دیش بھگتی کی نئی منطق

مولانا رضوان احمد ندوی
معاون مدیر’’ہفت روزہ نقیب‘‘ امارت شرعیہ ،پٹنہ
اس وقت ملک کافی مشکل دور سے گذر رہا ہے ، عام تصور یہی ہے کہ اس کی جمہوری تاریخ میں اس سے خراب دور کبھی نہیں آیا ، جہاں اپنے ہی ملک کے باشندوں کو مرکزی حکومت قانون سازی کے ذریعہ ذلیل و رسوا کر رہی ہے ، اگر ملک کے عوام ان قوانین میں ترمیم و اصلاح پر توجہ دلاتے ہیں تو ان پر بغاوت اور دیش دروہی کا لیبل لگا کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتے ہیں ، بی جے پی اور اس کی لگام اپنے ہاتھوں میں رکھنے والی فسطائی تنظیم آر ایس ایس اپنے غیر منطقی نظریہ کے خلاف کسی بھی اقدام کو نا روا نہیں سمجھتی، اس طرح بی جے پی نے اس ملک کی سیاست کو پستی کے آخری دہانے پرپہونچا دیا ہے ، جس کی وجہ سے ملک کی شبیہ اور اس کا وقار و اعتبار پوری دنیا میں مجروح ہو تا نظر آرہا ہے، بی جے پی اقتدار میں آنے سے پہلے بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ؛ لیکن اس کے ۷؍ سالہ دور اقتدار میں اس کے سارے دعوے کھوکھلے ثابت ہوئے ، نہ اچھے دن آئے اور نہ کسانوں کو ان کا حق ملا، البتہ یہ ضرور ہو ا کہ ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہونچ گئی اور کسان سڑکوں پر اتر آئے ، ابھی ۵۵؍ دنوں سے ملک کے کسان نئے زرعی قانون کے خلاف ہریانہ اور دہلی کی شاہراہوں پرپر امن مظاہرے کر رہے ہیں ، اور بی جے پی حکومت اور اس کے وزراء نہ تو سنجیدگی سے ان کے مسائل کو حل کرنے پر غور کر رہے ہیں اور نہ ہی قانون کو واپس لینے پر رضامندی ظاہر کر رہے ہیں ، ہاں یہ ضرور ہو رہا ہے کہ کسان تنظیموں کو ہراساں کرنے اور تحریک کو کمزور کرنے کے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں ، جو بی جے پی کا پرانا طریقہ رہا ہے ، سب جانتے ہیں کہ ایک سال قبل بی جے پی نے اکثریت کے زور پر سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر جیسے سیاہ قوانین پارلیامنٹ سے پاس کرا لیے ، ان کالے قوانین سے ملک بھر میں بے چینی پیدا ہوئی، ملک کی سا لمیت اور آئین و دستور کے تحفظ کے لیے بہادر خواتین تک میدان عمل میں آگئیں ، دہلی کے شاہین باغ میں مہینوں احتجاجی مظاہرے پر بیٹھی رہیں ، ایسا منظر چشم فلک نے شاید ہی کہیں دیکھا ہو گا جو شاہین باغ میں نظر آرہا تھا، ان بہادر خواتین نے اپنی بے مثال قربانیوں سے ایک نئی تاریخ رقم کی ، پھر آہستہ آہستہ ملک کا ہر بڑا چھوٹا شہر؛ بلکہ چوک و چوراہے بے شمار شاہین باغوں میں تبدیل ہو گئے ، ابھی یہ سارے دھرنے جاری ہی تھے کہ اس کو انجام تک پہونچانے سے پہلے ملک کورونا وائرس کی لپیٹ میں آگیا، ہر طرف افراتفری مچ گئی ، وبائی امراض کے پھیلنے کے خدشے سے ان دھرنوں کو وقتی طور پر روک دیا گیا ، ادھر بی جے پی حکومت موقع کی تلاش میں تھی ، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان مظاہرین کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا اور بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کر دیا گیا۔یوپی کی بی جے پی سرکارنے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے تحریک کاروں کی تصویر چوک چوراہوں پر آویزاں کرا دی ، ان کی جائیداد اور اثاثوں کو ضبط کر لیا، جب فسطائی حد سے آگے بڑھ گئے، تب عدالت نے سخت رخ اختیار کیا اور حکومت کی سر زنش کی اور اس کو انسانی حقوق کی آزادی پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ، اس کے با جو د حکومت اپنے فسطائی نظریہ سے پیچھے نہ ہٹی ۔ دیش بھگتی کے تعلق سے بی جے پی اپنی الگ منطق رکھتی ہے ، اس کے یہاں دیش بھگتی کا مطلب ہے کہ اس کے نظریات کو تسلیم کیا جائے ، ان کے ہر کام کی تحسین کی جائے اور ہر حکم کے آگے سر تسلیم خم کر لیا جائے ، نہ زبان کو شکایت کی اجازت ہو نہ احتجاج کی۔اگر شکایت کی آواز نکلے تو بزور بازو اسے دبا دیا جائے، اور شکایت کرنے والے کو سر بازار رسوا کیا جائے۔ حالانکہ اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے پر امن مظاہرہ کرنا، اپنے حق کی آواز اٹھانا ہمارا جمہوری حق ہے، ہمارے ملک میں ہر نوع کے بے شمار مظاہرے ہوتے رہے ہیں ، لیکن کبھی تحریک کاروں کو اس طرح ذلیل و خوارنہیں کیا گیا جس طرح بی جے پی کے دور حکومت میں دیکھنے میں آرہا ہے ، فرقہ پرستی کی کوکھ سے جنم لینے والی آر ایس ایس اپنے خفیہ ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے لیے کسی حد تک جانے کے لیے تیار ہے ، حالیہ دنوں میں یوپی ، مدھیہ پردیش اور اب کرناٹک میںلو جہاد کے نام سے نیا قانون بنایا گیا ہے ، اس قانون کی آڑ میں بے قصور نوجوانوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے ، ہفتوں گذر جاتے ہیں ، ان کے خلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہوتی ، آخر میں پولیس اور انتظامیہ فرضی کاغذی خانہ پری کر کے مقدمہ کی کارروائی شروع کر دیتی ہے ، جس میںایک مخصوص طبقہ کے نوجوانوں کو خاص کر نشانہ بناتی ہے، آج بہت سے معصوم اور بے گناہ لوگ نا کردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہیں ، کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ہمارا آئین انفرادی آزادی کی حفاظت کرتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کا طریقۂ کار ہندوستان کی ثقافت پر حملہ ہے ، اس مسئلہ پر بھی الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے حکومت کی سرزنش کی اور کہا کہ ہر شہری کی رازدارانہ زندگی اور اس کی آزادی کے بنیاد ی حق میں کسی عہدے دار یا قانون کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔مگر کیا کہئے عدالتوں کے ریمارک کو بھی بالائے طاق رکھا جا رہا ہے، تاہم بھاجپا کی نفرت بھری سیاست کو عوام سمجھنے لگی ہے ، ہمیں اس بات کا بھی اندازہ ہو نا چاہئے کہ وطن عزیز میں برادران وطن کی بہت بڑی تعداد غیر متعصب اور حقیقت پسند ہے اور ہمارے بارے میں حسن ظن رکھتی ہے ، ان حالات میں ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان سے قربت پیدا کی جائے اور ملک کے بگڑتے ہوئے حالات کو اعتدال اور توازن میں لانے کی جد و جہد کی جائے ، ایسا کرنا خود ملک کے مفاد میں بہتر ہوگا اور ہمارے لیے بھی۔ (بشکریہ نقیب)
Comments are closed.