انور آفاقی کے افسانے: نئی راہ نئی روشنی کے حوالے سے

کامران غنی صباؔ
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور
انور آفاقی کا نام شعر و ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج ہرگز نہیں ہے۔ بحیثیت شاعر اور افسانہ نگار وہ اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ ادبی نقطۂ نظر سے قطع نظر بھی انور آفاقی کی شخصیت انتہائی مسحور کن ہے۔ ایک ملاقات میں ہی ان کی شخصیت کا طلسم کسی کو بھی اپنے حصار میں لے سکتا ہے۔ انور آفاقی کی خوش اخلاقی اور فیاضی مثالی ہے۔اپنی ذاتی زندگی میں وہ جس قدر خوش اخلاق، پرمزاح اور زندہ دل نظر آتے ہیں، ان کی تخلیقی دنیا اسی قدر تنہائی زدہ، پردرد اور زمانے کی شاکی نظر آتی ہے۔ شاعری ہو یا افسانہ نگاری احساسِ تنہائی، یادِ ماضی، قدروں کی شکست و ریخت کا نوحہ اور ماضی کے اوراق میں مدفون داستانِ عشق وہ چنندہ موضوعات ہیں جن کے ’آفاقی دائرہ‘ میں انور آفاقی کے تخلیقی جہان کی تعمیر ہوتی ہے۔معروف پاکستانی ادیب اور صوفی دانشور اشفاق احمد کا قول ہے کہ ’’جب انسان اندر سے مر جاتا ہے تو وہ حد سے زیادہ خوش اخلاق ہو جاتا ہے۔‘‘میں سمجھتا ہوں کہ ایک حساس فن کار ہر لحظہ مرتا اور زندہ ہوتا ہے۔فانی نے کہا تھا ؎
ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا
فن کار جتنا زیادہ حساس ہوگا اس کا فن اسی قدر زمانے کے کرب کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہوگا۔ میرا ذاتی خیال تو یہ ہے کہ ایک سچا فن کار اپنے احساسات و تجربات کو اپنے فن پارے میں دفن کر کے کسی قدر اطمینان محسوس کر لیتا ہے ، ورنہ بعید نہیں کہ وہ احساسِ تنہائی، احساسِ کرب اور احساسِ شکست و ریخت سے دوچار ہو کر اپنے اندرون میں ہونے والی جنگ ہار جائے۔
انور آفاقی کی تخلیقات کا مطالعہ ہمیں ایک حساس اور پراسرار تخلیق کار سے متعارف کرواتا ہے۔ اِس وقت میرے پیش نظر ان کا افسانوی مجموعہ ’’نئی راہ نئی روشنی ہے‘‘۔ اس مجموعہ میں کل 13 افسانے شامل ہیں۔ان میں زیادہ تر افسانے المیاتی ہیں۔ان کے افسانوں میں شکستِ محبت کا غم محسوس کیا جا سکتا ہے۔سماجی بندشوں کے خلاف احتجاج کی دھیمی دھیمی لے انور آفاقی کے افسانوں میں نظر آتی ہے۔ افسانہ ’’نئی راہ نئی روشنی‘‘ کا سلیمؔ سماجی بندشوں کو توڑنے میں گرچہ ناکام رہ جاتا ہے لیکن اپنی موت سے قبل وہ احتجاج کی ایک چنگاری ضرور چھوڑ جاتا ہے۔ یہ افسانہ دراصل دو نوجوان سلمیٰؔ اور سلیمؔ کی محبت کی کہانی ہے۔ سلیمؔ ایک رئیس اور بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ وہ اپنی ہم جماعت سلمیؔ سے محبت کرتا ہے اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن سلیمؔ کا باپ (کرنل) صرف اس وجہ سے شادی کے لیے رضامند نہیں ہوتا ہے کہ لڑکی والوں کے پاس جہیز دینے کے لیے کرنل کے شایان شان دولت نہیں ہے۔