وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے؟!

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی
عربی لیکچرارومدیر رابطہ خیر امت انڈیا
8801589585
بڑے افسوس کی بات ہے کہ متعددبلاؤں اور آفتوں کے باوجو د بھی ہم اپنی پرانی روش سے باز نہیں آئے ہیں،کورونا وائرس کی خطرناکیوں اورلاک ڈاؤن اورہندومسلم تنازع کی وجہ سے ملک پرجو برے اثرات مرتب ہوئے ہیں،ملک کی معیشت بدحالی سے دوچارہو گئی ہے، غربت و افلاس کی انتہا نہیں رہ گئی ہے، تعلیم وتربیت کے نقصانات کی وجہ سے ہر گھر اور ہر فرد پریشان ہے، مدارس و مساجد کے تتربتر حالات کی وجہ سے علما ودانشوران ملت بھی پریشان ہو گئے ہیں بلکہ پوری انسانیت کی حالت تشویشناک ہو گئی ہے،کسانوں کے مطالبات پر حکومت کی سرد مہری والی پالیسی قابل تعجب ہے، وادی گلوان میں ہمسایہ ملک چین اور نیپال کی فوجی دہشت گردی اورچندماہ قبل چین کے ہاتھوں ہمارے ۰۲/فوجی کے سینوں کو جھلنی اور متعدد فوجیوں کو زخمی کردینے کے دلخراش واقعا ت سے بھی ہم اور ہمارا ملک ہندوستان متاثر ہوا ہے!!وہیں ہم اپنے عالمی اتحاد و اتفاق، اخوت و مودت اور یکجہتی و بھائی چارے کا مظاہرہ کرنے کے بجائے ہندو مسلم بھید بھاؤ اور نفرت و عداوت کا شیوہ اختیار کئے ہوئے ہیں،مسجد کو مندراور مسلم کو ہندوبنانے کے چکر میں پھنس کر اپنے خالق کوناراض کرتے جارہے ہیں، دنیاوی بلاؤں اور آفتوں کو دور کرنے کی اہم کنجی اورشخصی گناہوں سے بخشائش کا ذریعہ تلاش کرنے کے بجائے ہم اپنے سیاسی مفادات کے حصول میں لگے ہوئے ہیں اور اسطرح اپنی قابل تعریف اجتماعیت ویکجہتی کومعمولی فائدے کے لیے فروخت کررہے ہیں اور افضل و اعلی چیزوں کو ادنی و گھٹیا چیزوں کے لیے قربان کرتے چلے جارہے ہیں۔
سچی بات یہی ہے کہ ہم حالات وواقعات سے سبق حاصل کرنے کے بجائے مظالم و جرائم اور حق تلفی و عداوت کے کاموں میں ملوث ہوگئے ہیں،مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور امت مسلمہ کی سچی تصویریں پیش کرنے کے بجائے اسے بگاڑ کر پیش کررہے ہیں، کبھی خواجہ اجمیر ی کو لٹیرا چشتی کہہ کر ہنگامہ کھڑا کررہے ہیں تو کبھی دستور مخالف قوانین سے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنا چاہ رہے ہیں حتی کہ ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلندکرنے والوں کو گرفتار کرکے انکو سلاخوں کے پیچھے دھکیل رہے ہیں اور سال گذشتہ دہلی میں ہوئے ہندو مسلم فساد کا موردِ الزام نہتھے اور بے قصور مسلمانوں کو ہی ٹھہراکر اپنے رب کو مزید غضبناک بناتے جا رہے ہیں؟!
