بطن مادر کے بچوں کے حقوق۔ قانون اسلامی کا امتیاز

نثاراحمد حصیر القاسمی
[email protected]

اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی میںپہلی بار 1989ء میں یعنی آج سے تقریبا 31 سال قبل بچوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا اور اسے قانونی حیثیت دے کر رکن ممالک کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی گئی، اس اعلامیہ میں یہ بھی طے کیا گیا کہ کس عمر تک انسان بچہ کہلائے گا۔ اس کے رو سے انسان 18 سال تک بچہ کہلائے گا اور اسے بچوں کے حقوق حاصل ہوںگے، مگر اس میں یہ طے نہیں کیاگیا کہ اس کہ ابتداء کب سے ہوگی، متعارف یہی رہا ہے کہ اس کی ابتداء ولادت کے وقت سے ہوتی ہے جبکہ وہ اس دنیا میں آتا اور ماں کے پیٹ سے نکل کر اور ماں سے جدا ہو کر اس روئے زمین پراپنا قدم رکھتاہے، اقوام متحدہ کا یہ ریزولیشن ولادت سے قبل حالت ’’جنین‘‘کے زمانے کے بارے میںخاموش ہے، خواہ بطن مادر میں پرورش پانے والا بچہ آٹھ یا نو ماہ کا ہی کیوں نہ ہوگیا ہے۔
مذکورہ ریزولیشن کے پیراگراف نمبر 6 میں لکھا ہے کہ رکن ممالک اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کے اندر بچوں کا بنیادی حق ہے اور رکن ممالک بچوں کے بقاء اور ان کی دیکھ بھال ، نگرانی ، حفاظت وترقی، پرورش ونگہداشت کی پوری کوشش کریںگے، مگر اس میں اس بات کی صراحت نہیں کی گئی ہے کہ یہ بچے ان حقوق کے مستحق کب ہوںگے اور کس وقت سے ان کے ان حقوق کی پاسداری حکومتوں کی ذمہ داری ہوگی۔ قانون کے اس نقص اور کمی کا اقوام متحدہ اور یونیسیف کب تدارک وازالہ کرتاہے وہ تو وقت ہی بتائے گا، تاہم اس کی ذمہ داری ہے کہ جب اس نے بچوں کے حقوق کو تسلیم کیا اور اسکی انتہاء مدت 18 سال مقرر کی ہے تو اس کی ابتداء مدت بھی متعین کرے اور ولادت سے پہلے ان کے حقوق کو قانونی شکل دے کر ان معصوم جانوں کی حفاظت کی ذمہ داری نبھائے۔
اس سے ہٹ کر جب ہم اسلام کے بنائے ہوئے قانون اور فقہ اسلامی پر نگاہ ڈالتے ہیں توہمیں اندازہ ہوتاہے کہ اس نے ولادت سے پہلے ہی انہیں جو حقوق حاصل ہوتے ہیں اس کا پہلے ہی اعلان کررکھا ہے، اور اس کی انتہاء عمر بھی بلوغ ورشد متعین کردی ہے۔
اسلام نے بتایا ہے کہ جنین کی تخلیق جب مکمل ہوجائے اور اس کے ابتدائی خدو خال بن جائیں تو اسے مکمل انسان تصور کیا جائے گا، اگرچہ وہ ابھی اپنے ماں کے پیٹ میں اور ان سے جڑا ہوا ہے، اس لئے اسے حق حاصل ہے کہ اس کی مکمل نگہداشت کی جائے، حفاظت کی جائے ، اس کی زندگی کو خطرات سے دوچار نہ کیا جائے اور کسی بھی صورت میں اور کسی بھی طور پر نہ اسے تکلیف پہنچائی جائے اور نہ ہی اس کی سلامتی وزندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے اسی وجہ سے اسے گرانا یاجان بوجھ کر گرانے کے اسباب اختیار کرنا حرام ہوگا اور گرانے کی صورت میں اس پر دیت واجب ہوگی، خواہ گرانے والے ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔
مختصر الخلیل میں ہے کہ جنین اگر ’’علقہ‘‘ یعنی لوتھڑا ہو تو اس کے اسقاط کی دیت ماں کے دیت کا دسواں حصہ ہوگا۔
اسی طرح ’’الفواکہ الدانی ‘‘ کی عبارت ہے کہ بطن مادر سے بچے کو گرانے کا جوسبب بنے گا اوروہ بچہ آواز نکالنے اور روئے بغیر بھی باہر آیا ہو توگرانے والے پر اس بچے کے وارثین کے لئے ماں کی دیت کا دسواں حصہ واجب ہوگا۔
فقہ مالکی کے اندر تو آغاز حمل کے وقت سے ہی اس کا گرانا حرام ہے، البتہ جمہور فقہاء اس کی حرمت کے قائل اس وقت سے ہیں جبکہ اس پر چالیس دن گذر گئے ہوں، البتہ اس سے پہلے پہلے گرانے کی گنجائش ہے۔ جمہورکا استدلال اس حدیث سے ہے جس میں رسول اللہ صلعم نے ارشاد فرمایاہے کہ:
