جدیدترکی اوراردگان

سمیع اللہ ملک
پچھلی ایک دہائی سے نیٹوکاایک اہم رکن اوریورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کاخواہش مندترکی ابھرتی طاقت کے طورپر سامنے آیاہے،جوفرانس اورامریکاجیسے طاقتورملکوں کو کھلے عام چیلنج کررہاہے۔نیٹومیں امریکاکے بعددوسری بڑی فوج رکھنے والے ترکی نے کئی خطرات مول لیے ہیں۔شام،عراق،جنوبی قفقاز،لیبیااورمشرقی بحیرہ روم کے علاقوں میں ترکی صورتحال کو اپنے حق میں کرناچاہتاہے۔یہ طرزِعمل ترکی کی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کرتاہے،ماضی میں ترکی نے بیرونی مہم جوئی کومکمل طورپرترک کر دیا تھا۔
جدیدترکی کی قیادت کرنے والے اردگان2003سے2004 تک وزیراعظم رہے،جس کے بعدبطورصدر وہ ملک کی قیادت کررہے ہیں۔ان کی قیادت میں ترک خارجہ پالیسی روایتی راستے سے ہٹ کرترکی کوطاقتوربناکرخودکوعالمی رہنماکے طورپرمنوانے اور دوسرافعال خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے اپنی حکومت کواندرونی طورپرمستحکم رکھنے پرمرکوزہے۔ اردگان نے2002کے انتخابات میں43فیصد ووٹ لیکراقتدارحاصل کیا۔ابتداسے ان کواسلام پسندی کی وجہ سے ترکی کی سکیولراشرافیہ اورفوج نے شک وشبہ کی نظرسے دیکھا، ابتدا میں انہوں نے انسانی حقوق اورآزادی صحافت کے حوالے سے بہتری اورسول سوسائٹی کوطاقتوربنانے کیلئے متحرک کرداراداکیا۔تاکہ ترکی کی طاقتورفوجی اشرافیہ کے مقابلے میں یورپ اورمغرب میں زیادہ مقبولیت حاصل کی۔جمہوری راستہ اختیارکرنے کے کچھ اضافی فوائدبھی ہوئے،جس میں اسلامی تقوی اورجمہوری بیانیے کی آمیزش کی گئی اور بتایا گیاکہ اسلام اورجمہوریت ساتھ چل سکتے ہیں،جس نے مشرق وسطی کے شہریوں کواپنی گرفت میں لے لیا،ترکی کوایسی مقبولیت پہلے کبھی حاصل نہیں ہوئی تھی۔اردگان ورلڈآرڈرکو ناانصافی قراردیتے ہوئے اس کے خلاف ہیں،ان کی خارجہ پالیسی کے گرواحمد داداوغلونے ترکی کومرکزی طاقت بنانیکاخیال پیش کیاتھا،جس کامقصداس خطے اوراس سے آگے ایک بااثرکرداراداکرناتھا
مسلم دنیاکی توجہ اس طرف دلائی کہدنیاپانچ بڑوں کے علاوہ بھی ہیکاکھل کرنعرہ لگاکرمسلم دنیاکومتوجہ کیا۔ ترکی کی خارجہ پالیسی میں اصل تبدیلیاں2010کے بعدشروع ہوئیں، جب ملک کے اعلی فوجی اہلکاروں نے اے کے پارٹی کے عبداللہ گل کوصدربننے سے روکنے کی اعلانیہ کوششیں کیں اورناکام رہے،جس کے بعدترک فوج کاسیاسی کردارختم ہوکررہ گیا۔ اردگان کواداروں کی تشکیل نوکے ذریعے اقتدارمستحکم کرنے کاموقع مل گیاجس کے بعد اردگان رفتہ رفتہ تمام طاقت کا سرچشمہ بن گئے،2017میں ریفرنڈم کے ذریعہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام نافذکردیاگیا۔اپنے فوجی اورسیاسی مخالفین کی آواز دبانے کے دوران اردگان خارجہ پالیسی کو نئی شکل بھی دے رہے ہیں۔اس کاپہلامظاہرہ 2009 میں دیکھنے کوملا،جب اردگان نے ورلڈ اکنامک فورم کے پینل ڈسکشن کے دوران اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریزکی سخت ملامت کی اورغصے میں اسٹیج سے اٹھ کرچلے گئے،اگلے برس اردگان نے برازیل کے ساتھ مل کرایران کے ساتھ جوہری پروگرام پرمعاہدہ کرنے کی کوشش کی،جس پراس وقت اوبامانے سخت غصے کااظہارکیا، کیونکہ وہ ایران پرنئی پابندیاں لگاناچاہتے تھے۔اگلے برس اردگان نے ترکی کوصدربشارالاسدکے خلاف جہادیوں کی حمایت میں شام کی خانہ جنگی میں پھنسادیا۔داعش کے خلاف جنگ میں ترکی اورامریکاکے درمیان اختلاف رہے،کیوںکہ اردگان نے اوباما کی جانب سے عسکریت پسندوں سے لڑنے کی درخواست کوردکردیا تھا،جبکہ اردگان نے گزشتہ سال شمال مشرقی شام میں کردفوج پرحملہ کردیا،اسی کرد فوج نے امریکاکے ساتھ مل کرداعش کے خلاف جنگ کی تھی۔اب اردگان بہت تیزی کے ساتھ اپنی پالیسیاں بدلنے لگے ہیں۔لیبیامیں ترک ڈرونزاورفوجی مشیران،انقرہ کے حمایت یافتہ ہزاروں شامی جنگجوں نے طرابلس حکومت کو بچانے میں اہم کرداراداکیا۔جس کے بعدترکی آذربائیجان کی جانب سے نگورنو