افسوس صد افسوس کہ فرقہ پرست عناصر بشمول گودی میڈیا اس بات کی ہرممکن کوشش کر رہی ہے کہ مسلمانوں کو خیر امت اور خیر خواہ انسانیت کے خطاب کے بجائے کیسے انہیں کیسے قاتل اورظالم شمار کرایا جائے؟ صلح پسند اور محبت کے پیامبر کے بجائے کیسے انہیں جنگ جو اور لڑاکوثابت کیا جائے؟ امن کے داعی اورعدل وانصاف کے پیکر کے بجائے کیسے انہیں شدت پسنداور سخت گیر کے عنوان سے پوری دنیا میں متعارف کرایا جائے؟ تمام دشمنان اسلام بشمول یہودی لابی اس بات کیلئے ایک پلیٹ فارم پرمتحد اور جمع ہیں کہ کیسے اسلام اور مسلمانوں کوہر اعتبار سے کمزور بنا یا جائے؟کیسے انکی نسل،آبادی اور انکی تہذیب کو پھلنے اور پھولنے سے روکا جائے؟کیسے علم و ہنر اور حکمت وقیادت کے میدان میں انہیں ترقی سے پیچھے کیا جائے؟ بلکہ بعض شدت پسند تنظیم یہاں تک چاہتی ہے کہ کیسے اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے ہی مٹادیا جائے؟جس کے لئے بے شمار سازشیں ہورہی ہیں!! مگر جن کو خدا رکھے انکو کون چکھے!!کیونکہ
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز!!!!! چراغ مصطفوی سے شرار بو لہبی
اسوقت خودہمارے وطن عزیز یعنی ملک ہندوستان میں اقلیتوں خصوصا ًمسلمانوں کے خلاف بھید بھاؤ اورنفرت وعداوت کا جوماحول عروج پر ہے، بلکہ اسکی فضا کومکدر بنانے کی جو سیاسی و سماجی کوششیں کی جارہی ہیں،فرقہ پرست پارٹیوں اورشر پسند تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی کا جو طویل سلسلہ کھول رکھا ہے،گویا کہ یہی انکااصلی ایجنڈہ ہو! خواہ ملک کی معیشت برباد ہی کیوں نہ ہو جائے! لوگ بیماری،کورونا وبا اور بھوک و پیاس سے کیوں نہ مر جائیں!چین اور نیپال نے ہماری زمینوں پر ناجائزقبضہ ہی کیوں نہ کرلیا ہو!!یہ سب مدعے انکے نزدیک کوئی معنی اور اہمیت نہیں رکھتے! بس ہندو مسلم ہی انکے نزدیک اہم مدعا ہے،ستم بالائے ستم یہ کہ مرکزی سطح سے بھی وہ گنگاجمنی تہذیب کو مٹانے کی مختلف کوششیں کررہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف روز آنہ کہیں نہ کہیں ناگفتہ بہ واقعات پر واقعات پیش آرہے ہیں،مسلم عورتوں کے ساتھ انصاف کے بہانے تین طلاق کا غیر شرعی قانون مسلم عورتوں سے ہمدردی کے نام پربنایا گیا،مگراسکے بعد کتنی عورتوں کی عزت سے کھلواڑ ہوا! کتنوں کو بیوہ بنا دیا گیا! کتنوں کو اولاد سے محروم کردیا گیا! ابھی بھی مسلم خواتین کی آوازنہیں سنی جارہی ہے!جبکہ مسلمان مروو عورت سنگین حالات سے دوچار ہیں، کیا یہی مسلمان عورتوں سے ہمدردی ہے کہ انکے دستوری مطالبات بھی تسلیم نہ کئے جائیں! آخریہ کیسی ہمدردی ہے یا ہمدردی کے نام پر ان سے کھلواڑ ہے؟
اقلیتوں کی بابری مسجد کی جگہ رام مندرکو قانونی اور عدالتی حیثیت دے دی گئی! شرپسندوں کے حوصلے مزیدبلند ہوگئے، اب گیان واپی۔متھرا عیدگاہ و مسجد کے مسائل کو پھر سے سلگائے جارہے ہیں،بلکہ سپرم کورٹ میں اسکی پیروی وکوشش بھی جاری و ساری ہے،یہانتک کہ مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کے ہتھکنڈے بھی اپنائے جارہے ہیں،ان کی ضمیر اور روح کے خلاف ہرطرح کی ناپاک کوشش ہورہی ہے۔ مندر۔مسجد کاجھگڑا، قتل وغارت گری، حق تلفی و ناانصافی اور ظلم و ستم کو روارکھنے کے لیے میڈیا، عدالت، حکومت اور آئین کا سہارابھی لیا جارہا ہے، انکی شریعت و عبادت، رسم و رواج اور کھانے پینے کی اشیاء پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں! اس کے لیے عدالتوں اور ججوں کا سہارا لیا جارہا ہے! آخرکسی مخصوص طبقہ کیساتھ ایسامتضادرویہ اور کھلواڑکب تک ہوتا رہے گا؟اور کب تک مسلمان خاموش بیٹھے رہیں گے؟یہ خاموش مزاجی تجھے جینے نہیں دے گی!!
