مرحوم شوہر کی جائیداد پر سسرال والوں کا دعوی

تحریر: مفتی محمد اشرف قاسمی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے با رے میں کہ:
میں مسماۃ صفیہ بانو بنت عبد السلام قریشی کا نکاح 25/ستمبر 2016ء کو اصفر کمال خان (Ashfar kamal khan) ابن مرحوم عبد العزیز خاں سے ہوشنگ آ باد میں ہوا تھا۔ شادی کے ایک سال بعد مجھ سے دو بیٹیاں جُڑواں پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد جب میں حاملہ ہوئی اور حمل پر سات ماہ گذرے تھے کہ 22/ نومبر 2018ء کومیرے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ پھرعدت میں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ پھر ڈیڑھ سال بعد میری ساس کاانتقال ہوگیا۔
1۔ مرحوم شوہر نے اپنی حیات میں دو منزلہ مکان بنایا تھا۔ اور خود ان کی سرکاری سروس تھی۔ میرے بچوں کی پرورش کے لیے شوہر کے پیسے مجھے ملے۔ اور اپنے شوہر کے بنائے ہوئے گھرمیں دائرہ شریعت میں رہ کر زندگی گذار رہی ہوں۔
2 ۔ میں اپنے شوہر کے گھر میں رہ کراپنے بچوں کی پرورش کرنا چاہتی ہوں اور دوسرا نکاح نہیں کرنا چاہتی۔ مگر ہمارے سسرال والوں کا مجھ پر دباؤ آ رہا ہے کہ دوسرا نکاح کرو اور بچوں کو ہمارے پاس چھوڑ دو۔ اور 1/12 حصہ لو اور جاؤ۔ گھر پر بھی تمہارا کوئی حق نہیں ہے۔
3 ۔ہماری ایک بیٹی کو ہماری نند نے رکھ لیا تھا، اب وہ دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اور مجھے اپنی بیٹی چاہیے۔
4 ۔ اس کے علاوہ میری سسرال والے میرے مرحوم شوہر کی جائیداد میں سے مرحومہ ساس کا 1/6 حصہ مانگ رہے ہیں۔
5 ۔ میرے شوہر نے مکان بناتے وقت میری مرحومہ ساس سے ساٹھ ہزار روپے قرض لیے تھے، یہ صحیح ہے۔ مگر میر ی نند کہہ رہی ہیں کہ میں نے ساڑھے تین لاکھ روپیے مکان میں لگائے تھے، جس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ شوہر کی حیات میں معلوم کرنے پر شوہر ساٹھ ہزار کا ہی بتلاتے تھے۔ باقی اس کے علاوہ جھوٹ پر مبنی باتیں وہ بتلارہے تھے۔
6 ۔ میری نند کہہ رہی ہے کہ ہماری بندش میں تمہیں زندگی گذارنی پڑے گی جب کہ میں حتی الا مکان شریعت پر عمل کررہی ہوں اور وہ شریعت کی بالکل پابند نہیں ہیں۔
7۔دریافت طلب یہ ہے کہ میرے شوہر کی جا ئیداد میں ہماری دو بیٹیوں اور بیٹے اور مرحوم کی اہلیہ کا کیا حصہ بنے گا؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں۔ فقط والسلام
صفیہ بانو، بالا گنج
(ہوشنگ آباد، ایم پی)
الجواب حامدا ومصلیا ومسلما امابعد
(الف) آپ کے شوہر کے انتقال کے بعد ان کے متروکہ جائیداد سے اولاً ان کا قرض ادا کریں گے۔ آپ کے بیان کے مطابق شوہر نے اپنی والدہ سے ساٹھ ہزار روپیے قرض لیے تھے، اس لیے شوہر کی جائیداد سے ساٹھ ہزار روپیے قرض ادا کرنا ضروری ہے، اس وقت چوں کہ شوہر کی ماں یعنی صفیہ بانو کی ساس کا انتقال ہوچکا ہے تو ساس کی اولاد یعنی صفیہ بانو کے جیٹھ، دیور، نند کے درمیان شرعی ضابطے کے مطابق یعنی لڑکی کے مقابل لڑکے کو دو گنا حصوں کے لحاظ سے وہ ساٹھ ہزار تقسیم ہوں گے۔(1) اس قرض کی رقم میں بہو صفیہ بانو اور پوتی پوتے کا حصہ نہیں ہے۔ (2)
