امارت شرعیہ کی تعلیمی تحریک وقت کی اہم ضرورت

ابوسعدان قاسمی 7050667423
امارت شرعیہ بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ وطن عزیز کے مسلمانوں کے لئے اللہ کی بڑی نعمت ہے، اس کے انسانی وملی خدمات کا دائرہ کافی وسیع ہے ،سوسالوں سے مسلسل اس نے خدمت خلق کے ساتھ تمام شعبہ حیات میں اپنی بساط سے بڑھ کر ملت کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیاہے، اورمشکل حالات میں پوری ہمت وجرأت سے سفینۂ ملت کی ناخدائی کی ہے، پچھلے چند برسوں سے ملک کا سیاسی دھار ایک خاص سمت میں بہہ رہاہے جس سے ملک کی اقلیت خاص کر مسلمانوں کی تعلیم وتہذیب ،زبان وثقافت اورملی تشخص وامتیاز کو خطرہ لاحق ہے، حال کا آئینہ مستقبل کی تصویر دکھارہاہے،ایسے میں ضروری ہے کہ وقت سے پہلے اپنے آشیانے کی حفاظت کے لئے ممکنہ تدابیراختیارکی جائیں اوراپنے سب سے بڑے سرمائے نئی نسل کی تعلیم وتربیت کی دل وجان سے فکر کی جائے تاکہ آنے والے ہرطوفان کا مقابلہ کرنا اس کے لئے آسان ہو اوروہ مشکل وقت میں بھی زندگی کی راہیں نکالنے کی پوزیشن میں ہو، چنانچہ امارت شرعیہ نے اپنے دیگر شعبوں کے ساتھ شعبۂ تعلیم کے ذریعہ شروع دن سے ہی تعلیم کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیاہے، اوردینی وعصری دونوں تعلیم کے میدانوں میں ملک وملت کی مضبوطی کے ساتھ رہنمائی کی ہے، مکاتب دینیہ کی تحریک سے لے کر مدارس اسلامیہ اورعصری تعلیمی اداروں کے قیام تک قابل تقلید کوشش کی ہے ، ماضی تاحال اس کی کوششوں سے ہزاروں تعلیم کی شمعیں روشن ہوئی ہیں جن سے اہل نظر باخبر ہیں،اسی کے پیش نظر مفکراسلام حضرت مولاناسید محمد ولی رحمانی زیدمجدہم امیر شریعت بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ کی خصوصی ہدایت پر امارت شرعیہ نے بنیادی دینی تعلیم کی فکر،عصری تعلیمی اداروں کے قیام اورتحفظ اردوزبان کی بابت متعلقہ تین ریاستوں بہاراڈیشہ وجھارکھنڈ میں پرزور تحریک شروع کی ہے، یہ تحریک گرچہ امارت شرعیہ کے کاموں کا پہلے سے ہی عنوان رہی ہے تاہم ترجیحی بنیاد پر کرنے کے کاموں میں اسے مقدم رکھاگیاہے، باضابطہ اسے مہم اورتحریک کی شکل دے کر تینوں ریاستوں میں بالترتیب ’’ہفتہ برائے ترغیب تعلیم وتحفظ اردو‘‘ منایاجارہاہے،پہلے مرحلہ میں ریاست بہار کے تمام اضلاع میں یکم فروری تا ۷؍فروری ہرضلع ہیڈ کواٹرمیں خواص اوراہل فکر ونظر حضرات پر مشتمل ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوگا، جس میں ان مذکورہ موضوعات پر بسط وتفصیل کے ساتھ تبادلۂ خیال ہوگا،پھر ان مقاصد کو آبادی میں روبہ عمل لانے کے لئے طریقۂ کار پیش کئے جائیں گے۔ اس تحریک کی پہلی کڑی’’بنیادی دینی تعلیم کی فکر‘‘ہے، فرد سے لے کر جماعت اورگھر سے لے کر ریاست تک مسلم معاشرہ کے لئے یہ پہلی اینٹ کا درجہ رکھتی ہے، ہمارے سینوں میں جودین توحیدکی امانت ہے، اسے آنے والی نسل کے دلوں میں منتقل کرنا تمام فرائض پر مقدم ہے،اگر اس میں ہم نے ذرہ برابر کوتاہی کی توہم اپنی نسل اوراولاد کے حق میں سب سے بڑے مجرم ہوںگے، ان کے دیگر سارے حقوق کی ادائیگی کی بہ نسبت یہ حق تعلیم ہرلحاظ سے بڑھاہوا