حد تو یہ ہے کہ ظلم کے خلاف صدائے حق بلند کرنے والوں پر بھی طرح طرح کے مقدمات لادے جارہے ہیں اور ہندو راشٹریہ کے قیام کے لئے رکاوٹ بننے والوں پر ظلم و ستم ہورہا ہے! اسکے لیے ہرممکن ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں اور تمام جرائم و مظالم کو جائزو روا سمجھا جارہا ہے اورہندوراشٹریہ کے راستوں کی تمام رکاوٹوں کویکے بعد دیگرے ہٹایا جارہا ہے! مسلمانوں،کسانوں اورمظلوموں کے حقوق غصب کئے جارہے ہیں،پر امن مظاہرے کی قیادت کرنے والوں کو یا تو گرفتار کیا جارہا ہے یا ان پر مقدمات کے سنگین دفعات لگا کر انکی زبان و قلم کوہی خاموش بنا یا جارہا ہے، کیسی کیسی ناپاک کوششیں ہیں جو اسوقت ہمارے ملک میں مصیبتوں اور آفتوں کے دور میں ہورہی ہیں؟ انسان تو انسان جانور بھی شرماجائے!!بس مقصد یہی ہے کہ کیسے یہاں جمہوریت کے نظام کے بجائے ہندو راشٹریہ کے لئے مکمل راہ ہموار ہو جا ئے!!اسکے لیے نئے نئے قوانین کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی شہریت ترمیم ایکٹ کے نام پر وضع کئے جارہے ہیں، اس کے خلاف بولنے والوں کوکھلے عام غدار وطن کہہ کر گولی مارو۔۔ والے نعرے،بھید بھاؤ اورنفرت و عداوت والی سازشوں سے دوچارکیا جارہا ہے، یہاں تک کہ ہندومسلم فساد کی آگ سلگانے کے لئے مافیاؤں کو میدان میں اتارا جارہا ہے۔جنکی وجہ سے دہلی، یوپی اور گجرات جیسے شہروں میں مسلم کش فسادات رونما ہوئے۔اور لاکھوں کروڑوں کی ہندوستانی ملکیت کا خود کم عقل و کم فہم برادران وطن یعنی شر پسندوں کے ہاتھوں نقصان ہوا!مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہی کہیے کہ مار کھا کر بھی وہی بدنام ٹھہرائے گئے، جسکی لاٹھی اسکی بھینس کی کہاوت بھی سچی ثابت ہوئی!! ظلم و فساد اور خون کی ہولی کا پورا الزام انہیں نہتھے مظلوم مسلمانوں کی عزت و آبرو، جان ومال اور دولت و ثروت لوٹنے اور جلانے کے باوجود بھی انہیں مسلمانوں کے سر پر ڈال کرظالم اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر مسکرارہاہے۔مگر یہ بات ہمیشہ یاد رکھیے کہ! ظلم آخر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!!! خون آخر خون ہے گرتا ہے توجم جاتا ہے۔
ان تمام غیر دستوری قوانین و کارروائیوں کے خلاف ملک میں اگر کہیں مظلوم پرامن احتجاجات ومظاہرے پر اتر آئیں، توانکو بھی اس بات کی اجازت نہیں دی جارہی ہے! بلکہ اس پرامن احتجاج کو ہی غیر دستوری عمل قرار دے کرجرم کی فہرست میں شامل کیا جارہا ہے، اب تو کورونا وبااور لاک ڈاؤن کے عرصے میں بھی سی اے اے کے پر امن مظاہرین کی بے جا گرفتاریاں ہورہی ہیں اوران پر سنگین الزامات ودفعات کے ذریعے انکی زندگیوں کو دوبھربنائی جارہی ہے اوراسطرح مظلوموں کو صدائے حق بلند کرنے کی آزادی کو کچلنے کی کوشش ہورہی ہے اورسیاسی حربوں اورسازشوں کا جال پھیلا کر ظالموں کے حوصلے بلند اور مظلوموں کے عزائم پست کئے جارہے ہیں؟مگر سن لیجئے کہ!اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے!!!!اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کے دباؤگے۔
