کیااخوان المسلمون دہشت گردہیں؟

سمیع اللہ ملک
اطلاعات کے مطابق سعودی سینئرعلماکی تنظیم نے مصرمیں 1928میں تشکیل پانے والی عرب دنیاکی معروف سیاسی ومذہبی جماعت ’’اخوان المسلمین‘‘کودہشتگردتنظیم قراردیتے ہوئے کہاہے کہ اس کی رکنیت اورحمائت جائزنہیں ہے۔ان کے اہداف ومقاصد، دین اسلام اورہمارے عقائدکے منافی ہیں۔سعودی علماکی تنظیم کے بیان میں اخوان المسلمین کو ایک ایساگروہ قراردیاگیاہے جو اسلام کے لبادے میں اختلافات اوردہشتگردی کوبڑھاوادے رہاہے اوراس کااصل مقصد اقتدارحاصل کرناہے۔اس سے قبل مصرکی علماکونسل نے بھی ایک بیان میں اخوان المسلمین کودائرہ اسلام سے خارج قراردیتے ہوئے اس تنظیم کے اثاثوں کوضبط کرنے کی درخواست کی تھی جس کے جواب میں السیسی حکومت نے اس جماعت کے تمام اثاثہ جات ضبط کرنے کے ساتھ ہزاروں اخوانی مردوزن کونہ صرف اب بھی جیلوں میں بے پناہ تشددکانشانہ بنایارہی ہے بلکہ سینکڑوں اخوانی مردوزن اس ظلم و تشدد کے نتیجے میں شہادت پاچکے ہیں۔
سعودی عرب کے جیدعلمائے کرام کی شوری کے مطابق’’اخوان المسلمون انتہائی بری تنظیموں میں سے ہے اوراسلام کی بنیادوں کیلئے خطرہ ہے۔ یہ دہشتگردوں کاگروپ ہے جو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔یہ ایک ایسی بگڑی ہوئی تنظیم ہے،جومستحکم(اورقانونی طورپردرست)حکومتوں کاتختہ الٹنے کیلئیسرگرم رہتی ہے،تنازعات کوہوا دیتی ہے،غلط کاموں کودین کے پردے میں لپیٹتی ہے اورتشدد ودہشتگردی کے ذریعے اپنے مقاصد کے حصول کیلئیکوشاں رہتی ہے۔اخوان المسلموں نے اسلام کی بنیادی تعلیمات کے مطابق درست راہ پرگامزن رہنے کی بجائے زیادہ سے زیادہ طاقت اوراقتدارکاحصول یقینی بنانے پرزیادہ توجہ دی ہے‘‘۔
یادرہے کہ قطرکے ساتھ تعلقات کی خرابی میں بھی ایک وجہ اخوان المسلمون کوقرادیاگیاتھا۔عرب سپرنگ کہلانے والی مشرقِ وسطیٰ میں آئی انقلابی لہرکے بعدسیاسی تبدیلیوں کے دوران قطراورہمسایہ ممالک نے مختلف عناصرکی حمایت کی تھی۔ دوحہ نے جن اسلام پسندوں کی حمایت کی تھی ان میں سے کچھ کے اوپراپنے ممالک میں سیاسی طورپرحکومت مخالفت کے الزمات تھے۔مثال کے طورپر2013میں جب مصر کے سابق منتخب صدرمحمدمرسی کوغیرقانونی طورپرمعزول کیاگیاتوقطرنے اخوان المسلمین کوایک پیلٹ فارم فراہم کیا۔یاد رہے کہ مصری حکومت نے اخوان المسلمین پرپابندی لگارکھی ہے۔سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات بھی اخوان المسلمین کو دہشتگردتنظیم مانتے ہیں۔ سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے بیان کے مطابق قطرپر’’اخوان المسلمین‘‘داعش اورالقاعدہ سمیت مختلف دہشتگرداورفرقہ وارانہ گروہوں کی حمایت کرناہے جن کامقصدخطے میں عدم استحکام پیداکرناہے لیکن قطرنے اس اقدام کوبلاجوازاوربلاوجہ قراردیا۔