ہے، اس لئے کہ ہم انہیں دنیا کی پوری دولت بھی دیدیں اوردین کی بنیادی تعلیم وتربیت سے محروم رکھیں تواس کے بغیر وہ ساری دولت کسی کام کی نہیں،پھر ہمارے اوردوسروں کے درمیان کوئی خط امتیا زباقی نہیں رہتا،ہمارا یقین ہے کہ اس دنیا کی سب سے عظیم دولت ایمان واسلام کی دولت ہے، اگر ہم نے اپنی اولاد کوان کی ابتدائی عمر میں ہی دینی تعلیم وتربیت کے سانچے میں نہیں ڈھالا تویادرکھیں ہم اپنے بعد اپنے گھروں میں اہل ایمان کی جماعت کو چھوڑکرنہیں بلکہ غیرشعوری طورپر ایک باغی اوردین بیزار گروہ کو چھوڑکر جارہے ہیں،ملک کی موجودہ صورت حال سے ہرکوئی واقف ہے ،اورملک کی برسراقتدار حکومت کی منشاء بھی بالکل واضح ہے، تہذیبوں کی کشمکش اوراختلاط کے اس پرخطردور میں اپنے دینی تشخص وامتیاز کی بقاء اوراسلامی اخلاقی کردار کا تحفظ مشکل ہوتاجارہاہے، ملت کے دردمند اورمخلصین حضرات اس سے بخوبی واقف ہیں، گذشتہ چند سالوں سے نئی نسلوں میں جو بے راہ روی اوردین سے دوری پیدا ہوئی ہے، بڑے بڑے دیندار گھرانے بھی اس طوفان سے محفوظ نہیں رہ سکے، حال کے آئینہ میں اگر مستقبل کی تصویر دیکھنے کی کوشش کی جائے توکلیجہ منہ کوآتاہے، چند دہائیوں پہلے کسی قدر مسلم آبادیوں میں مکتب کا نظام قائم تھا اوراس نظام کو متأثرکرنے والے دوسرے نظام تعلیم کا پھیلائو بھی اس طرح نہیں تھا، جس سے وہ قدیم دینی تربیتی نظام کمزور ہوتامگر جب سے عصری تعلیم کا دائرہ وسیع ہواوراس نے زور پکڑا تو مسلمانوں کے لئے دونوں تعلیم کے حصول میں راہ اعتدال اختیارکرنا غفلت کے سبب دشوار ہوگیا اورنتیجہ انتہائی افسوسناک ظاہر ہوااور’’نہ خداہی ملانہ وصال صنم‘‘ کے مصداق ٹھہرے ،رواں وقت میں مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج اپنی نسل کے دین وایمان کا تحفظ ہے، اگرآج ان نونہالان امت کے ذہن ودل پر دین اسلام کی صداقت وحقانیت کے نقوش ثبت کردئے گئے اورانہیں تعلیمات اسلام کے سانچے میں ڈھال دیا گیا توآنے والے بے دینی کے سخت سے سخت طوفان بھی ان کے دل ودماغ کو میلا نہیں کرسکتے،عمر کے ابتدائی نقوش واثرات دیر پا ثابت ہوتے ہیں،مشکل ترین حالات میں بھی وہ باوقار زندگی کی راہیں نکال سکتے ہیں،اوراگراس کے برعکس حالت رہی تواسپین واندولس کی تاریخ عبرت کے لئے ہمارے سامنے ہے۔امارت شرعیہ حالات کی اسی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے ترجیحی بنیادپرنسل نو کی دینی تعلیم وتربیت کی فکر لے کر اٹھی ہے،جو بلاشبہ وقت کا سب سے حساس اورنازک مسئلہ ہے، یہ وہ کام ہے جسے ہم بآسانی کرسکتے ہیں، اوراس میں باہر کسی جانب سے مداخلت بھی نہیں ، خاموشی سے اگر اس کام کو کرنے میں ہم کامیاب رہے تو یاد رکھیں آنے والے حالات ہماری نسلوں کا بال بیکا نہیں کرسکتے،حالات ان پر نہیں بلکہ یہ خودحالات پر اثر انداز ہوں گے،اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام مسلم آبادیوں میں ہرمسجد کے تحت مکتب کا خود کفیل نظام قائم کیاجائے،ائمہ مساجد کی تنخواہوں میں حسب خواہ اضافہ کیاجائے اوراس آبادی کے سارے مسلم بچے بچیوں کی دینی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری انہیں سونپی جائے،علاقے کے مرکزی مدارس بھی اس کام کو اپنی شاخوں کی حیثیت سے بحسن وخوبی انجام دے سکتے ہیں۔