سلیمؔ اپنے باپ کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ لڑکی والے پیسوں کے اعتبار سے بھلے ہی دولت مند نہ ہوں لیکن شرافت اور انسانیت کے اعتبار سے وہ مالامال ہیں۔ بیٹے کے منانے کا کرنل پر الٹا اثر ہوتا ہے اور وہ اسے اپنے گھر سے بے دخل کر دیتا ہے۔ سلیمؔ بھی بغاوت پر آمادہ ہو کر گھر سے نکل پڑتا ہے، وہ شہر کا رخ کرتا ہے، ایک فیکٹری میں اسے اچھی ملازمت بھی مل جاتی ہے، اب اس کے پاس پیسوں کی کوئی کمی نہیں، اس کے پاس اپنی گاڑی بھی ہے۔ ایک مدت بعد اس کے خوابوں کو تعبیر ملنے والی ہے، وہ سلمیٰ سے ملنے جا رہا ہے۔ وہ اس سے مل کر گزرے دنوں کے درد و غم بیان کرنا چاہتا ہے۔ وہ ڈرائیور سے گاڑی تیز چلانے کو کہتا ہے۔ راستے میں اس کے ذہن میں طرح طرح کے خیالات جنم لے رہے ہیں۔ اسے اپنے باپ کا رویہ یاد آ رہا ہے کہ جہیز کی حرص میں کس طرح اس کی محبت کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ وہ دل ہی دل میں ایسے سماج پر لعنت بھیجتا ہے جہاں صرف لمبی لمبی باتیں کی جاتی ہیں۔ سلیمؔ اپنے خیالوں کی دنیا میں کھویا ہوا تھا کہ اچانک اس کی کار حادثے کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسے اسپتال میں داخل کیا جاتا ہے لیکن باپ اور سماج سے روٹھا ہوا سلیم اب دنیا سے بھی روٹھ جاتا ہے، جاتے جاتے وہ نوجوانوں کو ایسے ظالم سماج سے بغاوت کا پیغام دے جاتا ہے۔
افسانہ ’’دھواں‘‘ کا موضوع بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ سدھاؔ کا کالج سے آتے ہوئے ایکسیڈینٹ ہو جاتا ہے۔ ایک نوجوان اسے اسپتال پہنچاتا ہے۔ اپنا خون دیتا ہے۔ اس کی تیمارداری کرتا ہے۔ گھر والوں کو مطلع کرتا ہے۔ گھر والے بھی نوجوان کے احسانات سے متاثر ہوتے ہیں جس کی بدولت سدھا کو نئی زندگی ملی ہے۔ سدھا جب تک اسپتال میں رہتی ہے نوجوان اس کی خیریت لینے اسپتال جاتا رہتا ہے، اسپتال سے چھوٹنے کے بعد بھی دونوں کی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتے ہیں لیکن جب نوجوان سدھا کے باپ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو سدھا کا باپ انتہائی حقارت سے اس کی درخواست کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیتا ہے کہ تمہاری حیثیت ہی کیا ہے، میں اپنی بیٹی کا ہاتھ اس لڑکے کے ہاتھ میں دوں گا جس کے پاس آرام دہ بنگلہ ہو، کار ہو، نوکر چاکر ہوں۔ جائو پہلے اپنی حیثیت بنائو پھر میری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آنا۔ نوجوان سدھا ؔکو حاصل کرنے کی دھن میں وطن چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ایک مدت بعد جب وہ زندگی کی ساری آسائشیں حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ سدھا ؔکے باپ نے اس کی شادی کسی رئیس زادے سے کر دی ہے۔ مشرقی سماج میں پلی بڑھی لڑکی خاموشی سے سب کچھ سہہ لیتی ہے اور یوں دو دلوں کے ارمان ان کے دلوں میں ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
