الف، اللہ اور انسان

جویریہ امانت(سیالکوٹ)
ریزیڈینٹ ایڈیٹربصیرت آن لائن (برائے پاکستان)
انسان بہت خوش فہم ہوتاہے اِسے لگتا ہے زندگی ایک ایسی تصویر ہے جس میں بس خوبصورت رنگ ہیں اور دکھ کا تو کہیں دور دور تک سایہ بھی نہیں ہوتا۔لیکن جب زندگی اصلیت دکھاتی ہے تو انسان بے موت مارا جاتا ہے اور یہ زندگی بے رنگ بے مول ہو جاتی ہے۔پھر ہم بس اس لیے خود کو زندوں میں شمار کرتے ہیں کہ سزا ختم ہو اور زندگی اپنا حساب کر دے۔ہم جب زندگی کو جینا شروع کرتے ہیں،اس رنگین اور خوبصورت دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے ہمارے سے زیادہ خوش قسمت کوئی ہے ہی نہیں یا جیسے کسی نیکی کا اجر مل گیا ہو۔اور ہم تو یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہماری زندگی اتنی پرسکون کیوں ہے کیا زندگی واقعی اتنی خوبصورت ہے؟اور ہم اس ایک زندگی میں کئیں فرحتیں مانگ لیتے ہیں،دل کرتا ہے اپنی خوشی میں پتنگ کی طرح دور آسمانوں میں اُڑ جائیں اور ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ اگر زندگی اتنی خوبصورت ہوتی ہے تو لوگ کیوں دکھ مناتے ہیں کیوں جینا چھوڑ دیتے ہیں؟لیکن پھر جب زندگی امتحان لیتی ہےجب قیامت ٹوٹ پڑتی ہےجب مان ٹوٹتے ہیں،لوگوں کے فریب سمجھ آتے ہیں جب سانسیں گن گن کے کسی بھاری بھرکم بوجھ کی طرح لگنے لگتی ہیں اور ہم بھکاریوں کی طرح زندگی سے خوش رہنے کی بھیک مانگنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں تب سمجھ آتی ہے کہ ہم سے زیادہ تو بدقسمت، بیوقوف، نادان کوئی ہے ہی نہیں۔وہ جن کے ساتھ کی ہم دعائیں مانگتے ہیں وہ اک پل میں بیگانے ہو جاتے ہیں۔تب ہم جینا چھوڑتے ہیں اورایک ایسی لاش بن جاتے ہیں جس کی سانسیں چلتی ہیں پر وہ دنیا چھوڑ چکی ہو،تب ایسے ہی لوگ ہمیں انجان کر دیتے ہیں بھول جاتے ہیں جیسے مردے کو،اور اپنے ہی قبر کھود کر اس میں تن تنہا دفنا کے چلے جاتے ہیں ہماری کوئی آواز بھی سننے سے وہ قاصر ہوتے ہیں،بالکل ایسے ہی ہمیں زندگی کے معنی سمجھانے والے بڑی بے رحمی سے ایک ایسی قبر میں اُتار آتے ہیں جہاں وہ واپس پلٹ کے نہیں آتے اور نہ انکو ہماری کوئی آہ کوئ چیخ و پکارسنائی دیتی ہے۔اور سنائی دے بھی جائے تو کیونکہ وہ ہمیں ایک نئے مرحلے میں ڈال چکے ہوتے ہیں خود کو وہ خدا سمجھ کے ہمارے لیے آزمائشیں اور سزائیں چن کے خود بھری ہو جاتے ہیں اورمُڑ کے بھی نہیں دیکھتے۔تحفے میں بس پھولوں کی بجائے سانسیں بخش جاتے ہیں لیکن قاتلوں میں شمار انکا بھی ہوتا ہے جو بن موت مار جاتے ہیں۔