جب قرار پانے والے نطفہ پر 42 راتیں گذر جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں جو اس کی شکل وصورت بناتے ، اس کے آنکھ ، کان چمڑے ، گوشت ، اور ہڈیاں بناتے ہیںاور عرض کرتے ہیں،اے پروردگار ، یہ نر ہوگا یا مادہ ، اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں فیصلہ فرماتے ہیں اور فرشتے اسے لکھ لیتے ہیںپھر فرشتے عرض کرتے ہیں ، اے پروردگا ، اس کی عمر اور مدت حیات کیا ہوگی؟ تو پروردگار جو چاہتے ہیں، فرما دیتے ہیں اورفرشتے اسے لکھ دیتے ہیں، پھر فرشتے عرض کرتے ہیں، اے پروردگار ، اس کا رزق؟ تو پروردگارجو چاہتے ہیں فیصلہ فرماتے ہیں، اور فرشتے اسے لکھ دیتے ہیں، پھر فرشتے اپنے ہاتھ میں لئے اس صحیفے کو نکل آتے ہیں، اور اس میں جو کچھ لکھا جا چکا ہوتاہے، اس میں نہ کچھ کمی ہوتی نہ زیادتی ۔ (صحیح مسلم)
ماں کے پیٹ میںپرورش پانے والے بچے پر جب چار ماہ کا عرصہ گذر جائے اور اسکی تخلیق مکمل ہوجائے اور اس میں روح پھونک دی جائے تو اس کے بعد اسقاط حمل تو قطعی حرام اور سخت ترین گناہ ہے، جس کی حرمت پرتمام علماء اسلام اور فقہاء عظام کا اتفاق ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انسانی تخلیق کے مختلف مراحل ہیں، سب سے پہلے وہ نطفہ ہوتا ہے ، اس کے چالیس دن بعد علقہ یعنی خون کا لوتھڑا بنتا ہے، اس کے چالیس دن بعد مضغہ یعنی گوشت کا لوتھڑا بنتا ہے، اور ایک سو بیس دن بعد یعنی چار ماہ گذرنے کے بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے، پھر ہڈیاں بنتی ہے، پھر ہڈیوں پرگوشت پہنایا جاتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
وہ وہی ہے جس نے تمہیںمٹی سے پھر نطفہ سے پھر خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ، پھر تمہیں بچہ کی صورت میں نکالتاہے، پھرتمہیںبڑھاتاہے کہ تم اپنی پوری قوت کوپہنچ جائو۔ پھر بوڑھے ہوجائو، تم میں سے بعض اس سے پہلے ہی فوت ہوجاتے ہیں وہ تمہیںچھوڑ دیتا ہے، تاکہ تم مدت معین تک پہنچ جائو، اور تاکہ تم سوچ سمجھ لو (المومن:67)
اسی مفہوم کی دوسری آیت سورہ حج آیت نمبر پانچ میںہے ، ان مراحل کا تذکرہ حدیث صحیح کے اندر بھی ہے۔ (دیکھیں بخاری کتاب الانبیاء وکتاب القدر، مسلم کتاب القدر باب کیفیۃ الخلق الآدمی)
اسی لئے چارہ ماہ سے پہلے اگرچہ تخلیق تو ہوتی ہے مگر وہ نامکمل ہوتی اور اس میں روح نہیں ہوتی ہے، اس لئے اسے انسان نہیں کہا جاسکتا ہے، اگرچہ مستقبل کے اعتبار سے وہ ضرور انسان ہے، اسے مجبوری میں گرانے کی اجازت ہے جیسے ماں کی جان کو خطرہ ہو، یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو، یا حمل سے عورت کا دودھ بند ہونے کا خطرہ ہو، جس سے بچے کو نقصان ہو یا زنا سے حمل ہوگیا ہو اور اس سے شدید فتنہ کا خطرہ ہو۔
اس طرح کے اعذار کی بنیاد پر روح پڑنے سے پہلے پہلے (یعنی چار ماہ سے پہلے پہلے) حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس کی عام اجازت ہوگی، بلکہ چونکہ اس کے رہتے ہوئے بڑے نقصان کا خطرہ ہے اور بڑے خطرے وضرر کے ازالے کیلئے چھوٹے ضرر کو برداشت کیا جاسکتاہے اس لئے اس کی اجازت دی گئی ہے، چار ماہ کے بعد حمل گرانا قتل انسانی کے مترادف ہے، اس لئے روح پھونکے جانے کے بعد بالاتفاق کسی بھی صورت میں اسے گرانے کی اجازت نہیں ۔ (فتاویٰ قاضی خان 5/356)
