کسان تحریک کی آڑمیں تشدد

بابری مسجد کی شہادت کے بعد پھرایک بار دنیا کے سامنے ہندستان کی شبیہ داغدار
عاقل حسین،مدھوبنی(بہار)
موبائل۔9709180100
26 جنوری 1950 ؍کو جب آزاد ہندوستان میں ملک کا آئین نافذ ہوا تھا اس وقت ملک کے عوام نے کبھی سوچا نہیں ہوگا کہ ایک دن آزاد ہندوستان کو خوراک فراہم کرنے والے کسان انصاف کے لئے تحریک کی راہ اپنائیںگے اور اس تحریک کی آر میں سماج دشمن عناصر کسانوں کی ٹریکٹر پریڈ میں شامل ہوں گے اور یوم جمہوریہ کے موقع پر ملک کے تاریخی لال قلعے پر پہنچ کر ترنگا کی جگہ کسی تنظیم کا جھنڈا لگاکرہندوستان کو پوری دنیا میں داغدار کریںگے۔ اسی طرح 6؍ دسمبر 1992 ؍کو جب ایک تنظیم کے ذریعہ ملک کی وراثت بابری مسجد کو منہدم کیا گیا تو پوری دنیا کے سامنے ملک داغدار ہوا تھا۔ اسی طرح ایک مرتبہ پھر آج پوری دنیا کے سامنے جمہوری ملک داغدار ہوا ہے۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار یوم جمہوریہ کے موقع پر ملک کی دارالحکومت دہلی میں تشدد ہوا جس کے ذمہ دار ملک کے بیشتر افراد کسانوں کو ٹھہرارہے ہیں۔ ان لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ جن کسانوں نے ملک کی آزادی میں اہم کردار ادا کیا اور ملک کی آزادی کی جدوجہد سے لے کر آج تک ملک کے عوام کو کبھی خوراک کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا وہ کسان کس طرح پرتشدد ہوسکتے ہیں؟ یوم جمہوریہ کے موقع پر کسانوں کے ٹریکٹر پریڈ کے دوران جس طرح سے تشدد ہوا ہے وہ کہیں نہ کسی منصوبہ بند سازش کا نتیجہ ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کسانوںکو ٹریکٹر پریڈ کے راستہ کے بارے میں کیوں تذبذب میں رکھا گیا۔ اسی طرح کا تذبذب پولس افسران میں بھی دیکھا گیا۔ انہیں بھی کارروائی کے حوالے سے کسی قسم کی ہدایت موصول نہیں تھی۔ اگر پولیس افسروں کو حکومت کے ذریعہ ہدایت دی گئی ہوتی تو شرارتی عناصر جس طرح سے تاریخی لال قلعے پر ترنگا کے بجائے کسی تنظیم کا جھنڈا لگانے میں کامیاب نہیں ہوپاتے اور پولس بھی تماشائی بنی نہیں رہتی ہے۔ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی ملک کے پردھان سیوک کی جانب سے اس دن مشتعل کسانوں سے امن وامان بحال رکھنے کے حوالے سے کسی بھی طرح کا بیان سامنے نہیں آنا کہیں نہ کہیں سوال کھڑا کرتا ہے۔ ویسے حکومت اپنے منصوبے میں تقریبا کامیاب ہوگئی۔ حکومت کی چاہ ہی رہی تھی کہ تحریک میں کسی قسم کا تشدد ہو اور تحریک کمزور ہوجائے۔ تشدد میں ملوث سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کی آڑ میں حکومت اور پولیس کے ذریعہ گاندھی وادی طریقے سے تحریک کرنے والے کسانوں کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ گاندھی وادی طریقے سے تحریک کرنے والے کسانوں پر کارروائی کہیں نہ کہیں جمہوریت میں ملے حقوق واختیارات پر حملہ ہے۔ ملک کے بیشتر افراد لگاتار کسانوں کو ہی تشدد کے ذمہ دار سمجھ رہے ہیں لیکن انہیں وہ وقت یاد نہیں جب 1962؍ کی ہندوستان چین جنگ کی وجہ سے یہ ملک معاشی طور پر کمزور ہوچکا تھا۔ 1964 میں جب لال بہادر شاستری ملک کے وزیر اعظم بنے تو ملک میں خوراک کا بحران تھا اور ملک کو بڑے چیلنجز کا سامنا تھا۔ سن 1965 میں جب مانسون کمزور رہا اور قحط کی نوبت آگئی اسی درمیان 5؍ اگست 1965؍ کو 30؍ ہزار کے قریب پاکستانی فوجی ایل او سی عبور کرکے کشمیر میں داخل ہوئے۔ پھر اکتوبر 1965؍ میں دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک اجلاس کے دوران شاستری جی نے پہلی بار ‘’جئے جوان جئے کسان‘ کا نعرہ دیا۔ جس سے ایک طرف فوجی اور دوسری طرف ملک کے کسانوں کا حوصلہ بڑھ گیا۔ جہاں بھارتی فوج نے بھرپور جواب دیااور 6 ؍ستمبر 1965 ؍کو ہندوستانی فوج نے لاہور تک قبضہ کرتے ہوئے پاکستان کے 90؍ٹینک تباہ کردیئے۔ یہ وہ دور تھا جب ہم امریکی PL-480؍ اسکیم کے تحت حاصل کردہ لال گندم کھانے کے پابند تھے۔ اسی دوران امریکی صدر لنڈن جانسن نے شاستری جی کو دھمکی دی تھی کہ اگر جنگ بند نہ ہوئی تو گندم کی برآمدات بند ہوجائیں گی۔ شاستری جی نے کہا: گندم دینا بند کردیجئے‘۔ اتنا ہی نہیں‘ انہوںنے امریکہ سے گندم لینے سے بھی صاف انکار کردیا کیونکہ ’جئے جوان جئے کسان‘ کے نعروں کے بعد بلند حوصلوں اور کافی محنت کے ساتھ ملک کے کسانوں نے ملک میں خوب خوراک پیدا کی۔ جس کی وجہ سے ملک اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے میں خود کفیل ہوگیا۔ لیکن جنوری 1966؍ میں ہندوستان – پاکستان روسی ثالثی کے تحت دونوں ممالک کی مشترکہ رضامندی پر دستخط کرنے کے بعد ہندوستان نے زیر قبضہ علاقے کو واپس کردیا لیکن آج ملک کی حالت یہ ہے کہ چین ہماری سرزمین پر مستقل قبضہ کر رہا ہے۔ تو وہیں آئے دن پاکستان بھی کچھ نہ کچھ حرکتیں انجام دیتا ہے۔ لیکن ہماری حکومت اپنے ملک کے کسانوں کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان پر آنسو گیس اور لاٹھی چلوا رہی ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی حکومت تک کسانوں کی آواز شاید نہیں پہنچ پارہی ہے ، یا یہ حکومت گونگے اور بہروں کی حکومت بن چکی ہے۔ ہندوستان کی 135؍ کروڑ آبادی کے دلوں پر راج کرنے والی مودی حکومت آج کسانوں کے پیٹ میں خنجر بھونکنے میں لگی ہے۔ دھرتی ماں کی گود سے اپنی محنت پسینہ بہاکر اناج اُگاکر ملک کے عوام کا پیٹ بھرنے کام کرنے والے کسان آج مودی سرکار کی دہائی دے رہے ہیں۔ اگر حکومت کو قانون ہی لانا تھا تو پہلے کسانوں سے صلاح یا اشتہار کے ذریعہ معلومات دیتی تو شاید آج یہ نوبت نہیں آتی اور ملک کے کسان بھی اس تحریک کا راستہ نہیں اختیار کرتے۔ حکومت کو کیا مجبوری ہے کہ وہ جبراً زرعی قانون نافذ کرنا چاہتی ہے؟ جس زرعی قانون مرکزی مودی حکومت کسانوں کے مفاد میں بتارہی ہے اگر وہ کسانوں کے مفاد میں ہوتا تو کسان مسلسل احتجاج کیوں کرتے؟ کسان شروع سے ہی زرعی قانون کی مخالفت کر رہے ہیں اور 2؍ماہ سے سخت سردی میں ملک کی دارالحکومت دہلی میں زرعی قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ وزیر زراعت کسانوں سے بات تو ضرور کر رہے ہیں لیکن وہ اس کا راستہ تلاش کرنے میں ناکام ہیں۔ اگر مودی حکومت اور وزیر زراعت ملک کے کسانوں کے مطالبات پر سنجیدہ اور فکرمند ہوتے تو یوم جمہوریہ کے دن جس طرح پوری دنیا کے سامنے ملک داغدار ہوا ہے، وہ نہیں ہوتا۔ مرکزی حکومت اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو کسانوں کے درد کو سمجھنا چاہئے کیوںکہ حب الوطنی کی مثال آج کے وقت میں کوئی نہیں ہے۔
Comments are closed.