یوم جمہوریہ اور کسان احتجاج ؛اگر مسلمانوں کا ساتھ دیتے تو۔۔۔

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
یہ دوسرا یوم جمہوریہ ہے کہ ہماری جمہوری حکومت کو احتجاجی مظاہروں کا سامنا ہے ۔ پچھلے یوم جمہوریہ کے وقت انڈین شہری بالخصوص مسلمان شہریت ترمیمی قانون ( سی اے اے ) اور اس کی بنیاد پرآسام کی طرح پورے ملک میں این آر سی کروائے جانے کے دھمکی آمیز اعلانات کی مخالفت میں احتجاج کررہے تھے ۔ اب اس یوم جمہوریہ کے موقع انڈین شہری خاص طور سے کسان حال ہی میں حکومت کے ذریعہ بنائے گئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر تے ہوئے دارالحکومت دہلی کو گھیرے بیٹھے ہیں۔ اور یوم جمہوریہ پر ٹریکٹر ریلی کے ذریعہ حکومت کو اپنے ہونے اور اس کے ذریعہ مسلط کئے گئے قوانین سے متفق نہ ہونے کا احساس دلانے والے ہیں ۔ اس موسم میں دہلی میںخون جمانے والی سردی ہوتی ہے اسی سردی میں مسلم عورتوں نے شاہین باغ میں احتجاج کیا تھا اور اسی سردی میں کسان اپنے بوڑھوں عورتوں اور بچوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں ۔ بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت عوام کے لئے اور عوام کے ذریعہ حکومت ہوتا ہے یعنی عوام حکومت چنتے ہیں اور حکومت جتنی اسے ووٹ دینے والوں کی ہوتی ہے اتنی ہی اسے ووٹ نہ کرنے والوں کی بھی ہوتی ہے ۔ وہ حکومت کسی امتیاز کے بغیر سب شہریوں کے لئے کام کرتی ہے جو کچھ بھی کرتی ہے ان کی فلاح اور بھلائی کے لئے ہی کرتی ہے اس حساب سے ہونا یہ چاہئے کہ حکومت جو بھی کرے وہ عوام کے یا ان اقدامات سے متاثر ہونے والے لوگوں یا گروپس سے مشاورت اور اتفاق رائے کے بعد ہی کرے یا جو فیصلے عوام کے لئے بھلے نہیں ہیں یا عوام جن سے متفق نہیں ہیں انہیں حکومتوں نے واپس لے لینا چاہئے ۔ لیکن اب ایسا نہیں ہورہا ہے اب حکومت اپنی مرضی لوگوں پر مسلط کر رہی ہے قوانین تھوپ رہی ہے اور پھر ان کے اختلاف یا احتجاج کو بھی خاطر میں نہیں لا رہی ۔ ایسا لگ رہا ہے کہ ہمارے یہاں جمہوریت انتخابات تک ہی محدود کر کے رکھ دی گئی ہے ۔ اب اسے انتخابی آمریت سے بدل دیا گیا ہے ۔ اب سب کی شمولیت والی جمہوریت کو مذہبی اکثریتی جمہوریت بنا دیا گیا ۔ اکثریت میں مذہبی قوم پرستی پروان چڑھائی گئی اور اسے نیشنلزم سے گڈ مڈ کرکے جہاں ہر ہر اختلاف کو انٹی نیشنل قرار دیا جارہا ہے وہیں اس کے باوجود اختلاف کرنے والوں کے خلاف دشنام طرازی بد سلوکی اور بد تمیزی کرنے والوں کو متحرک کیا جارہا ہے ۔ اب تو مخالفین کے خلاف سرکاری ایجنسیوں کے غلط استعمال کے بھی الزام لگائے جا رہے ہیں یعنی مجموعی طور پر جمہوریت شہریاروں کا جنگل ہوگئی ہے جہاں عوام کے مفادات اور تحفظات کو نظر انداز کر کے اپنی مرضی مسلط کی جارہی ہے ۔ پچھلے سال مسلمانوں کے عدم اتفاق ،مخالفت اور احتجاج کے باوجود طلاق ثلاثہ بل پاس کر کے ہم پراپنی مرضی تھوپی گئی ، جمہوریت کی بنیادی اکائی یعنی عوام نے کچھ نہیں کہا بلکہ مذہبی قوم پرستی کے چلتے حکومت کو صرف اس لئے حمایت کی کہ یہ قانون مسلمانوں کو اذیت پہنچانے والا تھا ۔ اس کے بعد شہریت قانون میں مذہب کی بنیاد پر ترمیم کی گئی اس میںاسلام کے علاوہ ملک کے تمام مذاہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا قانون بنایا گیا اور اس کی بنیاد پر ملک گیر پیمانے پر این آر سی کروانے کے دھمکی آمیز اعلانات کر کے پہلے ہی سیاسی طور پر پچھڑے ہوئے مسلمانوں کو سماجی طور پر ملک کی پوری کی پوری غیر مسلم آبادی سے الگ تھلگ کرنے اور اس پوری آبادی کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مسلمانوں نے اس پر احتجاج کیا اسے بھی پہلے تو پولس ایکشن سے روکنے کی کوشش کی گئی اورپھر بدنام کر نے کے بھی سارے ہتھکنڈے اپنا ئے گئے ۔ چونکہ مسئلہ مسلمانوں کا تھا احتجاج مسلمانوں کا تھا تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا ، غیر مسلموں کی اکثریت نے اسے مسلمانوں کا مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کردیا ، یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کی کہ اگر ملک گیر این آر سی ہوا تو دوبارہ شہریت مل جانے کی گارنٹی کے باوجود انہیں بھی انہیں تکالیف اور دشواریوں سے گزرنا ہوگا جو مسلمانوں کو درپیش ہوں گی ۔وہ اسے بھی نیشنلزم سمجھ کر مذہبی قوم پرستی بنام مسلم مخالفت کی چادر اوڑھے جمہوریت کے خراٹے لیتے رہے اور جمہوریت آمریت کے پنجہء خونیں میں جاتی رہی ۔ اب بات مسلمانوں سے بڑھ کر کسانوں تک پہنچ گئی ہے ۔ حکومت نے زراعت کے متعلق جو نئے قوانین بنائے ہیں کسان ان سے متفق نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے کارپوریٹس کی مونو پولی ہو جائے گی کسانوں کا نقصان اور دھنا سیٹھوں کا منافع ہوگا ۔ لیکن حکومت نے آمریت کی طرح ان کی نہیں سنی سو انہیں بھی مسلمانوں کی طرح احتجاج کے لئے نکلنا پڑا اور انہوں نے بہت متحد اور منظم ہو کر ہماری جمہوریت کے دارلحکومت کی سرحدوں پر ڈیرے ڈال کر جمہوری ہندوستان کی منتخب آمریت کواسی طرح للکا راجس طرح تمام دیش واسیوں نے بنا کسی تفریق کے انگریز آمروں کو للکارا تھا ۔ اگر سی اے اے کو ہندو مسلم چشمے سے نہ دیکھتے ہوئے پورا دیش ، ہندو سکھ عیسائی اور دیگر اقوام مکمل طور پر مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تو شاید حکومت زرعی قوانین کی صورت کسانوں پر اپنی مرضی مسلط نہ کرتی ، کسانوں کو احتجاج نہ کرنا پڑتا ۔خیر سی اے اے یعنی مسلمانوں کے معاملے میں ذرا بھی نہ جھکنے والی سرکار کسانوں کے معاملے میں بات چیت پر اور کچھ ترامیم پرراضی ہوئی ،اور قابل صد احترام سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں سرکار کو پھٹکار لگاتے ہوئے مجوزہ قوانین پر روک لگائی یہ اس بات کی علامت ہے کہ اختلاف کرنے اور اپنے اختلاف کے منظم اظہار یعنی احتجاج جمہوریت کی زندگی کے لئے ضروری ہے ۔ لیکن کسانوں کے اس احتجاج کو بھی انہی القاب و آداب سے نوازہ جا رہا ہے جو مسلمانوں کے احتجاج کو دئے گئے تھے ۔ اس احتجاج کو ختم کر نے کے لئے بھی وہی چالیں چلی جارہی ہیں جو مسلمانوں کے احتجاج کے خلاف چلی گئی تھیں، کسان تو کسان ہیں لیکن ان میں پنجابیوں یعنی سکھوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے یہ کوشش کی جارہی ہے کہ اکثریت اس احتجاج کو بھی قوم پرستی کے چشمے سے دیکھے ، اسی طرح اس احتجاج کو خالصتان کا طعنہ دے کر انٹی نیشنل ظاہر کر نے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اگر اب بھی ملک کے ہر ہر شہری نے قومی اور مذہبی عصبیت کو بالائے طاق رکھ کر کسان احتجاج کی حمایت میں حکومت کی من مانی کو نہیں للکارا توکل کسی دوسرے گروہ پریہی باری آسکتی ہے، بلکہ ملک کا ہر شہری کسی نہ کسی صورت اس کی زد میں ضرور آئے گا پھر چاہے وہ ہندو ہو یا مسلم حکومت کا پرزور حامی ہو یا مخالف ۔ اگر آج ہم نے اس احتجاج کو زندہ نہیں رکھا تو ہوسکتا ہے کل احتجاج کی بھی اجازت نہ ملے ۔

Comments are closed.