ٹریفک نظام کی خامیاں— اسباب و تدارک

محمد انیس کشمیری

متعلم دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ

اگر آپ کسی معاشرے میں یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہاں کے لوگ کس قدر انسانیت کی اعلی صفات سے متصف اور کس درجہ مہذب ہیں تو وہاں یہ چیز دیکھیں کہ وہ معاشرتی زندگی پر مبنی فلاحی قوانین کے کتنے پابند ہیں۔ پھر وہ قوانین ٹریفک سے متعلق ہوں یا کوئی اور ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹریفک قوانین کی پابندی سے پورے معاشرے کا فائدہ ہے ۔ اس لیے کسی بھی معاشرے میں ٹریفک قوانین اس لیے بنائے جاتے ہیں تاکہ تمام لوگوں کو ضرورِ ظلم سے بچایا جا سکے ۔ اس لیے ٹریفک قوانین کی پابندی ہر شہری کی ذمہ داری ہے ۔

بلا شبہ انسان کی زندگی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل نعمت و دولت ہے اور ہر انسان کو اپنی جان پیاری ہوتی ہے۔ ٹریفک قوانین کی پابندی سے اپنی قیمتی جان بھی بچ سکتی ہے اور دوسروں کی بھی۔  اور ایک انسان کی جان بچانا پوری انسانیت بچانے کے مترادف ہے ۔

ہمارے معاشرے میں جن چند معاملات کی وجہ سے پورا معاشرہ شدید مشکلات اور پریشانیوں سے دوچار ہوتا ہے، ان میں ایک اہم ترین معاملہ یہی ٹریفک کا درہم برہم طرز عمل ہے ۔ اور یہ بد نظمی اس وقت پوری قوم کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔

اسلام ایک دینِ کامل ہونے کی حیثیت سے جہاں زندگی کے تمام معاملات کے متعلق رہنمائی کرتا ہے، وہیں گذرگاہوں اور سڑکوں پر نقل و حمل اور آمد و رفت کے متعلق مفصل احکام و رہنمائی بھی دیتا ہے ۔ چوں کہ ٹریفک قوانین معاشرے کے جائز انتظامی قوانین کا حصہ ہیں جو عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی ہیں۔ ایسے قوانین میں رعایا کو شریعت نے تاکید کے ساتھ پابندی کا حکم دیا ہے۔ چناں چہ جناب نبی اکرم ﷺ کی چند احادیث جن سے راستوں کے متعلق رہنمائی ملتی ہے ؛ کا مختصر خاکہ پیش خدمت ہے۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’ پوری روئے زمین میرے لیے مسجد ہے، سوائے سات جگہوں کے ، ان میں سے ایک گذرنے کا راستہ ہے ” (جامع ترمذی)

مزید فرمایا : 

’’ خبر دار! راستوں (کے درمیان) میں بیٹھنے سے بچو ” ، اور یہ بھی فرمایا : ’’ راستوں میں مت بیٹھو ، اگر راستوں میں بیٹھنا پڑے تو پھر تم راستوں کا حق بھی ادا کرو ” ۔ عرض کیا گیا : راستوں کا حق کیا ہے ؟ فرمایا : ’’ گذرنے والوں کو تکلیف نہ ہو” (متفق علیه)

آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’ایمان کا ایک شعبہ راستے سے تکلیف دہ چیزوں کو ہٹانا ہے” (مسند أحمد) ۔

احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ راستوں کا غلط استعمال یقینا اخلاقی و قانونی جرم ہی نہیں بلکہ اسلامی تعلیمات کی رو سے گناہ بھی ہے ۔ 

افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں راستوں کا بہت زیادہ غلط استعمال ہو رہا ہے ۔ اس وجہ سے پورا معاشرہ بے شمار مشکلات اور بہت نقصانات سے دوچار ہے ۔ آئے دن ٹریفک جام کی وجہ سے شہر و قصبہ جات کے لوگ پریشان رہتے ہیں، ٹریفک جام میں سواریوں کے لیے جہاں دھوپ یا یخ بستہ سردی دردِ سر بنی ہوتی ہے ، وہیں اس ٹریفک جام کی وجہ سے مریض، ڈاکٹر، ملازمین، اساتذہ، طلبہ، مزدور مستری اور مسافر کبھی بھی اپنے کام ، ڈیوٹی اور منزلِ مقصود تک وقتِ مقررہ پر نہیں پہنچ پاتے اور اس کا خمیازہ پورے معاشرے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔

 