خودپرلگے الزامات کی تردیدکرنے والے بیان میں قطری حکومت کاکہناتھا کہ وہ دہشتگردی اور شدت پسندی کے خلاف اپنی ذمہ داریاں نبھاتاہے تاہم اگرکسی کے پاس اپنے الزامات کی صداقت اوراخوان المسلمون کے خلاف کوئی ٹھوس شواہدموجود ہیں،توسامنے لائے جائیں لیکن آج تک اخوان المسلمون کے خلاف ایساکوئی الزام ثابت نہیں کیاجاسکا۔
اس حقیقت سے کون انکارکرسکتاہے کہ اخوان المسلمون اسلامی دنیاکی متعدل ترین تنظیموں میں سے ہے۔سعودی علمائے کرام نے یہ الزام بھی عائدکیاہے کہ بہت سی دہشتگردتنظیمیں اخوان المسلمون کے بطن سے پیداہوئی ہیں اوراِسی کے سائے تلے پروان چڑھی ہیں۔سعودی علمائے کرام کے اس بیان پردنیابھرمیں شدید ردِعمل کااظہارکیاگیاہے تاہم اس کے باوجودسعودی عرب کے مفتی اعظم عبدالعزیزالشیخ نے اپنایہ مؤقف نہیں بدلا کہ اخوان المسلمون ایک بھٹکاہواگروہ ہے۔
ترکی کی خبررساں ایجنسی اناتولی کے مطابق اخوان المسلمون کے ترجمان طلعت فہمی نے سعودی علمائے کرام کے بیان کوغلط قراردیتے ہوئے کہاکہاخوان کسی بھی اعتبار سے نہ تو دہشتگرد ہے اورنہ ہی تشددپسند۔ہماری تنظیم ہرقسم کی افراط وتفریط سے دورہے اورتشدد اوردہشتگردی پر یقین نہیں رکھتی۔اس کے برعکس اخوان ایک اصلاح پسندتنظیم ہے،جواسلام کی بنیادی تعلیمات پرعمل کرتے ہوئے اللہ کی رضاکی طالب ہے اوراس معاملے میں وہ نہ توحدسے تجاوزکرتی ہے اورنہ ہی غفلت کامظاہرہ کرتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اخوان المسلمون کی حمایت اورمخالفت کولے کرترکی اورسعودی عرب کے درمیان شدیداختلاف ہے،جس کااظہار ریاض اورانقرہ کے رویوں میں دیکھاجاسکتاہے۔
سعودی مفتی اعظم عبدالعزیزالشیخ کے ریمارکس کویکسرمستردقراکرتے ہوئے اخوان کے ترجمان اورکارکنوں نے سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم اورمستقل کمیٹی برائے تحقیق واِفتا شیخ العزیزبن باز(1999۔1910)کے ایک فتوے کومشتہرکیاہے،جس میں انہوں نے کہاتھاکہ قرآن کی تعلیمات اورنبی اکرم ﷺکی سنت سے قریب ترین گروہوں میں اہلِ سنت نمایاں اوران میں اہلِ حدیث، انصارالسنہ کے بعداخوان المسلمون بھی شامل ہیں۔شیخ عبدالعزیزبن بازنے جوکچھ کہاوہ اخوان کے بارے میں سعودی عرب کی سرکاری تنظیموں اورخود سعودی حکومت کامؤقف تھا۔سعودی علمائے کرام کی شوری نے جوبیان جاری کیاہے وہ بھی مکمل طور پرسرکاری مؤقف کااظہارہے۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ کل تک اخوان کے بارے میں جورائے بالکل مثبت تھی وہ اب یکسرمنفی کیسے ہوگئی ہے۔
