یہ جہاں اور وہ جہاں

از قلم: ارم ناز (کھنڈہ، صوابی)
"اِک یہ جہاں اِک وہ جہاں
اِن دو جہاں کے درمیاں
بس فاصلہ ہے اِک سانس کا
جو چل رہی تو یہ جہاں
جو رک گئی تو وہ جہاں ”
زندگی کسی تیز رفتار ٹرین کی طرح وقت کی پٹری پر دوڑتی جا رہی ہے اور بس دوڑتی ہی چلی جا رہی ہے وہ بھی بنا رکے اور بغیر کوئی جھٹکا کھائے۔
نا جانے یہ تیز رفتار ٹرین کب، کہاں اور کس پلیٹ فارم پے رک جائے گی اور زندگی کی شام ہو جائے گی جس کے بعد اِس جہاں سے ہمارا ناطہ ٹھوٹ جائے گا اور اُس جہاں کا سفر شروع ہو جائے گا جو کہ ابدی اور امر ہے جس کو زوال نہیں۔جس سے آگے کوئی راستہ اور کوئی منزل نہیں وہی جہاں اور وہی زندگی انسان کی اصل جگہ اور اس کی اصل منزل ہے۔
لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اُس جہاں کی زندگی کا دارومدار اِس جہاں کی زندگی پر ہوگا۔یعنی کہ اِس جہاں میں اللّہ تعالیٰ کے احکامات کی بجا آوری کرے گے تو وہاں ثمر پائے گے اور اگر یہاں دنیا کی رنگینیوں کے پیچھے بھاگے گے تو وہاں ذلّت و رسوائی اور جہنّم کی دہکتی ہوئی آگ ہمارا مسکن ہو گی۔
مختصر یہ کہ ہماری اُس جہاں کی زندگی کا اچھا یا برا ہونا اِس جہاں کی زندگی کی اچھائی اور برائی پر منحصر ہے اگر اِس جہاں میں من کو مار کر اللّه تعالیٰ کی خاطر سب کچھ وقف کر دیں گے تو وہاں یعنی اُس ابدی جہاں میں اللّه تعالیٰ ہمیں وہ اجر دے گے کہ ہم راضی ہو جائے گے۔
لیکن شرط یہی ہے کہ ہمیں اِس جہاں کی قربانی دینی ہو گی وگرنہ وہ جہاں ملے گی تو سہی لیکن بہت ہی خوفناک صورت میں ملے گی جس کو دیکھ کر انسان تو انسان جنّات کی بھی چیخیں نکل جائے۔
مانا کہ اِس جہاں کی قربانی مشکل ہے بہت ہی زیادہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔پیغمبرانِ خدا، خلفائے راشدین، صحابہ کرام، تابعین اور بہت سے اولیائے کرام نے بھی اِس جہاں کی قربانی پیش کی تھی جو یقیناً بہت مشکل تھی، راستے کھٹن تھے اور سفر تکالیف سے بھرپور تھا لیکن چونکہ اُن کا مقصد اور اُن کی منزل اِس جہاں میں نہیں بلکہ اُس جہاں میں خوبصورت مقام حاصل کرنا تھا تو اُنہوں نے اپنا سب کچھ تیاگ دیا بغیر پچھتائے اور بنا کسی افسوس کے صرف اور صرف اللّه کی خاطر اور اللّه تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر بغیر کسی نفع و نقصان کا خیال دل میں لائے وہ بس چلتے رہے پُرخار راستوں کو بڑی خندہ پیشانی سے طے کرتے رہے اور آخر کار کامیابی ان کا مقدر بنی اور وہ امر ہوئے اور پا گئے وہ مقام جس کی انہیں تمنا تھی، جس کی خاطر انہوں نے ‘میں’ کو دفنا دیا تھا اور من کو مار کر خود کو خاک کر دیا تھا۔
اُن کی اِس قدر بےلوث قربانیوں کی اللّه نے لاج رکھی اور انہیں ضایع نا ہونے دیا اور عطا کر دی اُنہیں اُس جہاں کی بادشاہی جہاں کی بادشاہت ہی انسان کی اصل کامیابی ہے جس کی خاطر اللّه تعالیٰ کے پیغمبروں، حضور ﷺ کے صحابہ اور صحابہؓ کے تابعین نے اِس جہاں کی بادشاہت اور تخت و تاج ٹھکرا دیے تھے اور جس کو پانے کے لئے وہ عظیم لوگ دشت کے مسافر بنے تھے۔کیونکہ اعلیٰ و عارفہ منازل من اور میں کو مارنے والے لوگوں کے حصّے میں ہی آتی ہیں۔
