صبحِ جمہوریت

صدائے دل : حبیبہ علی ممبئی

دیر رات تک لہو روتے اخبار کے مطالعے نے میرے حواس پر افسردگی طاری کردی تھی، میں شدت سے صبح کی منتظر تھی؛ کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ یہ صبح میرے پیارے وطن کے کسانوں کے لیے ‘صبحِ بہار’ بن کر طلوع ہوگی؛ مگر افسوس۔۔۔ انتظارِ سحر میں جاگتی میری تھکی اور بوجھل آنکھیں کب بند ہوںٔیں مجھے کچھ پتا نہ چل سکا، خدا جانے کب سحر آںٔی اور ایک ٹھٹھرتے دن میں بدل گںٔی۔ نہ جانے وہ کونسا احساس تھا جس کے تحت اچانک میرے خوابیدہ جسم نے ایک جھٹکا سا محسوس کیا اور میری آنکھیں پوری طرح کھل گںٔیں۔ رب العالمین کی عظمت کا اعتراف اور اپنی کمزوری کا اقرار کرتے ہوںٔے میں نے موبائل کی تلاش میں نظریں کمرے میں دوڑائی اور یہ بے قراری کیوں نہ ہوتی کہ صبحِ نو طلوع ہوچکی تھی۔ مگر موبائل اسکرین کو آن کرتے ہی ایک پل کو میری سانس رک گںٔی سامنے نوٹیفیکیشن آرہی تھی ‘کسانوں کے ٹریکٹر مارچ پر لاٹھی چارج’ بے اختیار لبوں سے آہ نکلی۔ کیا یہی تھی وہ صبحِ نو جس کی آمد کے انتظار میں ہم نے طویل راتوں میں رتجگے کںٔے تھے؟ کیا اسی کے لیے ہم نے اپنے ایوانوں کو ویران اور میدانوں کو آباد کیا تھا؟ کیا اسی صبح کی خاطر وطن عزیز کے کسانوں نے اپنے لہو سے اس زمین کی سینچاںٔی کی تھی؟ کیا دستور کے قیام کے بعد لی جانے والی پرسکون سانس کا یہ صلہ ہمیں ملنا تھا؟ سوال بے شمار تھے اور جواب میں محض ایک طویل خاموشی جو میرے اندر تک پھیلتی جارہی تھی۔
آہ یہ جمہوری ملک۔۔ جسے آمریت کے شکنجے سے آزاد کرانے کے لیے ہم نے اپنی ہڈیوں کو گلا دیا تھا ہم نے تو سوچا بھی نہ تھا کہ ہمارے لہو کا رنگ اتنا پھیکا ہے کہ ایک صدی سے بھی کم عرصے میں اس پر پھر آمریت کی سیاہی غلبہ پا لے گی اور یہ سیاہی جمہوریت کے سات رنگوں سے مزین بھی ہوگی۔ شاید آج وہ پرچم بھی شرمسار ہوگا جو ہمارے شہداں کا فخر ہوا کرتا تھا اب کون خوشی خوشی اس ملک کے لیے اپنی جان دے گا جہاں جمہوریت حق کے نعروں اور حقوق کا مطالبہ کرتے شہریوں کے زخموں میں منہ چھپائے پھرتی ہو؟ اب کیوں نہ بڑی طاقتیں اس کی جانب رخ کریں گی کہ اس کے آسماں تلے اس کے پروانے بے گھر ہیں۔
آہ اے میرے چمن میں خونِ شہیداں سے معطر تیری مٹی پر قرباں یہ تیری باغبانی کن لوگوں کے ہاتھ آگںٔی کہ جنہوں نے تیری شاخوں پر کھلے گلوں سے رنگ نوچ لںٔے۔۔۔ آہ میرے عزیز از جاں یہ کیا ہوا تیرے بیٹوں کی غیرت کو جو چپ چاپ تیرا استحصال ہوتا دیکھ رہے ہیں۔۔۔ آہ میری آزادی کے ضامن یہ کیا ہوا تیرے بیٹیوں کی کوکھ کو کہ اب ان سے کوںٔی سرفروش پیدا نہیں ہوتا۔۔۔ اے میری سونا اگلتی ارضِ مادر ہماری لاپرواہیوں نے تیری آغوش میں سمٹے تجھ پر جان لٹانے والے کتنے ہی شہداء کو شرمندہ کردیا۔۔ اے میری ارضِ وطن شکوے بے شمار ہیں، آہیں ان گنت ہیں مگر کیا کیجیے کہ لبوں پر تالے ہیں اور یہ بندش ہم قبول کرچکے اے کاش کہ ہم اب بھی بیدار ہوجاںٔیں اے کاش کہ ہم تیری عظمت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے ہوجائیں کہ کسی کی پر ہوس نگاہیں تیرے دامن پر پڑنے کی جرأت نہ کرسکیں اے کاش ہم میں مردہ ہوچکا احساسِ ذمہ داری پھر کروٹ لے تاکہ تو ایک بار اور حقیقی مسرت کے رنگوں سے آراستہ ہوجاںٔے اے کاش کہ ہمارے پروں میں وہ قوتِ پرواز پھر عود کر آجاںٔے جو ستاروں کے بھی آگے جاسکتی تھی اے کاش کہ ہم ذلت سے ملے گندم کے خوشوں کو جلانے کی ہمت خود میں پیدا کرسکیں۔۔۔۔۔ آہ میری جاں تیری طرح میں بھی منتظر ہوں تیری طرح میں بھی دعا گو ہوں تیری طرح میں بھی کوشاں ہوں اس صبح کی جو حقیقتاً صبحِ نو ہوگی۔ مالک سکون دے تیری اور میری جاگتی بوجھل آنکھوں کو اس سے پہلے کہ مایوسی کی ہیبت ناک نیند تجھے اور مجھے اپنی لپیٹ میں لے لے۔

Comments are closed.