ کہا کر بیوی ہی لقمہ دیتی ہے۔۔اور جناب اِس طرح سے کھانا تناول فرماتے ہیں کہ پورے عالم میں سب سے زیادہ مشغول ہوں لیکن محبت اِس طرح استوار نہیں ہوتا۔محبت میں میاں بیوی ایک دوسرے کو لقمہ دے رہا ہوتاہے۔کُچھ اُلفت کُچھ محبت اور کچھ رومانی اور کُچھ حالات حاضرہ کی باتیں ہوتی ہے۔کیا ہمارا اسلام ازدوادی زندگی گزارنے کا طریقہ نہیں بتایا۔ اِس معاملہ میں اچھے گھرانے اور پڑھے لکھے طبقات زیادہ ملوث ہیں۔ ایک ہمارے ہی قریبی جاننے والے جو بڑے افسر ہیں ان کی بیوی عصمت النساء کہتی ہیں کہ جناب آفس سے جب آتے ہیں گھر داخل ہوتے ہی سبھوں کو پریشان کر دیتے ہیں یہ لاؤ وہ لاؤ مانو کی پوری دنیا تم لوگ لیکر آؤ میں موبائیل دیکھتا ہوں۔ جب وہ گھر میں آتے ہی موبائل میں اتنی دیر لگ جاتے ہے کہ اچھا خاصا ہم بیبیوں کا وقت موبائیل لے لیتی ہے اور کبھی تو کلائنڈ کا میسج دیکھنا اور کبھی دوستوں کا میسج کا جواب دینا،اور تو اور اس دوستوں میں دوست مرد بھی ہوتے ہیں عورت بھی ہوتی ہیں۔ کیسی دوستی ہے یہ؟ خدا خیر کرے۔ اور ان کا کہنا ہے کہ جب ان لوگوں کا میسج ختم ہو جاتا ہے تو کبھی فیس بک چیک کرتے ہیں کبھی ٹیلیگرام چیک کرتے ہیں کبھی واٹس اپ چیک کرتے ہیں اور کبھی بی آئی پی چیک کرتے ہیں تو کبھی ایمو چیک کرتے ہیں۔ یعنی اگر پندرہ ایپس ہیں۔تو اس طرح سے اچھا خاصا وقت نکل جاتا ہے۔اور بیویاں کو نہیں چاہتے ہوئے بھی سونا پڑتا ہے۔موبائل میں اتنا دوست مل جاتا ہے کہ میرے قریب آنے سے کتراتے ہیں یہاں تک کہ قریب سو نہیں پاتی ہوں اور اگر سو گئی تو تم میرے بدن پر رات بھر پاؤں رکھ کر نیند خراب کر دی، ان کے بدن پر پاؤں پرتے ہی نیندیں ٹوٹ جاتیں ہیں برائے مہربانی اب دور سویا کریں تو کیا یہی ہے ازدواجی زندگی ہے۔۔اسی طرح سے کچھ مرد حضرات بھی ہیں جو اپنی بیوی سے تنگ ہیں ہمارے ایک جاننے والے ان کی بیوی نام لینا صحیح نہیں ہوگا ان کی اہلیہ ایک افسانہ نگار ہیں کافی مضمون لکھتی ہیں اور وہ جب اپنے دوکان سے گھر آتے ہیں تو ان کی اہلیہ کبھی کھانا بنائے ہوتی ہے یا کبھی بنانا پڑتا ہے لیکن موبائل ہر وقت ساتھ ہوتا ہے جیسے موبائل کوئی لے لے تو چوری نہ پکڑی جائے۔۔پھر کبھی ٹائپ کر رہی ہیں یا ٹائپ ہو گیا تو یہ مضمون ڈالنا ہے تو اس پیپر چیک کرنا کس نے کیا بھیجا اس کا جواب دینا کسی نے میرا رسپونس کیا یا نہیں کسی نے میرے مضمون کا کیسا تاثرات لیا تو اسے بھی جواب دینا گویا ان کا بھی اچھا خاصا وقت انہیں سب چیزوں میں گزر جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس چار بچے ہیں اور بارہاں منع کرنے کے باوجود وہ ان سب کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں۔۔ معاشرہ ہمیں شکی مزاج اور کیا کیا القاب سے نوازتے ہیں۔ بیوی اپنے بچہ کا کتاب لے کر نہیں بیٹھتی اُس کے پاس وقت کہاں۔کبھی لکھ رہی ہے تو کبھی میل کر رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تصویر اور نمبرات کے بغیر اخبار والے شائع ہی نہیں کرتے۔کبھی کبھی تو اخبار والے کالنگ باتیں اور ویڈیو کالنگ باتیں کے لئے بھی مجبور کرتے ہیں۔۔یہ سب معاشرہ میں بہت بڑی تنزلی آئی ہے۔۔ نمبرات سے دیگر لوگ بھی تنگ کرتے ہیں جان،جانو،اور نا جانے کن کن القاب سے نوازہ جاتا ہے اور اکثر اسی طرح سے لوگ تنگ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں۔ مضمون نگار افسانہ نگار جیسی عورتیں وہ بھی کافی عمر دراز ہوتی ہیں لیکن اپنا بہت ہی کم عمری کی تصویر لگا دیتی ہیں جس سے لوگ فریفتہ ہو جاتے ہیں اور ان کی طرف توجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں،تصویر کی نقاشی اس قدر کرکے فوٹو لگاتی ہیں کہ کوئی میس ورلڈ ہو،یہ سبھی کمیاں اِن ادیبہ میں ہوتی ہے۔جیسے دور کرنے کی ضرورت ہے،ایڈیٹر حضرات بھی بات کرنے کے لئے بالکل تنگ نہ کرے یہ نہایت ہی گری ہوئی بات ہے۔۔یہ ساری شکایتیں افسانہ نگار کے شوہر نے کی مزید کہا کہ دیکھ رہا ہوں اگر متنبہ ہونے پر باز پرس نہ ہوئی تو پھر سختی سے پیش آؤنگا یا پھر اخیر میں آزاد کر دونگا۔ یہ اینڈرائیڈ موبائل کا کرشمہ ہے جس کی وجہ سے بہت سارے کی ازدواجی زندگی خراب ہوتی جارہی ہیں۔ بالکل بھی بچوں پر دھیان نہیں دیتی۔بچّوں کی پڑھائی سے کوئی مطلب نہیں۔ جبکہ جگہ جگہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازدواجی زندگی اور ان کی محبت کے بارے میں ہمیں بتایا ہے
رسول خداﷺاپنی تمام تر عظمت و رفعت اور شان وشوکت کے باوجود، اپنے جاں نثاروں اور نیازمندوں سے مزاح فرمایاکرتے تھے نیز اسلافِ امّت کی زندگیاں جہاں خوف خداوندی،خشیت ایزدی اور زہد وتقویٰ کا نمونہ ہیں؛ وہیں تفریح، خوش دلی اور کھیل کود کے پہلوؤں پر بھی بہترین اُسوہ ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے پھر عورت نے انکار کردیا اور شوہر نے اسی طرح ناراضگی کی حالت میں رات بسر کی تو فرشتے اس عورت پر صبح تک لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (مشکاة: ۲۸۰) اس حدیث میں دو باتیں ہیں: (۱) عورت کا انکار کرنا بغیر کسی عذر شرعی کے ہو۔ (۲) عورت کے انکار کرنے کی وجہ سے شوہر ناراض ہوجائے اور ناراضگی ہی میں پوری رات گذرجائے۔۔۔۔ جب عورت رات بھر موبائیل میں لگی ہوگی تو کہاں سے جماع کی صورت بنے گی۔
مزاح ومذاق؛ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
مولانا عبدالرشیدطلحہ نعمانی۔فرماتے ہیں کہ۔۔۔ اسلام افراط و تفریط سے پاک، ایک اعتدال پسند دین ہے ؛جو ہر چیز میں میانہ روی کو پسند کرتا ہے ، اسلامی نظام کوئی بے رنگ اورخشک نظام نہیں؛ جس میں تفریحِ طبع ،دل لگی اور زندہ دلی کی کوئی گنجائش نہ ہو؛ بلکہ وہ فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ اور فطری مقاصد کو رو بہ عمل لانے والا مذہب ہے ۔ اس میں نہ تو خود ساختہ 148رہبانیت وعزلت گزینی147 کی گنجائش ہے ، نہ ہی بے کیف و بے ہنگم زندگی بسر کرنے کی اجازت۔ آسانی فراہم کرنا اور سختیوں سے بچانا شریعت کے اہداف میں داخل ہے ؛ جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے :خدا تمہارے بارے میں آسانی چاہتا ہے زحمت نہیں چاہتا۔(سورہ بقرۃ)
اسلام آخرت کی کامیابی کو اساسی حیثیت دیتے ہوئے تمام دنیاوی مصالح کی بھی رعایت کرتا ہے ، اس کی پاکیزہ تعلیمات میں جہاں ایک طرف عقائدو عبادات، معاشرت و معاملات اور اخلاقیات و آداب کے اہم مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے ، وہیں زندگی کے لطیف اور نازک پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔
اسلام سستی اور کاہلی کو پسند نہیں کرتا؛ بلکہ چستی اور خوش طبعی کو پسند کرتا ہے ، مزاح ، زندہ دلی اور خوش طبعی انسانی زندگی کا ایک خوش کن عنصر ہے ، اور جس طرح اس کا حد سے متجاوز ہوجانا نازیبا اور مضر ہے ، اسی طرح اس لطیف احساس سے آدمی کا بالکل خالی ہونا بھی ایک عیب ہے ؛ جو بسا اوقات انسان کو خشک محض بنادیتا ہے ۔ بسا اوقات ہمنشینوں اور ماتحتوں کے ساتھ لطیف ظرافت و مزاح کا برتاؤ ان کے لئے بے پناہ مسرت کے حصول کا ذریعہ اور بعض اوقات عزت افزائی کا باعث بھی ہوتا ہے ۔
مزاح کیا ہے ؟ :
مزاح کی مثال صاف و شفاف پانی سے دی جاتی ہے ،اسے جس ظرف میں ڈالا جائے گا وہ اسی رنگ میں رنگ جائے گا ، شریف وباوقار لوگ نہات ہی حسین اور لطیف مزاح کرتے ہیں ؛جس سے محفل زعفران زار ہوجاتی ہے جب کہ بداخلاق اور آوارہ لوگ لچر مزاح کرتے ہیں ؛جس سے انبساط کے بجائے مزید انقباض پیدا ہوجاتاہے ۔چناں چہ مزاح کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہوتی،غیرمہذب اور اخلاق باختہ گروہ کا مزاح بھی غیر مہذب اور اخلاق باختہ ہوا کرتا ہے ، مہذب اور اخلاق والے گروہ کے مزاح پر بھی اُس گروہ کے کردار کی چھاپ پڑتی ہے ۔ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے اپنے ایک مضمون 146مزاح: تعریف اور نظریات145 میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگوکی ہے ۔تاہم مزاح کی یہ تعریف بہت حدتک جامع نظر آتی ہے کہ مزاح:عمل، تقریر یا تحریر کی وہ صفت ہے جو تفریح، نرالاپن، مذاق، ہنسی، ظرافت اور غیر سنجیدگی کو برانگیختہ کرتی ہے ۔ یوں تو دورِ حاضر میں ہنسی کی ضرورت اور افادیت پر سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور ماہرین طب اس رائے پر پہنچے ہیں کہ انسانی صحت کے لیے ہنسی ناگزیر ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسکراہٹ:
سرکارِ دوعالم ﷺسنجیدگی ومتانت، عظمت و وقار اور خوش سلیقگی کا پیکرِ حسین تھے ،بلاضرورت کبھی گفتگو نہ فرماتے اور نہ ہی آواز سے ہنستے تھے ۔آپ کا ارشادِ عالی ہے :زیادہ نہ ہنسو؛ اس لیے کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے ۔(ترمذی)سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں اور غلاموں کی دل جوئی اور دل بستگی کے لیے کبھی کبھار خوش طبعی فرمالیا کرتے تھے ۔ آپ اپنے غلاموں کے ساتھ دل لگی فرما کر ان کے قلوب و اذہان کو جِلا بخشتے اور ان میں سچی محبت اور بے لوث پیار کے چشمۂ صافی جاری فرمادیتے ۔
سیرتِ طیبہ اور احادیثِ نبویہ ﷺکے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اکثر تبسم فرمایا کرتے ؛جس سے غم زدوں ،بے کسوں،بے بسوں اور بے نواؤوں کو تسکین و راحت ملتی نیزگریہ زاری کرنے والوں اور اشک باروں کو فرحت وتازگی کا احساس ہوتا اور وہ اپنا رنج و غم سب بھول جایا کرتے تھے ۔
امام ترمذی نے حارث بن جزء رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :حضرت حارث نے کہا کہ میں نے حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا۔(ترمذی شریف) حضرت عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لاتے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقۂ کار کیا تھا؟آپ نے فرمایا: آپ کا سلوک عام لوگوں کے سلوک کی طرح تھااور146146 حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کریم الاخلاق تھے ہنستے بھی تھے مسکراتے بھی تھے ۔145145 لیکن آقا ﷺ کی شانِ ظرافت ،خوش طبعی،دل لگی اور دل آویز تبسّم اعتدال اور میانہ روی کا مرقع تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ اکر م صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:146146میں مزاح تو کرتا ہوں لیکن ہمیشہ سچ کہتا ہوں۔145145 حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ ظرافت، شگفتہ مزاجی ،خوش طبعی ہوتی،نہ جانے کتنے ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔۔۔یہاں پر گھر میں بیوی بچوں اور خاوند سے مزاح کرنا مراد ہے۔۔