تو سوچنے والی بات ہے نا یہ کہ آخر ایسی بھی کیا بات ہے اُس جہاں میں جو اللّه کے سارے خاص بندوں نے اِس جہاں کو قربان کر دیا؟؟ کیا وہ لوگ نادان تھے جو اِس جہاں کو اُس اٙن دیکھے جہاں پے وار گئے؟؟
نہیں بلکل بھی نہیں وہ نادان نہ تھے بلکہ وہ دانائی کے اُن بلند میناروں پے کھڑے تھے جہاں تک رسائی حاصل کرنا عام انسان کے بس کی بات نہیں۔وہاں تک پہنچنے کے لئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہے، بہت سے اسرار و رموز کو کھوجنا پڑتا ہے، دشت کی خاک چھانتے ہوئے درویشانہ زندگی اختیار کرنی پڑتی ہے، اللّه تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی قول و عمل سے دینی پڑتی ہے، رسول اللّه صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم کی اطاعت کرتے ہوئے اُن کی سنّت پر کاربند ہونا پڑتا ہے۔اِن سارے معاملات پر عمل کرتے ہوئے جتنی تکالیف، دکھ، درد کا سامنا ہو اُن سب کو خندہ پیشانی سے سہنے اور ثابت قدم رہنا پڑتا ہے، تبھی تو! تبھی تو جا کر عطا کیا جاتا ہے وہ مقام جہاں کھڑے ہو تو خدائے ذوالجلال کی آواز سنائی دیتی ہے، معراج کا سفر عطا کیا جاتا ہے اور وہ سارے معجزات رونما ہوتے ہیں جو پیغمرانِ خدائے لاشریک کے ساتھ رونما ہوئے۔
لیکن جیسا کے پہلے ذکر ہوا نہ کہ یہ سب کچھ ہم جیسے عام اور دنیا پرست انسانوں کے بس سے باہر کی باتیں ہیں۔ہم لوگ تو اِس فانی دنیا کے پجاری ہے۔اِس فانی دنیا کے طلبگار اور اِسی کو چاہنے والے، اسی کی پرستش کرنے والے اور اسی پر مر مٹنے والے اور اسی کی خاطر مارنے والے لوگ ہیں۔ہمیں اِس جہاں کے علاوہ اور کچھ نظر ہی نہیں آتا جس جہاں کا کوئ مستقبل ہی نہیں، ہم نادان لوگ اُسی میں اپنا مستقبل بنانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔
ہم سب ایک ایسے ریس کا حصّہ بنے ہوئے ہیں جس کا آخر میں بس ایک ہی نتیجہ ہے اور وہ ہے اندھی اور گہری کھائی جس میں گرنے کے بعد واپسی کا کوئی امکان نہیں جہاں صرف اور صرف پچھتاويں ہی پچھتاويں ہوں گے۔
آج ہمیں ہوش نہیں ہے کہ ہم آخر جا کس طرف رہے ہیں ہمارا مقصد حیات آخر ہے کیا؟؟ ہم اُس جہاں کی فکر کیوں نہیں کرتے جس کو دوام حاصل ہے جو ہمیشہ رہنے والی ہے جس کا کوئی احتتام ہی نہیں ہے۔آج ہم بھول گئے ہیں کہ ہماری اُس جہاں کی زندگی ہماری اِس جہاں میں گزاری ہوئی زندگی کا نتیجہ ہوں گی۔اگر ہم اِس جہاں میں اللّه تعالیٰ کو راضی کرکے اور حضور ﷺ کی اطاعت کر کے اپنی زندگی کو ایک مقصد دیں گے اور اسے ویسا بنائے گے جیسا کہ اللّه تعالیٰ کو پسند ہے تو ہماری اُس جہاں کی زندگی خوبصورت ہوں گی۔
ہمیں تب ہی اُس جہاں کی نعمتیں اور رحمتیں نصیب ہوں گی جب ہم اِس جہاں میں خود کو اللّه تعالیٰ کی پسندیدہ زندگی کے سانچے میں ڈھال لیں گے۔ہمیں اُس جہاں میں بلند و عارفہ مقام تب ہی نصیب ہو گا جب ہم خود کو اِس جہاں میں اللّه تعالیٰ کے پیارے بندوں کی طرح خاک کر دیں گے۔
"مٹا دیں اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے!