1936میں جدیدسعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیزالسعودنے اخوان المسلمون کے بانی حسن البناکی تعلیمات سے کامل اتفاقِ رائے ظاہرکرتے ہوئے اس بات پررضامندی ظاہرکی تھی کہ سعودی عرب میں عمومی سطح پراصلاح کاعمل یقینی بنانے کی خاطرہرسطح کے تعلیمی اداروں کیلئے نصاب کی تیاری کافریضہ اخوان انجام دے۔ تب ایک نئی قومی ریاست کوعملی شکل دینے کے معاملے میں قبائلی مذہبی تعلیمات ناکافی محسوس کی گئی تھیں۔
تیل کی دریافت کے بعدسعودی عرب میں جدیدمعاشرے کی تشکیل کیلئے شاہ عبدالعزیزالسعودکوقبائلی ذہنیت ختم کرکے جدیدترین رجحانات کے مطابق معقول سوچ پروان چڑھانے کے حوالے سے اخوان کی ضرورت محسوس ہوئی تھی۔ بیسویں صدی کے اوائل میں عبدالعزیزالسعودنے صحابہ کرام کے نقوشِ قدم پرچلنے کادعوی کرتے ہوئے عوام کو سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف متحرک کیاتھا جبکہ خطے کے دیگرممالک میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی رونمانہیں ہوئی تھی اورتمام ممالک ایسے نظریات کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے جو خطے کی مشکلات کیلئیاسلامی تعلیمات کوموردِالزام ٹھہراتے تھے۔
عبدالعزیزالسعودنے حجازاوردیگرعلاقوں کوملاکرسعودی عرب کی تشکیل کی مگرساتھ ہی ساتھ ان پرمختلف حوالوں سے متعدد ذمہ داریاں بھی عائدہوتی تھیں۔عبدالعزیزالسعوداوران کے بیٹوں کے عہدِحکومت میں اخوان سے کئی کام لیے گئے۔مثلاافغانستان پر سابق سوویت یونین کی لشکرکشی کے بعدوہاں سوویت افواج سے لڑنے کیلئے مجاہدین کی بھرتی اورتیاری کی ذمہ داری اخوان کو سونپی گئی۔امین محمدحبلہ کے مطابق اخوان نے اسلام کے اصولِ اخوت کے تحت یہ ذمہ داری بخوشی قبول کی۔سابق سوویت فوج سے لڑنے کیلئے مجاہدین کی بھرتی اورتیاری کافریضہ انجام دینے پرسعودی عرب میں اخوان کی توقیربڑھ گئی۔مصرمیں جمال عبدالناصراورانورسادات کے دورمیں قیدکیے گئے اخوان رہنماجب رہائی کے بعد سعودی عرب پہنچے توان کاگرم جوشی سے استقبال کیاگیا۔واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فارنیئرایسٹ پالیسی کیلئے ایک مقالے میں محمدقندیل نے لکھاہے کہ سعودبن عبدالعزیزاپنے والد کے نقوشِ قدم پرچلتے رہے اوراخوان میں دوسرے سب سے بڑے قائدمحمدالہضیبی نے حسن البناکے نقوشِ قدم پرچلتے ہوئے خوشگوارتعلقات استواررکھے۔شاہ فیصل بن عبدالعزیز کے عہدمیں ریاستی پالیسی اسلامی تعلیمات کی بنیادپراخوت کوپروان چڑھانے کارجحان غالب تھااورعرب قومیت کے بت کی پوجاکمزورپڑچکی تھی۔یہ بت مصرکے آمرجمال عبدالناصر اوران کے ہم خیال علاقائی رہنماوں نے کھڑاکیاتھا۔
