گاندھی جی کے افکار و نظریات پر پروفیسر عبدالستار دلوی کی فکر انگیز کتاب

شکیل رشید
جنوری 2021ء کی 30 تاریخ کو قوم کے باپو ، مہاتما گاندھی کی شہادت کے 73سال پورے ہو گیے ہیں ۔ گاندھی جی کا قتل صرف ایک انسان کا ہی قتل نہیں تھا ، اس انسان کے امن ، بھائی چارہ اور قومی یکجہتی پر مبنی افکار و نظریات کا بھی قتل تھا ۔ آج حالات یہ ہیں کہ ایک جانب ساری دنیا گاندھی جی کے افکار و نظریات کو اپنانے پر توجہ دے رہی ہے تو دوسری جانب خود گاندھی کے دیش میں ان کے افکار و نظریات کو ختم کرنے کی منصوبہ بند کوشش کی جا رہی ہے ۔ وہ جو گاندھی کے قتل کو جائز قرار دیتے چلے آ رہے ہیں اور باپو کے قاتل گوڈسے کے پجاری ہیں اقتدار کی بڑی سے بڑی کرسیوں پر متمکن ہیں ، نتیجہ سامنے ہے ، ملک فرقہ پرستی اور سماجی، مذہبی و لسانی انتشار کا شکار ہو گیا ہے ۔ اب ملک کو اگر انتشار اور بھنور سے کوئی چیز باہر نکال سکتی ہے تو وہ باپو کے افکار و نظریات ہی ہیں ۔ اس کے کئی طریقے ہیں جن میں سے ایک طریقہ ایسی کتابوں کی اشاعت ہے جو گاندھی جی کی تعلیمات کو پھیلا سکیں ۔ ماہر لسانیات ، پروفیسر عبدالستار دلوی نے اپنی نئی کتاب ’’مہاتما گاندھی ، سماجی انصاف پسندی اور اردو ‘‘کے ذریعے یہی کوشش کی ہے ۔ پروفیسر صاحب کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں : ’’ گاندھی جی کے ہندوستانی نظریے کو زندہ رکھنے کے لیے بمبئی کی ہندوستانی پرچار سبھا اور بعد میں اس کی ذیلی شاخ مہاتما گاندھی میموریل ریسرچ سینٹر اور لائبریری قائم کی (گئی) تھی ۔1967ء میں اس کی بنیاد سے لے کر 1982ء تک میں نے اس ادارے اور اس کے مقاصد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔ اسی دوران مختلف اوقات میں ، مختلف رسالوں میں گاندھی جی کے نظریہ قومی زبان ہندوستانی کے مسئلے پر مضامین لکھے تھے ۔ یہ مضامین مختلف اوقات میں ، مختلف فرمائشوں اور ضرورتوں کے تحت لکھے گیے تھے ۔۔۔۔۔۔انہیں مضامین پر مشتمل یہ کتاب گاندھی جی کی ڈیڑھ سوویں سالگرہ کے موقع پر ایک کتاب کی حیثیت سے پیش کی جا رہی ہے ‘‘۔
کتاب تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ حصہ اول میں 9 مضامین ہیں جن میں گاندھی جی کی تعلیمات اور ان کی عصری معنویت پر بات کی گئی ، زیادہ زور گاندھی جی اور اردو ، اور لسانیاتی مسئلہ پر ہے ۔ پروفیسر دلوی نے گاندھی جی کے افکار و نظریات کی عصری معنویت کو اور زبان کے مسئلہ کے حل کے لیے ان کی کوششوں کو کس خوبی سے اجاگر کیا ہے اس کا اندازہ مختلف مضامین کے درج ذیل اقتباسات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ موصوف لکھتے ہیں :’’ گاندھی جی کا فلسفہ عدم تشدد بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ یہ وہ واحد ہتھیار تھا جسے انہوں نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن کے خلاف استعمال کرنا چاہا ۔ان کے فلسفہ کے بارے میں لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہوئے کہ یہ کمزوروں کا حربہ ہے ۔ گاندھی جی نے بار بار اس کی تردید کی۔۔۔۔۔گاندھی جی اس جہاد کو جاری رکھنے کے سلسلہ میں ایک مخصوص ضابطہ اور اصول کی پابندی چاہتے تھے۔۔۔۔۔بدنظمی کی وجہ سے ملک کے بیرونی دشمنوں کے لیے دروازے کھل جاتے ہیں اور ملک پھر غلامی کی زنجیروں میں بندھ جاتا ہے جس سے وہ بڑی دشواریوں سے ، قربانیوں سے آزاد ہوا تھا۔۔۔۔آج ہمارے ملک کو قربانیوں کی، ایثار اور سچائی کی ضرورت ہے ‘‘۔
