گاندھی کے دیش کو نفرت کے ماحول سے نکالنے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ۔۔۔۔۔۔۔عامر اقبال، فرقہ پرستی اور مذہبی عصبیت ملک کو بدامنی کی راہ پر لے جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔بھوشن آزاد

جالے ۔٣٠/ جنوری ( پریس ریلیز )
ملک اس وقت بدامنی کی جس راہ پر گامزن ہے اس میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کا نظریہ ہی اسے سلامتی کی راہ دکھا سکتا ہے کیونکہ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ گاندھی جی نے اپنی زندگی میں صرف عدم تشدد کا ہی پیغام نہیں دیا تھا بلکہ انہوں نے سماج میں محبت وراداری کے دیپ جلائے رکھنے کی بھی جد وجہد کو اپنی زندگی کا مشن بنایا تھا اس لئے ہمیں ملک کے مستقبل کی خاطر اصولوں پر سودے بازی اور مفادات کی سیاست سے اوپر اٹھ کر خالص ہندوستانی نظریہ سے سوچتے ہوئے آگے بڑھنے کی فکر کرنی ہوگی یہ باتیں سینئر کانگریسی لیڈر عامر اقبال نے آج بابائے قوم مہاتما گاندھی کی یوم شہادت پر اپنے پیغام میں کہیں,اس موقع پر کانگریسی کارکنان نے جالے گاندھی چوک پر موجود گاندھی جی کے مجسمہ کی گل پوشی کر کے ان کی 73 ویں یوم شہادت پر انہیں خراج عقیدت پیش کیا اور دومنٹ کی خاموشی اختیار کرکے ان کو یاد کیا،جس میں شیخ اختر جالوی،یووا صدر سدشٹ ٹھاکر،آئی ٹی سیل صدر انیکیت مشرا،عقیل صدیقی،شمشاد خان،شہزاد تمنے اور راہل جھا سمیت درجنوں کانگریسی کارکنان کے نام شامل ہیں،جالے کانگریس صدر بھوشن آزاد نے کہا کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے”ایشور اللہ تیرے نام،سب کو سمتی دے بھگوان”والے اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ملک کے اندر اتحاد وراداری کی جڑوں کو مضبوط کرنا ہوگا،انہوں نے کہا کہ مہاتما گاندھی ایک عہدساز بلکہ تاریخ ساز شخصیت کے مالک تھے، اُنہوں نے اپنے قول وفعل ، مضبوط عزائم اور اصولوں کی پابندی کا مظاہرہ کرکے ہندوستان کی تقدیر بدلنے کے ساتھ ساتھ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کو بھی غیروں کی غلامی سے آزاد ہونے کی راہ دکھائی،گاندھی جی کے اہم کارناموں میں قومی اتحاد ، فرقہ وارانہ خیرسگالی، عدم تشدد اور اہنسا کا فلسفہ اِس قابل ہے کہ اُن پر پوری دیانت داری کے ساتھ آج بھی عمل کیا جائے تو ملک کے اندر اور باہر پنپنے والے تشدد اور عدم برداشت کے ماحول کو ہم دور کرسکتے ہیں،انہوں نے کہا کہ اگر آج دنیا امن کی راہ پر چلنا چاہتی ہے تو اسے گاندھی جی کی راہوں پر چل کر اپنی منزل تک پہونچنے کی کوشش کرنی ہوگی کیونکہ گاندھی جی’’جیو اور جینے دو‘‘کے اصول پر کارفرما تھے اور پوری زندگی اس اصول کی پاسداری بھی کی،شہزاد علی تمنے نے کہا کہ جب ہم گاندھی جی کی تقریروں کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے ذات، مذہب، علاقائیت، رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر مختلف طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی، قومی ایکتا کا یہی نظریہ اُن کی فکرکا بنیادی پتھر ہے جس پر وہ ایک خوشحال قوم کی تعمیر کرنا چاہتے تھے، مہاتما گاندھی کو اِس کا احساس تھا کہ ہندوستان کو اُس وقت تک آزادی نہیں مل سکتی جب تک کہ یہاں رہنے اور بسنے والے دو بڑے فرقے باہم مل جل کر رہنا نہیں سیکھ لیں ورنہ اگر آزادی مل بھی گئی تو حقیقت میں وہ آزادی نہیں ہوگی جس کے ہم سب متمنی ہیں یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حمایت کی،اُن کا خیال تھا کہ اگر ہندو اور مسلمان امن و بھائی چارہ کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں سیکھ لیتے تو اِس ملک کا جسے ہم بھارت کے نام سے جانتے ہیں وجود ختم ہوجائے گا،انہوں نے کہا کہ تحریک آزادی کے دوران اُن کا ملک کے ہر طبقہ اور ہر علاقے کے لوگوں سے سابقہ پڑا، یہی وہ عوامل تھے جو اُن کے ’’قومی اتحاد‘‘ کے نظریہ کی تشکیل میں مددگار بنے، ملک میں صدیوں سے چلی آرہی چھوا چھوت کی لعنت کے خلاف اُنہوں نے تحریک چلائی اور لسانی تفریق کو دور کرنے کے لئے ہندی یا اُردو کے بجائے ’’ہندوستانی زبان‘‘ کا تصور پیش کیا،انہوں نے کہا کہ گاندھی جی کے قومی اتحاد کے تعلق سے اِس نظریہ کا اہم پہلو یہ ہے کہ انہوں نے تمام طبقات کو متحد کرنے کے لئے گاؤں اور شہر کو قریب لانے کی کوشش کی،اُنہوں نے دیہی زندگی کی اصلاح اور ترقی پر خاص طور سے زور دیا،صنعتی ترقی سے شہروں کی خوشحالی کو دیکھ کر وہ دیہاتوں کے پچھڑے پن کو دور کرنے میں مصروف ہوگئے،شیخ اتر جالوی نے افریقہ میں قیام کے دوران کالے اور گوروں کے درمیان تفریق کو مٹانے میں سرگرم کوشش کی اور وہاں کے سیاہ فام باشندوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی، گاندھی جی کے تمام آدرش و اصول خواہ وہ اہنسا ہو،ستیہ گرہ ہو یا بھائی چارہ نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں مقبول ہوئے اور عالمی پیمانے پر مفکروں،قلم کاروں اور فنکاروں نے اُنہیں سراہا انہوں نے کہا کہ گاندھی جی نے آزادی کی جد وجہد کے موقع پر جس ہندوستان کا سپنا دیکھا تھا اس کی تعبیر ہماری مشترکہ کوششوں سے ہی سامنے آسکتی ہے،لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم سیاسی مقاصد کے لئے اپنے نظریات کو پوری قوم پر تھوپنے کی بجائے ملک کے جمہوری اصولوں کی پاسداری کا عہد کریں اور بلا تفریق مذہب ہر طبقے کو یکساں حقوق فراہم کرنے کی جانب پیش رفت ہو کیونکہ یہی گاندھی جی کا پیغام اور ہندوستان کے تئیں ان کا سپنا تھا جس کے لئے انہوں نے انگریزوں کے خلاف خود کو ہمیشہ کھڑا رکھا ورنہ اگر اس حساس معاملے میں ہم غفلت کے شکار رہے تو آزاد ہندوستان میں بھی غلامی ہمارے گلے کا پھندا بن جائے گی۔
Comments are closed.