(ب) نند کا یہ کہنا کہ: ”مکان کی تعمیر میں میں نے ساڑھے تین لاکھ روپیہ لگایا ہے، اس لیے مکان پر مجھے حقِ ملکیت حاصل ہے۔“شرعی لحاظ سے ان کا یہ دعوئے ملکیت درست نہیں ہے؛ کیوں کہ شوہر کی زندگی میں نند نے اس مکان پر اپنی ملکیت کا دعوی نہیں کیاتھا اور نہ ان کے دعوی پر کوئی شہادت موجود ہے اور قرائن قویہ اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ مکان شوہر کی ملکیت وتصرف میں تھا۔
البتہ قرض کے بارے میں نند کی بات قابلِ سماعت ہے۔ اس سلسلے میں نند کی ذمہ داری ہے کہ وہ دو نیک مسلمانوں کو بطور شرعی گواہ پیش کریں کہ ان کے سامنے ہم نے اپنے بھائی یعنی صفیہ بانو کے شوہر اصفر کمال (Ashfar kamal) کو ساڑھے تین لاکھ روپیہ بطور قرض دیا تھا۔ اگر دو نیک مسلمان شرعی گواہی دیں کہ ہاں! ہمارے سامنے مکان کی تعمیر کے لیے اصفرکمال (Ashfar kamal) نے ساڑھے تین لاکھ روپیہ قرض لیا ہے۔ تو اصفر مرحوم کی جائیداد سے ساڑھے تین لاکھ روپیہ نند کو دیاجائے گا۔
اگر وہ گواہ نہ پیش کرسکیں، تو پھر صفیہ بانو اللہ کی قسم لیں گی کہ:”ہمارے شوہر نے اپنی بہن یعنی صفیہ کی نند سے قرض لینے سے انکار کیا تھا۔“ اگرصفیہ بانو قسم اٹھا لیتی ہیں۔ تو نند کا دعوی رد ہوجائے گا اور انہیں قرض کے نام سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔ (3)
چوں کہ بظاہر نند کا دعوی درست نہیں ہے، اس لیے اصفرکمال مرحوم کی جائیداد سے ماں کا ساٹھ ہزار روپیہ قرض ادا کرنے کے بعد دیکھیں گے کہ انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہے یا نہیں؟ اگر کی ہے، تو اصفر کمال (Ashfar kamal) کی جائیداد کے ایک تہائی سے وصیت پوری کرنے کے بعد باقی ماندہ متروکہ جائیداد کو 96 حصوں میں تقسیم کریں گے۔
چھٹا یعنی 16 حصے ماں کو،(4)۔ بیوی صفیہ بانو کو آٹھواں یعنی 12حصے،(5)۔ دونوں لڑکیوں کو ایک ایک تہائی یعنی 17- 17 حصے اور دوتہائی کے حساب سے لڑکے کو 34 حصے ملیں گے۔ (6)
شوہر کے انتقال کے وقت حاملہ خاتون کے بطن میں پلنے والا جنین اگر زندہ پیدا ہو تو وہ بھی کی میراث کاحقدار ہوتا ہے۔(7)
(ج) عام حالات میں سات سال تک کی عمر کے بچوں کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہے۔(8)
اگر ماں نہ ہو تو نانی کو حاصل ہے۔ ماں یا نانی نہ ہو تو نانا پھر ماموں پھر خالہ پھر خالو حقدار ہوتے ہیں۔(9)
اس لیے صفیہ بانو کی سسرال والوں کا مطالبہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ ماں کی مرضی کے خلاف ایک بچی کو نند نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے، وہ بھی غلط ہے۔
(د) مرد کے لیے بیوی اور عورت کے لیے شوہر عظیم نعمت ہیں۔ شوہر کے انتقال کے بعد عورت کا دوسری شادی کرنا معیوب نہیں؛ بلکہ پسندیدہ و محمود ہے۔ اس لیے آپ اپنی دوسری شادی نہ کرنے کے ارادے کو ترک کردیں، اور مناسب رشتہ ملے تو ہر ممکن کوشش کرکے دوسری شادی کرلیں۔ اس سلسلے میں حضرت ابو سلمہ اور ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنھما کی زندگی میں آپ جیسی بیوہ خواتین کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے۔ سطور ذیل میں ان دونوں کے تعلق سے مروی روایات کے کچھ اہم اقتباسات اور دعا کونقل کیا جاتا ہے۔ آپ اس دعا کا اہتمام کریں اور مناسب رشتہ ملنے کی صورت میں دوسری شادی کرلیں تو بہتر ہے۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور آپ کے شوہر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ دونوں مثالی میاں بیوی تھے۔ ایک دن سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر سے عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ اگر مرد اور عورت دونوں جنتی ہوں اور عورت مرد کے بعد کسی سے نکاح نہ کرے تو وہ عورت جنت میں اسی مرد کو ملے گی۔ اسی طرح مرد اگر دوسری عورت سے نکاح نہ کرے تو وہی عورت اسے ملے گی؛ اس لیے آؤ ہم عہد کریں کہ ہم میں سے جو پہلے اس دنیا سے چلا جائے بعد والا دوسرا نکاح نہ کرے۔ یہ سُن کر حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”کیا تم میرا کہا مان لو گی؟”آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:”ماننے کے لیے ہی مشورہ کر رہی ہوں۔“حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: ”تم میرے بعد نکاح کر لینا۔“(10)
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنھا خود فرماتی ہیں کہ: ایک دن حضرت ابو سلمہ رضی اللہ تعالی عنہ بارگاہِ رسالت سے واپس لوٹے اور فرمانے لگے کہ میں نے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم سے ایک فرمان سنا ہے جس نے مجھے بے حد خوش کردیا ہے، میرے محبوب آقا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے فرمایاہے:”تم میں سے کسی کو مصیبت پہنچے تو اسے چاہیے کہ وہ اِسْتِرجَاع (یعنی اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ ’ہم اللہ کے لیے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف لَوٹنا ہے‘) کہے پھر کہے: اَللّٰھُمَّ اٰجُرْنِی فِی مُصِیْبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِّنْھا (’اے اللہ! مجھے میری مصیبت پر اجر عطا فرما اور اس سے بہتر بدلہ عطا فرما۔‘) تو اس دعا کے سبب اُسے بہتر بدلہ دیا جاتا ہے۔“ حضرت سیّدتنا اُمِّ سلَمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس دُعا کو یاد کرلیا۔(11)
آپ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں کہ جب حضرت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں یہ دعا پڑھتی اوردل میں کہتی کہ ابوسلَمہ رضیَ اللہُ عنہ سے بہتر مسلمان کون ہوگا؟ کیوں کہ انہوں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی طرف اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سب سے پہلے ہجرت کی تھی۔ پھر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی صورت میں مجھے ان سے بہتر بدلہ عطا فرمایا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے میری طرف نکاح کا پیغام بھیج دیا۔(12)
یوں حضرت سیّدتنا اُمِّ سلَمہ رضی اللہ عنہا پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے نکاح میں آگئیں۔ اس لیے آ پ اس دعا کا اہتمام کرتی رہیں، ان شاء اللہ!اللہ کی نصرت اور مدد آپ کو بھی حاصل ہوگی۔