اور ہم جو پتنگ کی طرح دور آسمانوں تک اُڑنے کے خواہاں ہوتےہیں ہمیں بھی سمجھ آجاتا ہے کہ پتنگ آسمان تک کبھی نہیں پہنچ پاتی وہ رستے میں ہی لُوٹ لی جاتی ہے، اور وہ جس کے سہارے ہم اُڑ رہے ہوتے ہیں جس پہ اعتماد کر کے زندگی کی ڈور جسے تھما آتے ہیں وہ ڈور چھوڑ دیتاہے اور پتنگ یعنی ہماری زندگی لُٹ جاتی ہے برباد ہو جاتی ہی اور وہ بس ڈور کو توڑ کر اپنا راستہ الگ کر لیتے ہیں۔اور آخر میں بس ہم ہوتے ہیں اور ہمارا رب ہوتا ہے وہ جو ہر حال میں انسان سے محبت کرتا ہے،جو دلوں کے حال خوب جانتا ہے اور وہی ہمارے حال کا محرم ہوتا ہے یہ دنیا تو ایک فریب ہے ایک ایسی فریب کاری جس میں ہم لوگوں سے اُمیدیں لگا لیتیں ہیں اور وہی لوگ ہمیں ڈس لیتے ہیں کسی کالے بچھو کی طرح جس کا زہر ہماری روح کو چیر دیتا ہے۔
میں اکثر سوچتی تھی کہ جب الله کریم کسی انسان پر اس کی سکت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو پھر اکثر ایسے لمحات ہماری زندگیوں میں کیوں آتے ہیں؟جب انسان تھک کر ٹوٹ جاتا ہے۔دل تکلیف اور اذیت سے بھر جاتا ہے۔آنکھیں امید کی بینائی سے محروم ہو جاتی ہیں زندگی کی تمام تر رنگینیاں ختم ہو جاتی ہیں اور انسان کو اپنا آپ کسی بوجھ جیسا لگنے لگتا ہے۔لیکن اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہےالله اپنے خاص بندوں کو چننے کے لیے ان پر آزمائش بھیجتا ہے۔وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کون اس کی محبت میں صبر کے آخری پیمانے تک جا پہنچتا ہے۔کون سخت اذیت اور تکلیف میں بھی اس کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھتا ہے۔کون اس کی چاہت کے لیے اپنی چاہت تک قربان کر دینے کا حوصلہ رکھتا ہے کہ آزمائش محبت ہی کا پیمانہ ہے۔اللہ کچھ بھی ادھورا نہیں چھوڑتا بہت بہترین صلہ عطا کرتا ہے،بے شک الله تکلیفوں،اذیتوں اور قربانیوں کے بدلے میں ایسا بہترین صلہ عطا فرماتا ہے کہ انسان ساری زندگی اس کے احسان کی شکر گزاری میں گُزار دیتا ہے۔ پھر جتنی بڑی قربانی اتنا ہی بہترین صلہ۔ کیونکہ الله اپنے اوپر کوئی احسان نہیں رکھتا۔ بلآخر کندن بننے کے لیے جلنا تو پڑتا ہے نا! انسان کچھ اور سوچ رہا ہوتا ہے، اس کے منصوبے اور ہوتے ہیں لیکن رب کی ترکیب اور ہوتی ہے۔انسان تو کبھی نہیں چاہتا کہ اسکے ساتھ حادثات ہوں اور اسکی زندگی دردناک لمحات سے گزرےلیکن یہ توخدا کے فیصلے ہیں۔انسان کی سوچ، ارادہ اور ترکیب کچھ اور کہتی ہے۔جان لو!! خدا کی ترکیب سب سےبہترین ہے،حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں”میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے خدا کو پہچانا”۔پھر آپ بھی فکر نہ کریں کبھی کبھار زندگی اندھیروں میں لے جاتی ہیں جہاں سانسیں بھی تنگ ہو جائیں لیکن آپ نے ہار نہیں ماننی اس رب پہ توکل رکھنا ہے اچھے وقت کا انتظار کرنا ہے جیسے بیج کو ایک پودا کھڑا کرنے کے لیے پہلے اندھیری وادیوں میں گمنام ہونا پڑھتا ہے اور پھر ایک دن وہ اپنا مقصد پا لیتا ہے زمین کا سینا چیر کر نایاب گلزار کی صورت میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے آپکو بھی یہ قید کاٹنا پڑھتی ہے لیکن ہمت اور رب پہ یقین کا دامن نہیں چھوڑنا ایک روشن صبح آپ کی منتظر ہے۔۔۔!
Comments are closed.