راستوں کے غلط استعمال کی چند مشاہداتی شکلیں جو روزانہ دیکھنی کو ملتی ہیں، وہ کچھ اس طرح ہیں:-

(۱) کچھ لوگ جلد بازی میں دوسرے سے سبقت لینے میں اپنی گاڑیوں کو غلط طریقے سے دوسری گاڑیوں کے درمیان لے آتے ہیں۔ اس جلد بازی سے حادثات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں (بعض لوگ خود غلطی کر کے اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کے لیے الٹا دوسروں کو قصور وار ٹھہراتے ہیں) ۔ یہ ایسا نا قابلِ دید منظر ہوتا ہے جس سے دھونس، لڑائی، مار پیٹ اور گالم گلوچ تک نوبت آتی ہے ۔ حالاں کہ قرآن پاک میں ایک اچھے انسان کی صفت اس طرح بیان ہوئی ہے : (ترجمہ) ’’ اگر نا سمجھ لوگ ان سے الجھنے کی کوشش کریں گے تو وہ سلامتی کی بات کہہ کر گذر جاتے ہیں ” (الفرقان ، ٦٣) ۔

(۲) عام طور پر جب ٹریفک سگنل اور چوراہوں کے سامنے گاڑیاں رکتی ہیں تو کچھ لوگ وہاں بھی دوسروں سے سبقت لینے کے چکر میں اپنی گاڑی مخالف سمت کے راستے میں روک دیتے ہیں۔ اس سے مخالف سمت کا پورا ٹریفک (آمد و رفت) جام ہو جاتا ہے اور پھر گھنٹوں درست نہیں ہوتا ۔ 

(۳) کچھ بے فکر اپنی گاڑیوں کو ایسے مقامات پر کھڑا کر کے اپنے دوسرے کام میں مشغول ہوجاتے ہیں، جہاں ان کی وہ گاڑیاں سینکڑوں گاڑیوں کے گذرنے کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ 

(۴) بعض دکان دار اپنی دکانوں کا بیش تر سامان نمائش کے لیے سڑکوں اور فٹ پاتھوں (foot paths) پر سجاتے ہیں اور وہ سامان پیدل چلنے والوں کے لیے رکاوٹ اور دشواری پیدا کرتا ہے ، بل کہ اس سے پیدل چلنے والے فٹ پاتھ پر چلنے کی بجائے گاڑیوں کی سڑک پر چلنا شروع کرتے ہیں ، اس سے گاڑی چلانے والوں کو دشواری تو ہوتی ہی ہے ، ساتھ میں حادثے کے خطرات کا بھی قوی امکان رہتا ہے۔

(۵) شادی بیاہ اور جلسوں کی تقریبات کا انعقاد کرنے والے اپنی تقریبات کے لیے گذر گاہوں، راستوں اور سڑکوں کو بند کر دیتے ہیں ۔ اس سے راہ گیروں اور مسافروں کو بہت پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں۔ اپنی تقریبات کے لیے عوام کو اس طرح تکلیف پہنچانا نہایت مذموم عمل ہے اور یہ بڑا ظلم ہے۔ یہ طرز عمل دین کے بھی خلاف ہے اور انسانی اقدار کے بھی منافی ہے۔

(۶) عموما دیکھا جاتا ہے کہ گھروں، مکانوں، دکانوں اور بلڈنگوں کی مرمت یا تعمیر کرنے والے تعمیراتی سامان (اینٹ، پتھر، ریت، لوہا وغیرہ) سڑکوں پر ڈال دیتے ہیں ۔ اس سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور گذرنے والوں کو طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

(۷) کچھ لوگ مال بیچنے کے لیے ٹھیلیاں لگاتے ہیں ، اس سے راستے تنگ ہوجاتے ہیں اور راہ گیروں و مسافروں کو دشواری ہوتی ہے ۔ یہ سڑک کا ناجائز استعمال ہے ، بل کہ ان ٹھیلی والوں سے کوئی چیز خریدنا گویا انہیں اس مذموم عمل میں تعاون و تائید کرنے کے مترادف ہے ۔

(۸) مسافر گاڑیاں (بس، ٹیکسی، آٹو) چلانے والے سواریوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد لینے کی لالچ میں سڑکوں کے درمیان اپنی گاڑیاں روکتے ہیں، نتیجتاً پیچھے آنے والی تمام گاڑیوں کی آمد و رفت رک جاتی ہے ، پھر سب کو ٹریفک جام اور کئی دوسری پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