مختصر یہ ہے کہ
1۔ حکومت کی طرف سے چوں کہ آ پ کو امداد مل ہے؛ اس لیے اس میں آ پ کی اجازت کے بغیر آپ کے علاوہ کوئی دوسرا تصرف کا حقدار نہیں ہے۔ آپ اس پیسے کو خود و بچوں کی پرورش میں استعمال کرنے کی مجاز ہیں۔
2۔ قرض وغیر ہ کی ادائیگی کے بعد شوہر کی جائیداد کو 96 حصوں میں تقسیم کریں گے۔سولہ(16) حصے ساس کو ملیں گے۔ وہ سولہ حصے آپ کے دیور، جیٹھ اور نندوں میں تقسیم ہوں گے۔ ساس کا حصہ ادا کرنے کے بعد مابقیہ جائیداد شوہر کی اولاد اور بیوی کے قبضے میں رہی گی۔ آپ کو اپنے شوہر کے مکان سے نکل کر جانے کے لیے سسرال والوں کا دباؤ شرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے۔ البتہ دوسرا نکاح کرلیں تو آپ اور آپ کے بچوں کے لیے بہتر ہے۔
3۔ اپنی بچی کی پرورش کی آپ زیادہ حقدار ہیں۔ آپ کی مرضی کے خلاف آپ کی ایک بچی کو نند کا اپنے پاس رکھ لینے کا حق نہیں ہے۔
4۔ سسرال والوں کا مطالبہ جائز ہے؛ کیوں کہ ساس بھی اپنے بیٹے کی میراث کی حقدار ہیں۔ لہذا مرحوم شوہر کی میراث میں نمبر 2/میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق مرحومہ ساس کا حصہ دینا ضروری ہے۔اس کی صورت یہ ہے کہ اتنے حصے کی قیمت ادا کی جائے۔ اگر آپ قیمت ادا کردیتی ہیں تو آپ اور آپ کے بچے پورے مکان کے مالک ہوں گے۔
5۔ ساس کا ساٹھ ہزار روپیہ قرض شوہر کے ذمہ تھا، جس کا اقرار ہے، تو شوہر کی متروکہ جائیداد سے ساٹھ ہزار روپیہ ساس کو ادا کریں۔ اس ساٹھ ہزار میں آپ اور آپ کے بچے حقدار نہیں ہوں گے؛ بلکہ آپ کے دیور، جیٹھ، نندیں حقدار ہیں۔ اس کی تقسیم نمبر دو میں بیان کردہ تفصیل کے مطابق ہوگی۔ نند کی طرف سے تین لاکھ قرض کا دعوی ظاہری قرائن کے خلاف ہے۔ وہ دعویٰ محتاجِ دلیل ہونے کی وجہ سے سرسری طور پر ناقابل مسموع ہے۔ شرعی شہادت وغیرہ پیش کرنے کی صورت میں ہی ان کا دعوی قابل سماعت ہوگا۔
6۔ نند کا مطالبہ غلط ہے۔ اپنی بیوہ بھابی پر حکومت کرنے کی فکر میں اپنا گھر اور اپنی خوشی کو تباہ کرنے کے بجائے انہیں اپنے شوہر وبچوں کے گھر میں خوش رہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
7۔ تقسیم جائیداد کی تفصیل ”ب“ کے ذیل میں بیان کردی گئی ہے۔
(1،4،5،6،) یُوصِیکُمُ اللَّہُ فِی أَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَیَیْنِ، فَإِن کُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَإِن کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ وَلِأَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ إِن کَانَ لَہُ وَلَدٌ فَإِن لَّمْ یَکُن لَّہُ وَلَدٌ وَوَرِثَہُ أَبَوَاہُ فَلِأُمِّہِ الثُّلُثُ، فَإِن کَانَ لَہُ إِخْوَۃٌ فَلِأُمِّہِ السُّدُسُ، مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِی بِھَا أَوْ دَیْنٍ (سورۃ النساء: 11)
(2) لِلرِّجَالِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَکَ لْوَٰلِدَانِ وَلْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِیبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَٰلِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ ا نَصِیبًا مَّفْرُوضًا (النساء آیت: 7)