یہ ہنی مون زیادہ مدت تک چلانہیں۔سعودی حکمرانوں نے دیکھاکہ اخوان کاترتیب دیاہوانصاب ان کی امنگوں اورآرزووں کے مطابق سعودی تعلیمی اداروں کوچلانے اورمطلوب معیاریامزاج کے طلبہ تیارکرنے میں ناکام رہاہے۔سعودی حکمراں خاندان چاہتا تھاکہ ہراعتبارسے مطیع وفرماں بردارنسل تیارہوجبکہ اخوان نے مذہبی وریاستی معاملات میں متنازع فیہ امورکے حوالے سے اختلافِ رائے کے اظہارکو اولیت دی۔دراصل1990میں سعودی عرب کی طرف سے کویت پرعراق کاقبضہ ختم کرانے میں کوئی کردارادا کرنے کی استدعا قبول کرنے سے اخوان کاانکاراوراس حوالے سے جدیدسعودی عالم شیخ صفرالحوالی کااس وقت کے سعودی شاہ فہدبن عبدالعزیزکولکھاگیاخط سعودی عرب اوراخوان کے درمیان معاملات کے بگڑنے کی ابتدابننے والے معاملات ہیں۔اس کے بعدہی سعودی عرب کی طرف سے اخوان کوایک بری اورناقابلِ قبول تنظیم قراردینے کاسلسلہ شروع ہوا۔تب دنیا بھرمیں جدیدفکررکھنے والے مسلم علمااخوان کی چھتری تلے جمع ہوچکے تھے۔
اکیسویں صدی شروع ہوئی توسعودی عرب اوراخوان المسلمون کے تعلقات میں مزیدخرابی رونما ہوئی۔نائن الیون کے بعدسعودی عرب کوشدیددباؤکے تحت اخوان کے خلاف جانے میں قدرے بے نقاب ہوناپڑا۔یہ دباؤخطے کے بیشترممالک کی طرف سے تھا، جن کاخیال تھاکہ نائن الیون کے ذمہ دارالقاعدہ گروپ کوپروان چڑھانے میں اخوان نے کلیدی کرداراداکیاتھا۔سعودی حکومت نے اخوان کے مالیاتی ذرائع کے خلاف کریک ڈاون کیااوراس کے فلاحی ادارے بندکردیے۔اس وقت کے سعودی وزیرداخلہ شہزادہ نائب بن عبدالعزیزپردہشتگردی کے خلاف جنگ کے ایک حصے کے طورپرالقاعدہ کی جڑیں کاٹنے کی ذمہ داری بھی تھی۔انہوں نے کویت کے اخبار’’السیاسہ ‘‘کودیے گئے انٹرویو میں اخوان کوبحران کامآخذیاجڑقراردیاتھا۔ترکی اور فلسطین میں اسلام پسندوں کی نمایاں انتخابی کامیابیوں کے بعدجب اخوان المسلمون نے عالمی سطح پرنمایاں ہوناشروع کیا تب سعودی عرب نے اس سے فاصلے کوبڑھانے کاعمل تیزترکردیا۔
2011میں جب عرب دنیااورشمالی افریقامیں عوامی بیداری کی لہردوڑی تب اخوان نے اصلاحات کاعمل شروع کیااوراس کے نتیجے میں سعودی عرب نے اخوان کے حوالے سے سخت ترپالیسی اختیارکی۔مصرمیں2012کے انتخابات میں اخوان نے کامیابی حاصل کی اورمحمدمرسی صدرمنتخب ہوئے۔ایک سال بعدمصرکی فوج نے حکومت کاتختہ الٹ کرمحمدمرسی کوقیدکرلیا۔سعودی عرب نے اس اقدام کوکھل کرسراہااورمصرکیلئے چارارب ڈالرکی خصوصی امدادمنظورکی۔پھرجب مصرکی فوجی حکومت نے اخوان کودہشتگردقراردیاتوسعودی عرب نے اس کی پیروی کی۔
موجودہ سعودی حکمراں سلمان بن عبدالعزیزنے جب شاہ عبداللہ کے انتقال کے بعدسلطنت سنبھالی تب ان کے وزیرخارجہ شہزادہ سعودالفیصل نے ایک بیان میں کہاکہ اخوان سے
عمومی سطح پرہماراکوئی خاص اختلاف نہیں بلکہ ہمیں تواخوان کے اندراس چھوٹے سے گروہ سے شکایت ہے جواپنے سپریم لیڈرکے سامنے سرِتسلیم خم کیے ہوئے ہے۔