ایک سونی خالہ ہیں اُن کا کہنا ہے کہ موبائیل ٹھیک سوتن کی طرح ہے۔ شوہر کے قریب میں رہ کر بھی یہ موبائل دور کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں بہت ہی مشکل ہوتی ہے اگر اس طرح کے کوئی بھی مرد حضرات بستر پر آکر بغل میں بیوی ہو مگر بیوی سے کوئی مطلب نہیں۔۔۔اسی طرح اس عورت پر بھی تعجب ہے بغل میں شوہر ہو اور موبائیل چلا رہی ہو نا جانے کیا کیا بہانہ بنا کر شوہر کو بستر پر چھوڑ کر ڈیسک پر کچھ لکھ رہی ہوتی یا کُچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں۔۔ اس لئے اس تحریر کا مطلب ہے کہ رات کے وقت بیوی کو پورا پورا وقت دیں اور شوہر اپنی اہلیہ کا خاص خیال رکھیں ہو سکتا ہے آپ کے اس حرکت سے آپ کو نہ کر رہی ہو آپ کا لحاظ کر رہی ہو آپ کو خوش رہنے کے مگر اندر اندر گھونٹ گھونٹ کر مر رہی ہوگی۔ اسی طرح وہ عورت جو بہت کچھ لکھنا پڑھنا جانتی ہیں انہیں بھی چاہیے کہ اپنے مرد کا خاص خیال رکھیں ان کی ضرورتوں کا خیال رکھیں ان کے اشارہ کو سمجھیں اُنکی خاموشی یا کم سخن گوئی کو کمزوری نا سمجھیں۔شوہر کے رہتے موبائل بالکل نا چلائیں۔یہ ادبا بھی منع ہے۔بلکہ جو عورت لکھنے کا شوق رکھتی ہیں تھوڑا تھوڑا روز لکھیں جب شوہر چلا جائے اور بچوں کی پڑھائی ہو جائے تب کُچھ لمحہ کے لئے موبائل چلائیں اور کچھ لکھ دیں اور ایک ہفتہ پندرہ دنوں پر اپنی کوئی بھی کسی طرح کی تخلیق کو ڈالیں۔۔۔اس سے آپ کا کوئی کام میں ضرر نہیں پہنچے گا ۔بہت سے مرد و عورتیں موبائیل کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ موبائل کا صحیح استعمال کرنے کیلئے آپ اپنا موبائل کھانے کے وقت سے بالکل الگ کردیں، موبائل سے دوری بنائے رکھیں۔ کھانے کے وقت سے سو کر اٹھنے کے وقت تک موبائل کی طرف نہ دیکھیں۔بیوی سے جو جس طرح کی باتیں آپسی محبت بھائی چارگی کی ہوتی ہیں اس طرح سے کریں ورنہ وہ دن دور نہیں کہ بہت ساری ازدواجی زندگی کے اندر جو خلا پیدا ہو رہا ہے یہ اینڈرائڈ موبائل مزید ازدوادی زندگی میں خلا پیدا کرکے پورے معاشرے کو خراب کر دیگا۔ اس طرح کے پڑھے لکھے طبقے کے اندر یہ بیماری پوائزن کی طرح پیوست ہو گئی ہے ہمارے ذہن میں اِن حضرات کی باتیں آئیں تو ہم نے سوچا کہ چند جملے اس پر لکھ دیا جاۓ قارئین حضرات سے ہماری گزارش ہے کہ ہمارا یہ مضمون کیسا لگا اور اگر آپ ان عورتوں میں ہیں جو مضمون لکھا کرتی ہیں تو آپ ایک معمول بنائیے اور روزانہ صرف آدھ گھنٹہ ہی نکالیں باقی گھریلو کام آپ کے لیے اہم ہے۔ سارے کام پہلے اپنے کریں گے اس کے بعد اپنے بچوں اور شوہروں کا خاص خیال رکھیں گے ان کا حق ہے ان کے حقوق پامال نہیں کریں گے اسی طرح مرد حضرات اس زمرے میں آتے ہیں تو وہ بھی گھر میں جب قدم رکھیں تو موبائل کا ڈیٹا بند کر دیں ڈیٹا بھی اگر آن ہو بھی تو آپ کی پوری توجہ اپنی بیوی پر ہو۔ پھر اس طرح پر لطف زندگی کا مزہ لیں گے ورنہ زندگی میں دراڑیں ہی دراڑیں ملیں گے۔۔۔اور یہ موبائیل ایک سوتن سے کم نہ ہوگا۔۔۔۔
Comments are closed.