(3) قال رسو ل اللہ ﷺالبینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر۔ (الترمذی ج 1ص249/ رقم الحدیث1356/ السنن الکبری للبیھقی، الدعوی ج ص رقم الحدیث21807/)
(7) لَا یَرِثُ الصَّبِیُّ حَتَّی یَسْتَھِلَّ صَارِخًا۔(سنن ابن ماجہ، رقم 2751/واسنادہ حسن)
(8) حَدَّثَنِی عَمْرُو بْنُ شُعَیْبٍ، عَنْ أَبِیہِ،عَنْ جَدِّہِ عَبْدِ اللَّہِ بْنِ عَمْرٍو،أَنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، إِنَّ ابْنِی ھَذَا کَانَ بَطْنِی لَہُ وِعَاءً وَثَدْیِی لَہُ سِقَاءً وَحِجْرِی لَہُ حِوَاءً،وَإِنَّ أَبَاہُ طَلَّقَنِی وَأَرَادَ أَنْ یَنْتَزِعَہُ مِنِّی،فَقَالَ لَھَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنْتِ أَحَقُّ بِہِ مَا لَمْ تَنْکِحِی۔(ابوداود”2276/)
وأما بیان من لہ الحضانۃ فالحضانۃ تکون للنساء فی وقت وتکون للرجال فی وقت، والأصل فیھا النساء لأنھن أشفق وأرفق وأھدی إلی تربیۃ الصغار، ثم تصرف إلی الرجال لأنھم علی الحمایۃ والصیانۃ وإقامۃ مصالح الصغارأقدر۔(بدائع الصنائع ج3: ص456 مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند۔)
(9) واذلم یکن للحاضن احد ممن ذکر انتقلت الحضانۃ لذوی الارحام فی احد الوجھین وھو الاولیٰ، لان لھم رحماً وقرابۃً یرثون بھا عند عدم من ھو اولیٰ، فیقدم ابوأم، ثم امھاتہ، ثم اخ من أم، ثم خال۔(الموسوعۃ الفقھیۃ ج17/ص 305/)
(10)مسنداحمد،ج5،ص505/
(11)معارف الحدیث جلد 8/ص713/بحوالہ طبقات ابن سعد
(12) مسلم، ص356، حدیث: 2126 ملخصاً۔عَنْ عُمَرَ بْنِ کَثِیرِ بْنِ أَفْلَحَ عَنْ ابْنِ سَفِینَۃَ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ أَنَّھَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِیبُہُ مُصِیبَۃٌ فَیَقُولُ مَا أَمَرَہُ اللَّہُ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَأَخْلِفْ لِی خَیْرًا مِنْھَا إِلَّا أَخْلَفَ اللَّہُ لَہُ خَیْرًا مِنْھَا قَالَتْ فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَۃَ قُلْتُ أَیُّ الْمُسْلِمِینَ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ أَوَّلُ بَیْتٍ ھاجَرَ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ إِنِّی قُلْتُھَا فَأَخْلَفَ اللَّہُ لِی رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَرْسَلَ إِلَیَّ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَاطِبَ بْنَ أَبِی بَلْتَعَۃَ یَخْطُبُنِی لَہُ فَقُلْتُ إِنَّ لِی بِنْتًا وَأَنَا غَیُورٌ فَقَالَ أَمَّا ابْنَتُھَا فَنَدْعُو اللَّہَ أَنْ یُغْنِیَھَا عَنْھا وَأَدْعُو اللَّہَ أَنْ یَذْھَبَ بِالْغَیْرَۃِ(مسلم رقم الحدیث 2126)
فقط واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: (مفتی) محمد اشرف قاسمی
خادم الافتاء شہر مہدپور ضلع اجین، ایم پی
12جمادی الثانی1442ھ
26 جنوری 2021ء
ashrafgondwi@gmail.com
تصدیق:
مفتی محمد سلمان ناگوری
ترتیب: مفتی محمد توصیف صدیقی
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور، اجین ایم پی)
Comments are closed.