ہمیں وہ یاد آتے ہیں

عاقب انجم عافیؔ
دنیا کی حقیقت جن پہ کھلی، آنسو ہی رہے ان آنکھوں میں
پھولوں کی حیاتِ فانی پر گریاں نہ ہو شبنم؟ مشکل ہے!
مجھے ذکی کیفیؔ مرحوم یاد آتے ہیں۔ بڑے سلیقہ کے انسان تھے۔ کیا شعر کہتے تھے اور کس انداز سے سناتے تھے۔ روایتا احباب انہیں ’عالم‘ نہیں مانتے اور میں ہوں کہ بضد اس بات کا اعلان کیے جارہا ہوں کہ وہ روایتی عالم تو نہیں بلکہ ’حق شناس عالم‘ تھے۔ وہ کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھتے تھے اور اسی کو اپنی شاعری میں بیان کرتے تھے۔
مولانا مرحوم بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے۔ 7 مارچ 1926 کو دیوبند میں پیدا ہوئے تھے اور والد بزرگوار مفتی محمد شفیع صاحب کے ساتھ تقسیم ِوطن کے دوران پاکستان چلے گئے۔ غزلیں بھی کہیں اور کچھ نظمیں بھی۔ کیا کیف و سرور کی بات کرتے تھے اور کس قدر عشقِ حقیقی کے جام پلاتے تھے۔ کہنے لگے:
میں کچھ نہ سہی لیکن میری ہی اسیری سے
اک ربط ہوا قائم گلزار سے زنداں تک
کیفیؔ حکیم الامت کی مجالس میں جاتے تھے، اور بیعت بھی ہوئے۔تھانوی سے سوال کیا کہ حضرت والا! ہمیں پند نامہ پڑھا دیجیے۔ کہاں حکیم الامت جیسے مشاغل والا انسان، اور کہاں کیفیؔ جو ابھی بقول مولانا محمد تقی ؔ عثمانی کے ’بچہ‘ تھے۔حکیم الامت تھانوی، خدائے تعالی کے برگزیدہ بندے تھے، اور یہ گوارا نہیں کیا کہ یہ معصوم درخواست ٹھکرائیں۔ ”عصر کے بعد ہوا خوری کو جاتا ہوں، اس وقت کتاب لیکر میرے ساتھ چلا کرو، میں اس فرصت میں تمہیں پند نامہ پڑھا دوں گا“۔ ذکی کیفیؔ مولانا سید اصغر حسینؒ کی خدمت و صحبت سے بھی فیضیاب ہوئے۔ دار العلوم دیوبند میں داخل ہوئے لیکن تعلیم وہاں سے مکمل نہ کر پائے۔
کیفیؔ نے شاعری کی اور بہت خوب کی۔ وہ حق گو شاعر تھے۔ جامعہ دار العلوم کراچی کا ترانہ دیکھیے، اور ان کے تفقہ کا اندازہ کیجیے۔
دار العلوم نام عمارات کا نہیں دار العلوم حسن جمادات کا نہیں
نقش و نگار منبر و محراب بھی نہیں یہ سبزہ زار و گلشنِ شاداب بھی نہیں
زورِ بیاں و شورِ خطابت نہیں نہیں علمِ عروض و حسنِ بلاغت نہیں نہیں
دار العلوم منطقِ یونانیاں نہیں دار العلوم عقل کی حیرانیاں نہیں
دار العلوم نام نہیں قیل و قال کا یہ فلسفہ کا نام نہ بحث و جدال کا
دار العلوم روح کی پاکیزگی کا نام دار العلوم روح کی آسودگی کا نام
دار العلوم نام ہے سوزِ حیات کا دار العلوم نام ہے فکرِ نجات کا
قول و عمل میں ظلم سے بچنے کا نام ہے دار العلوم کفر سے کٹنے کا نام ہے
کیفیؔ نے ان اشعار میں ’علم کے ایک مرکز‘ کی تعریف بیاں کی ہے۔ ان اشعار کو پڑھتے وقت مجھے علامہ گیلانیؔ مرحوم کے کچھ شعر یاد آتے ہیں۔ مرحوم حق شناس عالم تھے، اور شیخ الھندؒ سے انہیں تبحر حاصل ہوا تھا۔ فرماتے ہیں:
درسِ تفسیر بھی دوں شرحِ احادیث کروں ان چراغوں سے میں دنیا میں اجالا کردوں
ابن سیناؔ کی خبر لوں تو کبھی نیوٹن کی دامن دہر پر ہر رنگ کو پھیکا کردوں
آب جیحوں میں ملاؤں آب چنبل شکسپئرؔ کو نظامیؔ سے شناسا کردوں۔
لیکن یہ دنیا کہاں وفا کرتی ہے۔ شیخ الھند ایک صدی قبل علی گڑھ میں جو درس دے کر گئے تھے، اس پر آج تک عمل نہیں ہوا۔ کیفیؔ کو ایسی ہی باتوں کا غم ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں:
ابھی تک بے ہسی ہے، خود فراموشی ہے، غفلت ہے
ابھی خوار و زبوں شاید مسلماں اور بھی ہوں گے۔
کیفیؔ اس سفر میں اکیلے مسافر نہیں۔ اکبر شاہ خان نجیب آبادی اپنی ”تاریخِ اسلام“ کے مقدمے میں ایسی ہی بات لکھ گئے ہیں۔ ”جو قوم اپنا ماضی بھول جاتی ہے، ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہوجاتی ہے“۔ لیکن جیسا کہ مولانا محمد میاں دیوبندیؒنے فرمایا کہ ”ہمارا حال ہمارے مستقبل کی بنیاد ہے“، ذکی کیفیؔ ہمیں امید کا درس دیتے ہیں۔
غمِ حیات کے بارِ گراں سے کیا ڈرنا کسی کے غم کے سہارے سہارتے چلیے
سفر گو مشکل اور کٹھن ہو لیکن ایک بلند پایہ عزم اور حوصلہ اسے عبور کر ہی لیتا ہے۔ کیفیؔ فرماتے ہیں:
راستے کھلتے گئے عزمِ سفر کے سامنے
منزلیں ہی منزلیں ہیں اب نظر کے سامنے
کیفیؔ اپنے والد سے کچھ عرصہ قبل 28 جنوری 1975 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ خدائے وحدہ لاشریک ان کے درجات بلند فرمائے۔کاش کہ کیفیؔ کو سید سلیمان ندوی جیسا کوئی رفیق ملتا جو اشک لئے اس حقیقت سے دنیا کو مزین کرتا کہ ”کیفیؔ کی شاعری اسلام کا غیر فانی لٹریچر بن کر رہے گی، اس کی شرحیں لکھی جائیں گی، نظریئے ان سے بنیں گے، ان کا فلسفہ تیار ہوگا، اس کی دلیلیں ڈھونڈیں جائیں گی، اور اس طرح کیفیؔ کا پیام ہمیشہ زندہ رہے گا اور کیفیؔ زندہ و جاوید“!
Comments are closed.