محلہ کے ذمہ داران،باشعور افراد،مسجد کے متولیان واراکین پر یہ فرض عائد ہوتاہے کہ اجتماعی کاموں میں اسے سب سے مقدم اوراہم جانتے ہوئے پورے احساس ذمہ داری کے ساتھ انجام دیں،ان مکاتب میں فقط نورانی قاعدہ، قرآن پاک، اوراردو کا نصاب نہ ہو بلکہ ایک ایساجامع اورمختصر نصا ب ہوجس میں عقائد،معاملات،معاشرت اوراخلاقیات کے بنیادی اوراہم مضامین شامل ہوں،جس سے بچوں کی ہمہ جہت دینی وفکری تربیت ہوسکے،اس تحریک سے امارت شرعیہ کی یہی فکرمقصود ہے،امیدہے کہ اس کے مشاورتی اجلاس میں شریک ہونے والے ملت کے خواص حضرات اس خاکہ میں رنگ بھرنے کی عملی کوشش فرمائیں گے۔
اس تحریک کی دوسری اہم کڑی ’’معیاری عصری تعلیمی اداروں کاقیام‘‘ہے،یہ بھی کرنے کے اہم کاموں میں ہے،حالات شدید اس کاتقاضہ کرررہے ہیں، ملک کی تعلیمی پالیسی آزادی کے بعد اب تک جس سمت میں جارہی ہے اس سے پڑھا لکھاہر شخص اچھی طرح واقف ہے، خاص کر نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020کے خدوخال سے جو واضح ہورہاہے،اس سے صاف ظاہر ہے کہ اہل اقتدار کی منشاء پس پردہ بہت کچھ ہے، اس پس منظر کے ساتھ یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ہمارے ہاتھوں سے قوم وملت کی ترقی اور آنے والی نسل کے مستقبل کے لئے جو ادارے قائم ہوسکتے تھے وہ نہیں ہوسکے، ماضی بعید میں ہمارے آباء واجداد نے مشکل حالات میں ملک وملت کو شاندار اورزندگی بخش ادارے عطاکئے تھے مگرماضی قریب میں یہ سلسلہ رک گیا،حالاں کہ ایک زندہ قوم کی نشانی ہے کہ اس کے اپنے معیاری تعلیمی ادارے ہوں،جہاں سے وہ اپنے دین ومذہب کے مطابق اعلیٰ اخلاق وکردار کے حامل افراد تیار کرسکے اور ملک وقوم کی خدمت کے کام ان سے لے سکے،یہ شرم اورعار کی بات ہے کہ نسلیں توہماری ہوں مگر ان کی تعلیم وتربیت کے لئے ادارے کوئی اورتعمیر کرے،اس جانب مسلمانوں کی واقعتا جو توجہ مطلوب تھی وہ نہیں ہوسکی۔جس امت کے مذہب کا پہلا لفظ ’’اقراء‘‘ ہو وہ تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں کی تعلیم گاہوں کی محتاج ہوکر رہ جائے یہ اسے ہرگز زیب نہیں دیتا،یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مغرب جس وقت تاریکیوں میں زندگی بسر کررہے تھے ،مسلم قوم دینی تعلیم کے ساتھ سائنس اورٹکنالوجی کے میدان میں عروج پر تھی،جس قوم کی لکھی ہوئی سائنسی کتابیں صدیوں یورپ کی تعلیم گاہوں میں شامل نصاب رہیں آج وہ قوم اپنی تعلیم ضرورت پوری کرنے سے قاصر ہے، یہ مقام افسوس نہیں بلکہ مقام عبرت ہے،امارت شرعیہ اپنے آغاز ہی سے اس جانب بھی مسلسل ملت کی رہنمائی کرتی رہی ہے،اس میدان میں اس نے مختلف مقامات پر سی بی ایس ای کے طرز پر ’’امارت پبلک اسکول‘‘ کے برانڈ نیم کے ساتھ چھ معیاری اسکول،سات ٹیکنیکل آئی ٹی آئی،کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ اورپارامیڈیکل قائم کئے ہیں، اس کا منصوبہ ہے کہ ہرضلع میں کم از کم نمونہ کے طورپر اسلامی ماحول میں ایک معیاری اسکول قائم کرے، جس میں دینیات کی تعلیم بھی لازمی ہو،حضرت امیر شریعت مدظلہ کی اس جانب خاص توجہ ہے اورمسلسل اس کی فکر فرمارہے ہیں، ظاہر ہے کہ امارت شرعیہ کے اوربھی دوسرے اہم شعبے ہیں جن کی جانب ادارے کو توجہ دینی ہوتی ہے،البتہ ملت کے اہل حیثیت اوراصحاب نظرکے سامنے تعلیم کے میدان میں اس کے ذریعہ نمونہ فراہم کرتی ہے تاکہ اس جانب باصلاحیت افراد توجہ دے کر ملت کی تعلیمی ضرورت کی تکمیل کے لئے آگے آئیں۔