گاندھی جی نے زبان کے مسئلے کا جو حل پیش کیا تھا اس تعلق سے پروفیسر دلوی لکھتے ہیں :’’ ملک کی عام بول چال کے سلسلے میں گاندھی جی کا یہ نظریہ بڑی حد تک صحیح تھا(کہ) ہندوستانی جیسی عام فہم اور آسان زبان اگر دونوں رسم الخط میں لکھی جاتی رہی تو یہ ایک علامت ہوگی ہندوؤں اور مسلمانوں کی یکجہتی کی ‘‘۔ پروفیسر موصوف نے کتاب کے مضامین میں مذکورہ موضوعات اور گاندھی جی کی سماجی انصاف پسندی پر ہر رخ سے گفتگو کی ہے ، ان کا یہ ماننا ہے کہ گاندھی جی اردو اور ہندی دونوں کے چاہنے والے تھے لیکن یہ محسوس کر رہے تھے کہ اردو زبان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، اس خدشے کا انہوں نے اپنی شہادت سے 9 دن قبل ایک خط میں اظہار کیا تھا اور مسلمانوں و اردو زبان کی حفاظت کی تاکید کی تھی ۔ افسوس یہ ہے کہ کانگریس جو خود کو گاندھی جی کے نظریات کی سب سے بڑی علمبردار کہتی ہے اسی نے باپو کی تاکید کو نظر انداز کیا ہے ۔ مضامین میں ایک مضمون ’’مہاتما گاندھی اردو اور اقبال ‘‘ کے عنوان سے ہے جسے پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ گاندھی جی نے اردو سیکھی تھی اور اقبال ان کے پسندیدہ شاعر تھے۔ مضمون نگار نے گاندھی جی کے کئی اردو خطوط سے ان کی اردو دانی کی مثالیں دی ہیں ۔ وہ اپنے اخبار ‘ ’ہریجنـ‘کا اردو ایڈیشن بھی نکالتے تھے ۔ ایک مضمون پیرین بہن کیپٹن پر ہے جنہوں نے ممبئی میں مہاتما گاندھی میموریل قائم کیا اور ہندوستانی کو فروغ دینے کا کام کیا ۔ کتاب کے تمام ہی مضامین وقیع ہیں، آج کے حالات میں ان مضامین کا مطالعہ ضروری ہے ۔ کتاب کے حصہ دوم میں گاندھی جی کو ’بوڑھا مالی‘کے عنوان سے منظوم خراج عقیدت پیش کیا گیا ہے، کل 28 نظمیں ہیں، اور شعراء میں مجاز، جگر مراد آبادی ، جوش ملیح آبادی وغیرہ شامل ہیں۔ یہ حصہ بتاتا ہے کہ اردو کے شعراء گاندھی جی کو کس قدر پسند کرتے اور ان کی قدر کرتے تھے۔ تیسرا حصہ کتابیات کا ہے، اس حصے میں گاندھی جی اور عمر سوبانی کی گرانٹ روڈ مسجد کی سیڑھیوں سے اترتے ہوئے ایک یادگار تصویر بھی شامل ہے۔ پروفیسر عبدالستار دلوی یقیناً اس کتاب کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ کتاب کا انتساب مسز کلثوم سایانی مرحومہ کے نام ہے جو گاندھی جی کے ساتھ سرگرم تھیں۔ کتاب علمی مجلس نوبل ایجوکیشنل اینڈ سوشل ٹرسٹ (نیسٹ) ممبئی کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے ۔ صفحات 208 ہیں اور قیمت 250 روپیے ہے، اسے ممبئی میں مکتبہ جامعہ (9082835669) سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
Comments are closed.