کہ دانا خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے”
یہ بات تو روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ خود کو اللّه تعالیٰ کی خاطر وقف کرنے والوں کو ہمیشہ اعلیٰ و عارفہ مقام ہی نصیب ہوا ہے اور پھر اِس جہاں میں جنّت کی بشارتیں ایسے ہی تو نہیں نہ مل جایا کرتی۔اُس کے لئے اللّه تعالیٰ کے عظیم اور اعلیٰ بندوں جیسی زندگی اپنانی پڑتی ہے۔خود کو اپنے مذہبِ اِسلام کی خاطر، انسانیت اور انسانیت کی معراج کی خاطر خاک اور قربان کرنا پڑتا ہے۔تب ہی تو اللّه تعالیٰ اور رسول ﷺ کے آگے اُن کا پسندیدہ بندہ بن کر پیش ہونے کی حیثیت بنتی ہے وگرنہ اِس خاک کے پُتلے میں بظاہر ایسی تو کوئی خوبی نہیں جس کے بل پر وہ اِس جہاں میں کچھ کئے بغیر ہی اُس جہاں کا معراج حاصل کر سکے۔
تو آج اِس تحریر کے ذریعے میں آپ سب قائرین سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ لوٹ آئے اللّه تعالیٰ کی طرف، اور چھوڑ دیجیے اِس غفلت بھری زندگی کو جس کے نشے میں گم ہو کر آپ سب روز بروز اندھیر نگری کے مسافر بنتے جا رہے ہیں۔ارے میں تو کہتی ہوں دو حرف بھیجئے ایسی زندگی پر جس میں اللّه تعالیٰ کی یاد اور حضور ﷺ کی سنّت اور اطاعت کی روشنی ہی نہیں ہے۔نکل آئے اِس جہاں کی اِس اندھی محبّت سے جس نے آپ کو باندھ کر رکھ لیا ہے اور کسی کٹھ پتلی کی طرح آپ کو اپنی مرضی سے نچا رہی ہے۔ترک کر دیں اِس مادیعت پرستی اور حوس بھری زندگی کو جس میں آپ کو کسی اور کی تو کیا خود اپنی ذات تک کی بھلائی کی فکر نہیں ہے جو آپ کو آپ کے اصل مقصد سے ہٹا کر گمراہی کے راستے پر لیکر جارہی ہے۔خدارا اندھی کھائی میں گرنے سے پہلے سنبھل جائے کہ اس کے بعد سب کچھ ختم ہو جانا ہے۔سنبھل جائے کہ ابھی بھی مہلت ہے۔واپسی کے راستے اور توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، اس کے بند ہونے سے پہلے اُس جہاں کی خوبصورت زندگی کی خاطر خود کو روک لیں اور توبہ کر لیجئے۔اللّه تعالیٰ کی ذاتِ بابرکت نہایت رحیم و کریم اور عفو و درگزر کرنے والی ہے وہ معاف کر دینے میں ذرا بھی وقت نہیں لیتا، وہ معاف کر دے گا۔إنشاءاللّه
تو بس اللّه تعالیٰ کی معافی حاصل کر کے اس کے پیارے اور عظیم بندوں میں شامل ہو جائے۔
ایک بار پھر کہتی ہوں کہ اِن غفلت کے اندھیروں میں اتنے دور نہ نکل جایئے گا کہ آپ واپس تو آنا چاہے لیکن زیادہ دیر ہو جانے کی وجہ سے واپسی کے دروازے ہی بند ہو چکے ہو اور پچھتاوں کے علاوہ کچھ باقی ہی نہ رہا ہو اور یہ تو آپ جانتے ہی ہیں نا کہ دیر ہو جانے والے سزا کے مستحق ہی ٹھرا کرتے ہیں تو بس لوٹ آئے اور فائدہ اٹھائے اس مہلت سے جو ابھی آپ کے پاس ہے اگر آپ اب بھی دیر کرے گے تو پھر بعد میں یہ بات بہت چھبے گی آپ کو کہ؛
”جس کام کو جہاں میں تو آیا تھا اے انساں!
خانہ خراب تجھ سے وہی کام رہ گیا”
والسلام!
Comments are closed.