(۹) کشادہ سڑکوں پر کم رفتار والی گاڑیوں (ٹرک، بس وغیرہ) کے ڈرائیور تیز رفتار گاڑیوں کو آگے نکلنے کے لیے راستہ چھوڑ کر نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کو آگے جانے کے لیے جلدی راستہ دیتے ہیں۔

اسی طرح کچھ ڈرائیور بلا ضرورت ہارن بجاتے ہیں، اس سے بعض اوقات حادثہ بھی پیش آتا ہے۔ یہ کچھ نازک مزاج افراد اور لطیف طبیعت حضرات کے لیے ذہنی اذیت کا سبب بھی ہوتا ہے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ نے گذرگاہوں ، راستوں پر چلتے ہوئے گھنٹہ بجانے سے منع فرمایا ہے اور اس پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے (خیال رہے جاپان اور کئی مغربی ممالک میں گاڑیوں کے ہارن بجانے ہر سخت پابندی ہے اور اس پر سزائیں مقرر ہیں) ۔ اسی طرح کچھ ڈرائیور رات کو ڈِپّر کا استعمال نہیں کرتے ، اس سے مخالف سمت سے آنے والے ڈرائیور کی آنکھوں میں تیز روشی پڑتی ہے اور کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ اس سے حادثہ پیش آنے کا قوی امکان رہتا ہے۔

غرض یہ وہ چند بڑے امور ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ٹریفک نظام ظلم و ضرر رسانی کا سبب بنا رہتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پوری قوم ٹریفک کے اصول و ضوابط پر عمل کرنے کا مزاج اپنائے اور اس نظام کو لاحق خلاف ورزیوں سے نجات دلانے کے لیے ہم فرداً فرداً اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھیں۔ جو ان قوانین کی پابندی کرے وہ واقعی اچھے مسلمان ہونے کا بہترین مصداق ہے۔ لہذا ٹریفک نظام کی درستی کے لیے جن ناقابل عمل اقدامات کی ضرورت ہے، ان میں چند ذمہ داریاں حکومت اور ٹریفک کے محکمے پر ہیں اور کچھ ذمہ داریاں عوام کے سر ہیں۔ حکومت (محکمۂ ٹریفک) اور عوام کے ذمے ٹریفک نظام کی درستی کے لئے کچھ اہم ذمہ داریاں درج ذیل ہیں :-

 

ٹریفک نظام کی درستی کے لئے حکومت کی ذمہ داریاں

(۱) حکومت سڑکوں کو کشادہ کرے ، جن چوراہوں اور سڑکوں پر ٹریفک کا زیادہ دباؤ ہے، اگر وہاں فلائی اُووَر (پل) کی تعمیر یقینی بنائے تو بڑھتے ہوئے ذاتی و عوامی ٹرانسپورٹ کی ضرورت پوری ہو ۔

(۲) بازاروں میں گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے جگہ جگہ کار پارکنگ کا قیام ، خصوصا بڑے بڑے شاپنگ سنٹروں اور شاپنگ مالوں کے لیے کار پارکنگ کا انتظام رکھنا لازمی قرار دیا جائے ۔

(۳) پولیس اور ٹریفک والے ایمان داری سے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ مصروف سڑکوں، بازاروں کے درمیان یا راستوں کے کنارے کسی ٹھیلی والے کو سامان بیچنے کی اجازت نہ دیں اور دکان داروں کو بھی فٹ پاتھ پر مال سجانے سے روکیں۔

(۴) مسافر گاڑیوں کو قواعد و ضوابط کے تحت صحیح طریقے پر چلنے کا پابند بنائیں، جا بجا رکنے سے منع کیا جائے ، نیز پرائیوٹ گاڑیوں کو بھی نا مناسب جگہ رکنے نہ دیا جائے ۔ اس کے لیے قوانین بنانے سے زیادہ ضروری نفاذِ قانون ہے ۔

(۵) تعمیراتی سامان سڑکوں پر ڈالنے، سڑکوں پر شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کے انعقاد کرنے پر پابندی عائد کی جائے۔ اور اس کے لیے تادیبی ایکشن لینے کا نظام بنایا جائے۔

 

ٹریفک نظام کی درستی کے لیے عوام کی ذمہ داریاں

(۱) عوام ٹریفک کے قوانین اور اصولوں کی مکمل پابندی کرے ۔ دوسروں کے لیے تکلیف اور رکاوٹ کا سبب نہ بنیں ، یہ ان کا دینی، اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے۔