جب کہ مسلمانوں نے کورونا وبا کی اس آزمائش کی گھڑی میں بے شمار مصائب و تکالیف کے باوجود حکمراں طبقے کے ہر حکم کی تعمیل پر تعمیل کرتے چلے آرہے ہیں، مدرسوں،مسجدوں اور دین وشریعت کی تمام اجتماعی سرگرمیوں کی قربانیاں بھی پیش کرکے اپنی انسانیت اور ملک دوستی کا فریضہ ادا کررہے ہیں،آفتوں کے اس عالم میں بھی بلاامتیازمذہب و ملت پوری انسانیت کی ہر ممکن خیر خواہی کررہے ہیں اور خصوصا مزدور اور کمزور طبقوں کو بھر پور مددفراہم کررہے ہیں، مگر افسوس کہ حکومت انکی ستائش و حوصلہ افزائی کے بجائے انہیں سازشوں کے نرغے میں ڈالتی جا رہی ہے حتی کہ کورونا وباکا براہ راست مسلمانوں پرالزام لگا کر دعوت و تبلیغ،اجتماعی عبادت و ریاضت اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے شاندار فریضے پرہی اپنی سرکاری اور سیاسی تلوار لٹکا رکھی ہے۔ اس سلسلے میں راقم السطور کا تازہ شعرہے کہ۔ نہ توبہ کی جفاؤں سے نہ خالق کا خیال آیا!!!!!! ہزاروں آفتیں لے کر کورونا کا وبال آیا۔
ارباب اقتدار کو یاد رکھنا چاہے کہ ہمارا ضمیر زندہ ہے، ہم آخری دم تک ہر ممکن دستوری جد وجہد کریں گے؟افسوس ہے کہ حکومت کی نیت صاف نہیں ہے، وہ کورونا وبا کے باوجود اپنے کسی بھی عمل اور سازش سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹ رہی ہے، بلکہ اس نے موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی راہیں صاف کر نے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور ہم کو بری طرح سے پارالائز بنا کر اپنے گھر وں میں مقید اور گرفتارکردیا ہے، اور ڈر اور خوف پھیلانے کا ہنوز سلسلہ جاری ہے،نہ توہمارے مدرسے ہی مکمل طور کھل سکے ہیں اور نہ ہی ہماری مسجدیں مکمل محفوظ و سالم ہیں۔مسلمان اپنے سکون واطمینان کو دوسروں کے لئے قربان کر رہے ہیں حتی کہ مسجدوں میں طویل دیر رہ کر اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں اور مناجات مقبول کرنے سے بھی عاجز بنا دیے گئے ہیں۔ عید کا عظیم تہواربھی عظیم طریقے پر منائے جانے سے محروم ہوگیا ہے۔ مسلمان اپنی ہرطرح کی قربانیاں پیش کرتے آرہے ہیں اور اپنے صبر کا بھر پور مظاہرہ پیش کررہے ہیں۔ اس بات سے مخالفین کواس خوش فہمی میں مبتلا نہ رہنا چاہیے کہ مسلمان کمزور پڑ گئے ہیں اور انکے جذبات و احساسات ماند پڑ گئے ہیں۔
ہماری نگاہیں الحمد للہ بلندہیں، ہم سخن ور ہیں اور سخن نواز بھی۔کوئی ہمارے صبر و آزمائش کاہرگز ناجائز فائدہ نہ اٹھائے!!مگرمسلمانو! یہ خاموش مزاجی تجھے جینے نہیں دے گی۔ہمیں اپنی صدائے حق کو بلند کرنے کے لئے کوئی راہ اور شکل تلاش کرنی ہی ہوگی۔ہماری خاموشی ہمیں آخرت کی سرخروئی حاصل کرنے سے بھی روکے ہوئے ہے، جبکہ حکومت کو کوروناوبا نے انکے سیاسی مفادات کے حصول، حکومتوں کے الٹ پھیر، الیکش کی تیاری اور کامپیننگ وغیرہ سے مانع نہیں بنی ہے۔سارے سرکاری دفاتر کھلے ہوئے ہیں، اب تو ہمارے تعلیمی ادارے مکمل پور پر کھلنے چاہیے! مسجدیں کسی کے لیے مقفل نہیں رہنی چاہیے! وغیر ہ وغیرہ۔کیونکہ یہ وبا اگرلاک ڈاؤن سے دفع ہوتی تو کب کے ناختم ہو گئی ہوتی! ہر تجربہ کر کے دیکھ لیا گیا!مگر ایک تجربہ یہ بھی کر لیا جائے کہ حقیقت میں یہ وبا اسی وقت ماند پڑے گی۔جب تک ہم اپنی روش اور رفتار بے ڈھنگی نہ بدل لیں! تمام پاپ اور گناہوں سے توبہ و استغفار نہ کرلیں! ہر طرح کی جفاؤں اور مظالم و جرائم سے باز نہ آجائیں! انسانیت کے حقیقی خیر خواہ نہ بن جائیں! اقلیتوں کو اپنابھائی اورمخلص نہ سمجھنے لگیں!بیہقی کی روایت کا مفہوم ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:کہ”کیا میں تم کو تمہاری بیماری اور اسکا علاج نہ بتادوں؟۔ صحابہ کرام نے عرض کیا۔ضرور بالضرور یا رسول اللہ!جب آپ نے ارشاد فرمایا کہ تمہاری بیماری تمہار گنا ہ و جرم ہے اور تمہارا حقیقی علاج ومعالجہ۔۔اپنے تمام گناہوں اور جرائم سے حقیقی توبہ و استغفار ہے“۔ اللہ ہم سب کو بشمول ارباب اقتدار کے اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔مگر افسوس۔۔۔۔۔
وہی رفتار بے ڈھنگی جو پہلے تھی سو اب بھی ہے؟!
Comments are closed.