بنتِ حوا کی حالتِ زار”

انمول عائشہ انصاری (کراچی)
اے بنت حوا، تم کہاں جارہی ہو تمہیں کس چیز کی آزادی چاہئے غیر مسلم عورتوں کو دیکھ کر تم بھی آزادی حاصل کرنا چاہ رہی ہو۔ لیکن کس سےاور کیوں ؟جب کے سب سے زیادہ حقوق تمہیں اسلام نے دیئے ہیں۔
تم پردے سے آزاد ہونا چاہتی ہو باہر جا کر کام کرنا چاہتی ہو اس کے اثرات معلوم ہیں تمہیں؟ باہر ممالک کی عورتوں کی طرح تم سے پوچھا نہ جائے تمہیں روکا نہ جائے تم گھر میں اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرنا چاہتی۔
گھر میں عزت واحترام سے اپنے پیاروں کے لئے کام کرنے ان کا خیال رکھنے کی بجائے اپنی چار دیواری سے نکل کر اپنا آپ منوانا چاہتی ہو.اپنا نام آخر کونسا کیا تم نہیں جانتی کے ذمہ داریاں چھوڑوگی ماں باپ بھائیوں شوہر کی پناہگاہ سے نکلو گی تو کونسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔کتنی غلط نگاہیں تم پر پڑ ے گی، تم ان عورتوں کی آزادی دیکھ رہی ہو ان کو کامیاب سمجھ کر ان کی راہ اپنانا چاہتی ہو۔
جاؤ پوچھو ان سے انکی اس چکاچوند کی اصل حقیقت کیا ہے، ان کو کس ذلّت کا سامنا کرنا پڑتا ہے انہیں کس طرح استعمال کیا جاتا ہے- جب کی یہاں تم اپنے پیارے رشتوں کے پیچھے محفوظ ہوتی ہو وہ ہر مشکل تم تک پہنچنے سے پہلے ختم کر دیتے ہیں- باہر مشکلات کا سامنا کرکے تمہارے لئے آسانیاں مہیا کرتے ہیں۔
پوچھو ان کے دکھ جب عمر کے آخری حصے میں پہنچنے لگتی ہیں تو ان کو دیکھنے والا بھی کوئی نہیں ہوتا اپنی زندگی کے دن کس طرح اکیلے میں گزارتی ہیں- جب کے ہمارے معاشرے میں زندگی کے سال آگے بڑھتے ہیں ایک مقام بن جاتا ہے- تمھارے ساتھ رشتے ہوتے ہیں تم سے پیار کرنے والے تمھارا مان رکھنے والے سو” اسلام کی شہزادیوں” کسی بات سے منع کرنے کو روک ٹوک نہیں فکر سمجھو،غصے سے بدگمان نہ ہو فکر انکی ہی کی جاتی ہے جن سے محبت ہو۔
ان سے پوچھنا جن کے پاس یہ رشتے نہیں انہیں کس مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تم سن کے ہی کانپ اٹھو گی۔ اس لیے جو مقام اسلام نے دیا ہے اسے پہچانو نہیں تو کس منہ سے اپنے رب کا سامنا کروگی۔سنبھل جاؤ ورنہ دنیا اور آخرت کچھ نہیں بچے گا۔
Comments are closed.