(۲) بڑے شاپنگ سنٹر والے گاہکوں کے لیے مستقل کار پارکنگ کا قبل از وقت انتظام رکھیں ، اس کے لیے عمارت کا زیر زمین حصہ سب سے بہتر اور مناسب ہے۔

(۳) کوئی دکان دار اپنا کوئی سامان فٹ پاتھ پر نہ لگائے، یہ سراسر غیر اخلاقی عمل اور قانونی جرم ہونے کے ساتھ ساتھ راہ گیروں کو تکلیف پہنچانے کے باعث گناہ بھی ہے۔

(۴) ٹھیلی پر سامان بیچنے والے سڑکوں کے درمیان اپنی ٹھیلیاں نہ لگائیں، یہ راستوں کا ناجائز استعمال ہے۔

(۵) پبلک ٹرانسپورٹ والے (بس ، ٹیکسی، آٹو، رکشا) صرف اپنے اڈوں اور مقرر شدہ اسٹاپوں پر سواریوں کو چڑھانے اور اتارنے کا معمول بنائیں، جگہ جگہ بیچ راستوں پر رکنے اور مصروف شاہراؤں پر آہستہ آہستہ اور سست رفتار سے چلنے سے گریز کریں، اس سے مسافر وقتِ مقررہ پر اپنی متعلقہ منزلِ مقصود کو پہنچ پائیں گے۔ سست رفتاری سے ان کا بہت سارا وقت ضائع ہوجاتا ہے اور دوسروں کے اوقات ضائع کرنا نہایت قبیح عمل اور بہت بڑا ظلم ہے ۔ قرآن کے مطابق اللہ تعالی ظالموں کو سخت نا پسند کرتے ہیں۔

(۶) پرائیوٹ گاڑیاں چلانے والے اپنی گاڑیوں کو روکنے کے وقت اپنے گاڑی کار پارکنگ میں یا ایسی جگہ کھڑا کریں جہاں بعد میں وہ گاڑی کسی دوسرے کے لیے رکاوٹ اور تکلیف کا باعث نہ بنے۔ خصوصاً خرید و فروخت کرنے والے حضرات اس جانب ضرور توجہ دیں۔ 

(۷) دکانوں اور مکانوں کی مرمت یا تعمیر کرنے والے اپنا تعمیراتی سامان سڑکوں پر ہر گز نہ ڈالیں، اگر مجبوراً ایسا کرنا پڑے تو وہ سامان وہاں سے جلد از جلد اٹھا کر راستہ صاف کریں ۔ اور صفائی کا بھی پورا اہتمام ہونا چاہیے۔

(۸) شادی بیاہ یا جلسوں کی تقریبات کرنے والے سڑکوں اور گذر گاہوں کو بند کرنے سے اجتناب کریں۔

(۹) جلد بازی میں چوراہوں اور ٹریفک سگنلوں کے سامنے دوسری گاڑیوں سے سبقت لینے کے چکر میں اپنی گاڑی آگے نہ بڑھائیں۔ اس سے مخالف سمت کا راستہ بند ہو جاتا ہے اور ٹریفک جام میں پھنسنے کی نوبت آسکتی ہے۔

نیز راستہ چلتے ہوئے مزاج میں تحمل و برداشت ہو ، رویہ معتدل ہو ، راہ گیروں سے رعایت اور ایثار کا معاملہ ہو ، اگر کسی دوسرے کی طرف سے نا مناسب رویّہ پیش آئے تو عفو و درگذر کا ردّ عمل اپنائیں نہ کہ جوابی تُرش روئی کا ۔

اس لیے ہمیں چاہیے کہ ٹریفک کے اصول و ضوابط پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوں کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا سبب نہ بنیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (متفق عليه)

جان ، مال عزت اور وقت انسان کا قیمتی سرمایہ ہے ، ان کی حفاظت ایک شرعی فریضہ ہے اور اس کے لیے قوانین کی اطاعت کا ہم نے عہد کیا ہے ، جو کہ احکامِ شریعت سے متصادم نہیں۔ کیونکہ ٹریفک کے اصول و ضوابط معاشرے کے ایسے جائز انتظامی قوانین کا حصہ ہیں جو عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی ہیں اور ایسے قوانین میں رعایا کو شریعت نے تاکید کے ساتھ پابندی کرنے کا حکم دیا ہے۔ 

(یہ مضمون مختلف کتابوں کے مطالعے اور ذاتی مشاہدات کے بعد قلم بند کیا گیا)

Comments are closed.