پیدائش سے پہلے کے ان بچوں کے لئے حقوق مالیہ بھی ہے اور سماجی اہلیت بھی، یعنی چیزیں ان کے لئے واجب تو ہوتی ہیں، ان پر کوئی چیز واجھ نہیں ہوتی،تلویح میں شیخ سعد الدین علیہ الرحمہ نے ذکر کیا ہے کہ جنین ماں سے جدا ہونے سے قبل اس اعتبار سے ماں کا حصہ ہے کہ وہ ان کی نقل وحرکت کا تابع ہے، مگر زندگی کے اعتبار سے مستقل بالذات ہے، جو جدا ہونے کیلئے تیار بیٹھا ہے، اسی لئے اس کے لئے حقوق لازم ہوتے ہیں، جیسے وراثت ‘وصیت اور نسب ، البتہ اس پر کچھ واجب نہیں ہوتا ، اگر اس کے ولی نے اس کے لئے کچھ خریدا تو اس کی قیمت اس پر واجب نہیں ہوگی، ماں سے جدا ہونے کے بعد وہ مستقل بالذات ہوجاتا ہے، اب اس کے لئے بھی حقوق واجب ہوتے اور اس پر بھی ، اسی لئے دیگر وارثین کی طرح بطن مادر میں پرورش پانے والا بچہ بھی وارث ہوتاہے، اور اس کے پیدا ہونے پر میراث کی تقسیم کو موقوف رکھنا ضروری ہے، تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ لڑکا ہے یا لڑکی ، اور اس اعتبار سے اس کا حصہ کتنا ہے۔
اسلام نے جنین کو فیملی کا ایک رکن قراردیا ہے اور فیملی کے دیگر ارکان کی طرح اس کے حقوق بھی متعین کئے ہیں جس کی پاسداری فیملی کے سرپرست پر ضروری ہے۔ آج ترقی یافتہ ٹکنالوجی کے اس دور میں ماں باپ اور دوسرے ان جنین کو دیکھتے اس کے خدو خال کو پہنچانتے دل کی دھڑکنوں کو سنتے اس کی حرکتوں کا مشاہدہ کرتے بلکہ ان کی تصویریں بھی لے کر اپنے پاس محفوط کرلیتے اور اس سے انس محسوس کرتے اور چاہت ولگائو کا اظہار کرتے ہیںجب کہ وہ ابھی ماں کے پیٹ ہی میں ہوتاہے۔
اسلام نے ان کے حقوق کی رعایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ بچہ روح پھونکے جانے یعنی چار ماہ کے بعد اگر ساقط ہو یا ساقط کرایا جائے تو اسے غسل دیا جائے ، اسے کفن پہنا کر اور نمازجنازہ کے بعد بڑے مسلمانوں کی طرح اس کی تدفین کی جائے۔
اسلامی قانون کا امتیاز ہے کہ اس جنین کے خاطر اس نے دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت دونوں کو رمضان میں روزہ توڑنے اور روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے تاکہ دودھ پینے والے بچے یا پیٹ میں پرورش پارہے بچے کو کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچے، فقہ کی کتابوں میںمذکور ہے کہ اگر یہ بات یقینی طورپر معلوم ہو یا ظن غالب ہو کہ حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت اگر روزہ رکھے گی تو اس کا نقصان بچے کو یا جنین کو ہوگا، تو ان دونوں کے لئے رمضان میں روزہ نہ رکھنا جائز ہے اوریہ جواز اس وقت ہے جب کہ معمولی ضرر کا خطرہ ہو اور اگر ضرر شدید کا خطرہ ہو تو روزہ توڑنا (نہ رکھنا)واجب ہے ‘یعنی روزہ رکھنے کیوجہ سے اگر بچے کی ہلاکت کا یا شدید نقصان کا خطرہ ہو تو روزہ رکھنا حرام اورتوڑنا واجب ہے ، اس کا مطلب ہے کہ بچہ خواہ دودھ پینے والا ہو یا ابھی حمل کے اندر ہو ہر ایک کی نگہداشت وحفاظت یکساں طورپرضروری ہے، اس حق میں دونوں برابر ہیں۔ ان میں کوئی امتیاز نہیں۔ رمضان کا روزہ فرض ہے، مگر پیٹ کے بچہ کے حق کے خاطر اور اسکے مفاد دو مصلحت میں اس فریضے کو ترک کردیا گیا ہے۔
جب اسلام کی نظر میں جنین اور دودھ پیتے بچے کو ضرر سے بچانے کے لئے ایک نہایت اہم فریضے کو ترک وملتوی کرنا واجب ہے، اور ان معصوم جانوں کی حفاظت اس قدر اہمیت کی حامل ہے تو اندازہ کیا جاسکتاہے کہ اسے ضائع کرنا کتنا بڑا گناہ اور جرم عظیم ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسلام کے بتائے ہوئے راستے پر چلیںاور حاملہ خواتین ایسی حرکتوں اور باتوں سے گریز کریں جس سے بچے کو نقصان پہنچ سکتاہو جیسے تمباکووسگریٹ نوشی ، شراب نوشی، منشیات کا استعمال ، کود پھاند، اور کوئی ایسی حرکت جس سے بچے کے ضائع ہونے یا نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، کس قدر افسوس کی بات ہے کہ روشن خیالی کے زعم اور جوانی کی برقراری کے مفروضے کے تحت آج کثرت سے بچے ضائع کئے جاتے اور طرح طرح سے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے جبکہ اسلام کی نگاہ میں یہ جرم ہے اور اس پر ہماری سخت گرفت ہوگی۔
٭٭٭

Comments are closed.