’’نکلیس‘‘ انور آفاقی کا ایک بہترین افسانہ ہے۔ ماں کا جذبۂ قربانی اس افسانے کا مرکزی خیال ہے۔ شادابؔ ایک تعلیم یافتہ لیکن بے روزگار نوجوان ہے۔ملازمت کے لیے ساری تگ و دو کرنے کے باوجود اسے کامیابی نہیں ملتی ہے تو وہ اپنی زندگی سے مایوس ہونے لگتا ہے۔ شادابؔ کی ماں اسے حوصلہ دیتی ہے اور اسے کاروبار یا کوئی دوسرا کام شروع کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ شادابؔ آٹو رکشہ چلا کر گزر اوقات کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ آٹو رکشہ خرید سکے۔ اس کی خودداری کسی سے قرض لینا بھی گوارا نہیں کرتی۔ شادابؔ کی ماں وعدہ کرتی ہے کہ وہ آٹو رکشہ خریدنے کے لیے پیسوں کا انتظام کر دے گی لیکن ساتھ ہی وہ یہ شرط بھی لگا دیتی ہے کہ شاداب اس سے یہ ہرگز نہ پوچھے کہ پیسوں کا انتظام کس طرح ہوا۔ ماں کے انتظام کیے ہوئے پیسوں سے شاداب آٹو رکشہ خرید کر کمانے کے قابل ہو جاتا ہے اور اپنی محنت کی بدولت جلد ہی اسے معاشی آسودگی حاصل ہو جاتی ہے۔ کچھ دنوں بعد شاداب کی شادی عارفہؔ سے ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد ایک دن رفیقؔ چچا اور ان کی اہلیہ شادابؔ کے گھر آتے ہیں، یہ لوگ ولیمہ میں کسی مجبوری کی وجہ سے شریک نہیں ہو سکے تھے۔ رفیق چچا عارفہؔ کے لیے ایک خوبصورت تحفہ کا پیکٹ لے کر آئے تھے۔ گفتگو کے دوران عارفہؔ نے جیسے ہی تحفہ والا پیکٹ کھولا تو شادابؔ بالکل چونک پڑا۔ پیکٹ میں وہی نیکلس تھی جو شاداب کے مرحوم والد نے شاداب کی امی کو اپنے ریٹائرمنٹ کے بعد بنوا کر دی تھی۔ یہ نیکلس شاداب کی امی کو اپنی جان سے زیادہ عزیز تھا اور اسے وہ اپنے مرحوم شوہر کی نشانی سمجھ کر حفاظت سے رکھتی تھیں۔ شاداب نے ایک بار جب اپنی امی سے ان کے بہتر علاج کے لیے اس نیکلس کو فروخت کرنے کی التجا کی تھی تو ان کا یہی جواب تھا کہ اب موت ہی اس تحفے کو مجھ سے جدا کر سکتی ہے۔شادابؔ کو یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں ہوئی کہ اس کے روزگار کی خاطر اس کی ماں نے یہ قیمتی زیور فروخت کر دیا تھا۔ شاداب کی ماں کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو ساری داستان بیاں کر رہے تھے۔
مشرقی سماج میں عورتوں اور لڑکیوں کو مشوروں میں شامل کرنا آج بھی ضروری تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ لڑکیاں والدین کے حکم کے سامنے سرجھکادینے پر مجبور ہوتی ہیں۔ افسانہ ’’دھواں‘‘ میں اس کی مثال پیش کی جا چکی ہے لیکن بدلتے ہوئے وقت اور حالات کے مطابق اب مشرقی لڑکیاں بھی اپنا حق طلب کرنے لگی ہیں۔ بوقت ضرورت وہ صدائے احتجاج بھی بلند کرتی ہیں اور بغاوت بھی کرتی ہیں۔ادب میں بھی’ ’فیمنزم‘‘ کی تحریک کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انور آفاقی کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی ’’ازم‘‘ کے دھارے میں بہہ کر افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔ افسانہ ’’قیمت‘‘ میں ذکیہؔ کا کردار ایک ایسی مشرقی لڑکی کا کردار پیش کرتا ہے جو احتجاج کرتے ہوئے بھی ادب و شائستگی کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتی۔ ذکیہؔ کا رشتہ ایک رئیس خاندان کے لڑکے سے طے ہوتا ہے۔ لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، جہیز کے طور پر ہمیں کچھ نہیں چاہیے بس لڑکے کو M.S میں داخلے لیے ڈونیشن کے طور پر بیس لاکھ روپے ادا کرنے ہیں۔ ان پیسوں کا انتظام اگر لڑکی والوں کی طر ف سے ہو جائے تو ہمیں آسانی ہو جائے گی۔ ذکیہؔ یہ باتیں سن کر وہاں سے اُٹھ کر اندر چلی آتی ہے۔ وہ اپنے والد سے کہتی ہے کہ اگر آپ کو یہ رشتہ اتنا ہی پسند ہے تو پیسوں کے لیے فکر مند مت ہوں، آپ نے میرے نام پر جو رقم فکس ڈپوزٹ کی تھی وہ تقریباً 28 لاکھ ہو چکی ہے لیکن ساتھ ہی وہ عقد نامے پر اپنی کچھ شرائط بھی لکھوانا چاہتی ہے جس کا اظہار وہ لڑکے والوں کے سامنے ان الفاظ میں کرتی ہے:
’’جب کوئی چیز خریدی جاتی ہے تو اس چیز پر خریدنے والے کا سو فیصد حق ہوتا ہے۔ لہٰذا نکاح کے بعد لڑکا یعنی دولہا پر صرف اور صرف پروفیسر نثار احمد اور ان کی بیٹی ذکیہ نثار احمد کا حق ہوگا۔ وہ مستقلاً سسرال میں رہیں گے اور ان کی ساری کمائی پر صرف ہمارا تصرف ہوگا۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو رشتہ مجھے بھی قبول ہے۔ اور ہاں! نکاح کے فوراً بعد لڑکے (دولہا) کی مجموعی قیمت مبلغ تیس لاکھ روپے ان کے والد کو ادا کر دی جائے گی۔ ورنہ دوسری صورت میں یہ رشتہ مجھے ہرگز منظور نہیں۔‘‘
ایک مشرقی لڑکی کی زبان سے ادا ہونے والے یہ الفاظ سماج میں ہونے والی مثبت تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ افسانہ ’نئی راہ اور نئی روشنی‘ کی علامت ہے جو بتاتا ہے کہ نئی نسل ’شو آف‘ کی سماجی روایات سے بغاوت کا تیور رکھتی ہے۔
مجموعہ میں شامل کئی افسانوں کے کردار و واقعات میں افسانہ نگار کا اپنا عکس بھی نظر آتا ہے۔ انور آفاقی ایک اچھے شاعر بھی ہیں لیکن چونکہ شاعری میں تجربات و واقعات کا نام اور جگہ تبدیل کر کے اسے من و عن پیش کرنا ممکن نہیں ہے اس لیے انور آفاقی نے افسانہ نگاری کو ذریعۂ اظہار بنایا ہے۔ بالیدہ نظر قاری ان کے افسانوں کی تہہ سے ان کی بازیافت کر سکتا ہے۔
’’نئی راہ ، نئی روشنی‘‘ کی اشاعت پر انور آفاقی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ کتاب ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس دہلی، دربھنگہ ٹائمز پبلیشنز دربھنگہ، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ،کشمیر بک ڈبو سری نگر، تاج بک ڈپو رانچی، انجمن ترقی اردو حیدرآباد، کتاب دار بک سیلر، پبلشر(ممبئی)، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ، نعیم بک سیلر مئو ناتھ بھنجن ، دانش محل لکھنؤ اور پاکستان میں ملِک بک ڈپو، چوک اردو بازار لاہور سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.