یہ ہے اصل مسئلہ۔ سعودی حکمران اخوان کواپنے مقاصداورمفادات کیلئے بروئے کارلاتے رہے اورجب کام نکل گیاتوان کی فرمائش رہی کہ اخوان ان کے اشاروں پرچلے،مطیع و فرماں برداررہے۔یمن میں اخوان کے لوگ وہاں کے حکمراں طبقے کے خلاف کامیابی سے ہم کنارتھے کہ سعودی عرب کی قیادت میں یمن کے معاملات میں مداخلت کرنے والے اتحادنے اخوان سے وابستہ گروہوں اورشخصیات سے کہاکہ وہ اطاعت اختیارکریں۔سعودی عرب نے اخوان کی کئی اہم شخصیات اورحماس کے رہنما خالدمشعل سے رابطہ کرکے ان سے کہاکہ وہ سعودی قیادت میں قائم اتحاداوریمن میں اخوان کی حمایت یافتہ’’الاصلاح پارٹی‘‘کے کے درمیان ثالث کاکرداراداکریں۔اس کے بعدسعودی عرب کے حقیقی حکمران ولی عہد محمد بن سلمان نے اعلان کیاکہ سعودی شہریوں پرمذہبی پابندیوں کاعہداب ختم ہوچکاہے۔یہ اس امرکااعلان بھی تھاکہ سعودی قیادت اخوان کومزید برداشت کرنے کیلئے بالکل تیارنہیں۔
جب جب اخوان کی ضرورت پڑتی تھی تب تب اسے سراہاجاتاتھااورجب ضرورت ختم ہوجاتی تھی تب اسے عفریت کے طورپر پیش کیاجاتاتھا۔یہی سبب ہے کہ سعودی عرب میں اعلی ترین مذہبی ادارہ اخوان کوعفریت اوربحران کے مآخذکے طورپرپیش کر رہاہے جواس کے خلاف یک طرفہ جنگ کودرست ثابت کرنے کی کوشش کے سواکچھ نہیں۔اس طریقِ فکر کواسرائیل نے سراہتے ہوئے کہاہے کہ ہمیں ایسی ہی سوچ درکارہے!انٹرنیشنل کاونسل آف مسلم اسکالرزکے سیکرٹری جنرل ڈاکٹرعلی القرضاوی نے ایک بیان میں کہاہے کہ’’یہ ممکن نظرنہیں آتاکہ اخوان کے خلاف سعودی عرب کے جیدعلمائے کرام نے توہین آمیزبیان جاری کیاہو۔زیادہ سے زیادہ یہی سوچاجاسکتاہے کہ سعودی وزارتِ داخلہ نے بیان تیار کرکے اس پرعلماسے دستخط کروالیے ہوں گے‘‘۔
سعودی عرب نے ایسی حالت میں اخوان المسلمین کونشانہ بنایاہے کہ تحقیقات اورمغربی ملکوں کی رپورٹوں کی بنیادپرسعودی عرب محسوس کررہاہے کہ قصرسفیدکے نئے مکین جوبائیڈن اپنی انتخابی مہم میں برملاسعودی عرب کوانسانی حقوق کی پامالی کے سلسلے میں متنبہ کرچکے ہیں اورسعودی نژادصحافی جمال خاشفجی کے انقرہ میں سعودی سفارت خانے میں ظالمانہ قتل کا معاملہ بھی اس کی منگیترکی طرف سے امریکی عدالت میں زیرسماعت ہے جبکہ کینیڈاکی بھی ایک عدالت سعودی ولی عہدکی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرچکی ہے۔قصہ مختصر،ولی عہدمحمد بن سلمان کی غیاعلانیہ قیادت میں سعودی عرب ایک بڑی برائی سے دوچارہے۔سعودی حکمراں نظام کیلئے’’مذہب‘‘اقتدارکوبچانے اوربرقراررکھنے کاآلہ بن چکاہے اوراس کیلئے اگراخوان المسلمون جیسی تنظیموں کی تذلیل بھی کرنی پڑے توکچھ ہرج نہیں۔مغرب اورعرب دنیااسلام کے صہیونی دشمنوں کودوست بنانے کی راہ میں محمدبن سلمان کیلئے کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہونی چاہیے۔

Comments are closed.