کا راباخ پرقبضے کی منصوبہ بندی اورمددکرنے میں شامل تھا۔بالکل اسی طرح جیسے لیبیامیں سب کچھ ہوا۔ترکی کے ڈرونزاورشام سے لائے گئے جنگجوں نے آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین نگورنوکاراباخ پرلڑائی میں اہم کرداراداکیا۔
مشرقی بحیرہ روم میں اردگان نے وسائل کی تلاش میں یونان اورقبرص کے اکنامک زونزمیں ترک بحریہ کے تحقیقی جہازبھیج کر ان کی خودمختاری کوچیلنج کیا۔یہاں تک کہ اردگان کو یورپی دباؤپرپابندیوں سے بچنے کیلئے یونان کے ساتھ مذاکرات کی حامی تو بھری لیکن انہوں نے مغربی اتفاق رائے کوردکرتے ہوئے بحیرہ ایجیئن میں تحقیقی جہازوں کی واپسی کاحکم دے کرجارحانہ حکمت عملی اختیارکی۔اپنی دشمنی کی تاریخ کے باوجوداردگان نے فرض کرلیاکہ نیٹوکے دیگرممبران بحران کے خاتمے کی کوششیں کریں گے اوراس دوران وہ بحیرہ روم میں اپنی پوزیشن کومستحکم بناکرموجودہ صورتحال کوتبدیل کردیں گے۔ان تمام معاملات میں اردگان کوترکی کے اندربھرپورحمایت حاصل ہے،وہ ترک قوم پرستی کوفروغ دے کر اپوزیشن کوبے اثرکرنے میں کامیاب رہے،مقامی میڈیابڑے پیمانے پران کی کامیابیوں کی تعریف کرتاہے،ترکی میں ایک بارپھرطاقتوربن کرابھرنے کابیانیہ پھیل چکاہے۔ترک حکومت ویڈیوزبناکرعثمانی سلطنت کے دورکی یادتازہ کررہی ہے۔
اردگان کی خارجہ پالیسی کاسب سے حیرت انگیز موڑامریکااورنیٹوکی زبردست مخالفت کے باوجودروس سے ایس400اینٹی ایئر کرافٹ میزائل خریدناتھا،نیٹواورامریکانے باربار متنبہ کیاکہ اس خریداری سے روسی ٹیکنیشن کوامریکی ساختہ ایف35جنگی طیاروں کی جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوجائے گی۔ پینٹاگون اورکانگریس نے باربارکہاکہ ترکی ایف35طیاروں تک رسائی اورکثیرالقومی کنسورشیم میں اپنی جگہ کھودے گالیکن پھربھی اردگان نے ڈھائی ارب ڈالرکے میزائل نظام کی خریداری کی اور ایف35پروگرام سے آئندہ ہونے والی اربوں کی آمدنی چھوڑدی جبکہ ایس400نظام ابھی فعال نہیں ہوسکاہے۔حال ہی میں ترکی نے پہلی بارمیزائل سسٹم کاتجربہ کرکے کھلے عام واشنگٹن کوچیلنج کیا اور امریکی پابندیوں کاخطرہ مول لیا۔ایس400کی خریداری نے اردگان کے طرزِعمل کوکھول کررکھ دیا،وہ اپنے ایجنڈے کوآگے بڑھانے کیلئیخطرہ مول لیتے ہیں،نیٹو میں ترکی کے اہم کردار کی وجہ سے مقابل فریق بھی انتہائی قدم اٹھانے سے گریزکرتاہے۔اسی لیے اردگان اب تک کامیاب ہیں۔دوسری جانب اردگان کو ترک میڈیااپنے قومی مفادات کیلئے لڑنے والے رہنماکے طورپرپیش کرتاہے۔اس وقت جب ترک معیشت بدانتظامی اورکروناکی وبا کی وجہ سے شدیدمشکلات کاشکارہے،اردگان کواپنی بقایقینی بنانے کانیاموقع مل گیاہے۔ترکی کی خارجہ پالیسی کومقامی سیاست کیلئے استعمال کرناغلط ہے۔
اردگان ضرورت پڑنے پرحساب کتاب اوربہترطورپرکام کرتے ہیں لیکن مغربی رہنماؤں کیلئے مسئلہ بنے ہوئے ہیں،اگرمغربی پابندیاں اوررکاوٹیں ان کوسمجھوتہ کرنے پرمجبورکرتی ہیں تووہ کوئی نیامحاذکھول لیتے ہیں،وہ ہمیشہ لڑائی میں ایک قدم آگے رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔حریفوں اوراتحادیوں کوپیچھے رہنے پرمجبورکردیتے ہیں۔

Comments are closed.