ہرآبادی میں پرائمری درجہ کا اسکول تو بآسانی قائم کیاجاسکتاہے ،ضرورت اس بات کی ہے کہ پوری ہمت اورمنصوبہ بندی کے ساتھ اس جانب پہل کیاجائے، اس تحریک کے ذریعہ امیدہے کہ ہرضلع میں تعلیمی اداروں کے قیام کی کوشش کی جائے گی۔
اس تحریک کی تیسری قابل توجہ کڑی ہماری مادری زبان اردوکا تحفظ ہے،جو مسلسل اس ملک میں آزادی کے بعد سوتیلاپن کا شکار رہی ہے،تقسیم ملک کی بجلی نے اس کے خرمن کو بھی جھلسانے کا کام کیاہے،کون نہیں جانتاہے کہ اس زبان نے آزادی کے نغمے اورترانے گاکر سوئے ہوئے دلوں کو آزادی کی حرارت بخشی اوراس ملک عزیز کے جیالوں میں آزادی وطن کی روح پھونکی ہے، مگر افسوس کہ آج اسے صرف ایک مذہب سے جوڑ کر تعصب کی نگاہوں سے دیکھاجارہاہے اورریاستی سطح سے ملکی سطح تک اس کی حق تلفی کی جارہی ہے جو بالقصدقومی تعلیمی پالیسی میں سہ لسانی فارمولہ کی نذر کردی گئی،دوسری زبانوں کے تذکرہ کے ساتھ اس زبان کا تذکرہ نہیں کرنا دراصل اسے زندہ درگور کرنے کے برابر ہے،دوسری جانب ریاست بہار میں بھی نصاب سے اس کی لازمیت کو ختم کر دینا دراصل اس کی جڑکاٹ دینے کے مترادف ہے،ویسے بھی ہمارے بچے اس کی جانب کم توجہ دیتے تھے اب لازمیت کے ختم ہونے اوراختیاری درجے کی زبان ہونے کے بعد کتنی توجہ دیں گے وہ ظاہر ہے،دنیا کا اصول ہے کہ جو چیزیں ضروری ہوتی ہیں ضرورت تصور کی جاتی ہیں، ورنہ ناقابل توجہ بن کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں، آج ہمیں اپنی نسل کو یہ بتانا ہوگاکہ یہ فقط ایک زبان نہیں بلکہ اس ملک میں یہ ہمارے دین ومذہب کا حصہ ہے،ہم اسے جانے بغیر اپنا دین جان نہیں سکتے ہیں، اورنہ ہی اپنی تہذیب سمجھ سکتے ہیں، لہذا اس کے بول چال کے ساتھ اس کے لکھنے پڑھنے کوبھی اپنے گھروں میں رواج دینا ہمارا ملی فریضہ ہے،اس کے لئے ضروری ہے کہ گھروں میں اردو اخبارات لئے جائیں اوردینی کتابیں برائے مطالعہ رکھی جائیں،اردو میڈیم اسکول جواسی زبان کے عنوان پر قائم کئے گئے ہیں علاقہ کے بااثر حضرات اس کے اردو کردار کی جانب توجہ دیں،جن پرائیویٹ اسکولوں میں اس زبان کی تعلیم نہ ہو وہاں اپنے بچوں کے داخلے سے گریز کیاجائے،نیز سرکاری دفاتر میں اسی زبان میں درخواست دینے کی کوشش کی جائے۔
ریاست کے سرکاری محکموں میں اسی غرض سے باضابطہ اردو مترجمین کی بحالی کی گئی مگراردو میں درخواستیں نہیں آنے کی وجہ سے اس کا مصرف بدل دیاگیا، کم از کم اس کے تحفظ کے لئے ہم اپنے کرنے کے کام کریں توبہت حدتک اس کا فروغ ممکن ہے،انہیں فکروں کو لے کر امارت شرعیہ نے یہ تحریک چلانے کا فیصلہ کیا،ملت کے باشعورافراد سے توقع کی جاتی ہے کہ اس تحریک کے دست وبازو بن کران مقاصد کو زمین پر اتارنے میں اپنا مخلصانہ کردار پیش کریں گے۔
Comments are closed.