اصلاح معاشرہ کا ایک سفر اور زرعی قوانین مخالف کسان تحریک

آفتاب احمد خان

استاذ شعبہ تجوید و قرآت دار العلوم دیوبند

دار العلوم دیوبند نے اس وقت بڑے پیمانے پر اصلاح معاشرہ کی تحریک چھیڑی ہوئی ہے، اساتذہ دار العلوم مسلسل اسفار کر رہے ہیں، دار العلوم کے اکابر و ارباب انتظام بھی اس کو وقت کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے مکمل توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، اس حوالے سے کئی رسالے اور پمفلٹ بھی دفتر اصلاح معاشرہ کمیٹی دار العلوم دیوبند نے نہایت مناسب عناوین پر شائع کیے ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق اس کے فوائد بھی عوام و خواص محسوس کر رہے ہیں-
اسی سلسلے میں 6/جمادی الاخری یوم چہار شنبہ کنوینراصلاح معاشرہ جناب مولانا و مفتی محمد مزمل صاحب بدایونی کی جانب سے قاری اقرار احمد صاحب استاذ شعبہ تجوید و قرآت کے واسطے سے یہ پیغام موصول ہوا کہ مولانا نفیس احمد صاحب مہتمم مدرسہ مصباح العلوم نہٹور نے قصبے کی تین مساجد میں اصلاح معاشرہ کا پروگرام ترتیب دیا ہے جس کے لیے آپ کو بھی مدعو کیا ہے دفتر نے 8/جمادی الاخری یوم جمعہ کو آپ کا سفر طے کر دیا ہے میرے استفسار پر قاری صاحب نے بتایا کہ میرا یہ سفر جناب مفتی عمران اللّٰہ صاحب اور جناب مفتی محمد مزمل صاحب بدایونی کی معیت میں ہوگا قاری صاحب نے یہ بھی بتایا کہ مولانا نفیس احمد صاحب نے سفر کا نظام بنانے کی ذمہ داری بندے کے سپرد کر دی ہے اور کنوینر صاحب نے بھی مجھے ہی مکلف کردیا ہے
مولانا نفیس احمد صاحب کا مرتب کردہ نظام یہ تھا کہ عصر کی نماز کے بعد کچھ علماء کے ساتھ مشاورتی ملاقات ہوگی اور مغرب کی نماز کے بعد مساجد میں عمومی بیانات ہوں گے اس لیے مشورے کے بعد یہ طے ہوا کہ جمعہ کی نماز کے فوراً بعد سفر شروع کیا جائے تاکہ عصر کی نماز نہٹور میں پڑھی جاسکے-
جمعہ کے دن کوئی دوبجے سفر شروع ہوا لیکن قضاء الٰہی میں کچھ اور ہی نظام بنا ہوا تھا
ہوا یہ کہ چار بجے سے کچھ پہلے بجنور سے پہلے دریائے گنگا کے قریب پہنچے تو روڈ پر بہت طویل جام لگا ہوا تھا برج سے پہلے ضلع مظفر نگر کی آخری پولیس چوکی پر تعینات سب انسپکٹر سے جام کے بارے میں معلوم کیا تو بتایا گیا کہ گنگا کے اس پار بجنور کے علاقے میں کسانوں نے راستہ جام کیا ہوا ہے انسپکٹر نے وہیں رکے رہنے کا مشورہ بھی دیا
وقت گزرتا گیا لیکن راستہ کھلنے کا نام و نشان نہیں تھا ادھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مولانا نفیس احمد صاحب اور نہٹور کے دیگر احباب تشویش میں مبتلا ہو گئے کہ مغرب تک پہنچنا بھی ناممکن سا ہورہا تھا خدایا سارا پروگرام درہم برہم ہوا جارہا ہے، ٹیلی فون پر مسلسل رابطہ تھا غور و فکر کے بعد مولانا نفیس احمد صاحب نے مشورہ دیا کہ آپ لوگ اپنی گاڑی چھوڑ دیں، پیدل گنگا کا پل پار کرتے ہوئے آگے بڑھیں ہم نے بجنور سے گاڑی کا انتظام کیا ہے گاڑی آپ کی جانب چل پڑی ہے ہم نے حکم کی تعمیل کی اور ایک کلو میٹر کے قریب لمبا پل پار کرکے آگے بڑھتے رہے، پھر فون آیا کہ بجنور کی طرف سے آنے والی گاڑی بھی آگے نہیں بڑھ پارہی ہے اب گاڑی وہیں روک دی گئی ہے اور موٹر سائیکلیں روانہ کی گئی ہیں جو گاڑی تک پہنچانے میں مدد کریں گی
ادھر جب ہم نے پل پار کیا تو معاملہ کچھ اور تھا راستہ کسانوں نے نہیں روکا تھا بلکہ کسانوں کا راستہ روکا گیا گیا تھا جو دو سو سے زائد ٹریکٹروں کے ساتھ دہلی کی جانب رواں دواں تھے وہ بےچارے راستہ کھولنے کے لیے منت کرتے دکھائی دیے
موٹر سائیکلیں ابھی ہم تک نہیں پہنچی تھیں ہم علماء نہٹور کی پریشانی کو محسوس کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ کسی طرح مغرب تک پہنچنے کی شکل بن جائے
اچانک ایک ٹریکٹر کی جانب سے ایک آواز کان سے ٹکرائی” مولانا مسجد میں جاکے دعا کریو یہ………… حکومت چلی جائے” ہم لوگ ادھر متوجہ ہوئے تو پیشانی پر لگے مخصوص نشان سے ہم نے سمجھا کہ یہ برادران وطن میں سے ہے،ہمارے رفیق مفتی محمد مزمل صاحب بدایونی نے اس سے دعا کے وعدے کے ساتھ کچھ مزید کہا تو انتہائی افسوس کے لہجے میں اس نے کہا کہ”مولوی صاحب! ہم سے بہت بڑی غلطی ہوئی ہے” قریب میں موجود ایک شخص نے شکایت کی کہ آپ لوگ ہمارے ساتھ نہیں آرہے ہیں اور اس شخص نے بطور دلیل بتایا کہ فلاں گاؤں آپ لوگوں کا ہے ہم وہاں لوگوں کو تیار کرنے گئے تو صرف چھ لوگ ہی تیار ہوئے اور انھوں نے بھی عین وقت پر بہانے بنادیے ہمارے ساتھ نہیں آئے ہمارے دوسرے رفیق مفتی عمران اللّٰہ صاحب نے ان کسان بھائیوں سے بات کی تو انھیں میں سے ایک نے اعتراف کیا اور اپنے ساتھیوں کو سمجھایا کہ جگہ جگہ کی بات ہے اس گاؤں میں نہ ہوں لیکن دوسری جگہوں پر یہ لوگ ساتھ میں ہیں
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کسان تحریک میں شامل نہیں ہے اس کی دو وجہیں ہیں ایک طبقے کا ماننا تو یہ ہے کہ زیادہ تعداد میں شریک ہونے سے حکومت کو منفی رخ دینے کا موقع مل سکتا ہے جب کہ ایک بڑا طبقہ لاک ڈاؤن سے پہلے سی اے اے مخالف مظاہروں میں حکومت کے بےتحاشا مظالم سے ڈرا سہما ہوا بھی ہے
دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ مسلمان اپنے دلوں سے مکمل کسان تحریک کے ساتھ ہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد عملی طور پر مختلف مقامات پر شریک بھی ہے جمیعت علماء کے جیالے کسانوں کو تعاون دے رہے ہیں وہ میڈیا کے چھپانے کے باوجود حقیقت بیں طبقے سے مخفی نہیں ہے کسانوں کے ساتھ اس مختصر اور اتفاقی ملاقات سے ملک کی موجودہ عوام مخالف حکومت کے حوالے سے نئے عوامی رجحان کا بھی اندازہ ہوا تاہم ابھی اپوزیشن کو میدان میں اتر کر سخت جد و جہد کی ضرورت ہے
ہم آگے بڑھتے رہے چار ساڑھے چار کلو میٹر ہم چل چکے تھے تب کہیں موٹر سائیکلیں ہم تک پہنچیں اگرچہ ان مخلص نوجوانوں نے اپنے مقدور بھر کوئی کسر نہیں چھوڑی
ہم موٹر سائیکلوں کے ذریعے نمائش گراؤنڈ بجنور تک پہنچے جہاں گاڑی تیار تھی بیٹھ کر فوراً روانہ ہوئے مفتی محمد مزمل صاحب بدایونی نے گھڑی دیکھی تو پانچ بج کر چالیس منٹ ہو چکے تھے مغرب کی اذان میں صرف سات منٹ باقی تھے اور پچیس کلو میٹر سے زیادہ سفر باقی تھا شام کا وقت ہونے کی وجہ سے ٹریفک بھی خوب تھا گاڑی ایک محدود رفتار سے ہی چل سکتی تھی
خدا خدا کرکے چھ بج کر بیس منٹ پر نہٹور بس اسٹاپ کے پاس پہنچے جہاں منتظمین نوجوان موجود تھے وہ فوراً ہی تینوں پروگرام کے مقامات کی طرف متعین افراد کو لے کر چل دیے تینوں جگہوں پر مقامی علماء کرام نے نہایت سلیقے سے پروگرام سنبھالا ہوا تھا ان کے بیانات جاری تھے ہم لوگوں نے پہنچ کر نماز ادا کی اور اللّٰہ تعالیٰ کی مدد سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں لگ گئے پروگرام سے فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے ٹیکسی ڈرائیور بھائی محمد عالم صاحب کسی طرح جام سے گاڑی نکال کر نہٹور پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں
پروگرام کے تینوں جگہ کے منتظمین و سامعین بہت خوش تھے دار العلوم دیوبند کے اس اقدام کی تحسین میں رطب اللسان تھے علماء کرام نے مفتی محمد مزمل صاحب بدایونی کنوینر اصلاح معاشرہ کمیٹی کے سامنے آئندہ بھی اساتذہ دار العلوم کی تشریف آوری کے سلسلے میں درخواست رکھی تو انھوں نےخوشی کے اساتذہ کرام کا نظام بنانے کا وعدہ کیا
اس وقت جب کہ رات کے ایک بج کر پندرہ منٹ ہو چکے ہیں گھنے کہرے میں ہمارے ڈرائیور بھائی محمد عالم صاحب راستہ نظر نہ آئے کے باوجود بڑی محنت سے راستہ ڈھونڈتے ہوئے دیوبند پہنچنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں بندہ ان سطور کی تکمیل کر رہا ہے یہ کوتاہ علم ایسے بھی زبان و قلم سے آشنا نہیں ہے پھر موبائل پر لکھنے کا تجربہ تو بالکل بھی نہیں ہے فروگزاشتیں بہت ہوئی ہوں گی امید ہے کہ ناظرین نظر انداز فرمائیں گے

Comments are closed.