علماء میوات کی سماجی رہبری کی تحریک کو پختہ کر سیاسی تحریک کی طرف موڑ دیں

ملکی و ریاستی حالات کے تناظر میں قوم کو علماء میوات کی رہبری کو بخوبی سمجھ کر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد صابر قاسمی
گذشتہ روز منعقد ہوئی میوات مہا پنچایت کا کامیاب انعقاد جہاں برسوں سے رٗک رُک پیدا ہونے والے درجنوں سیاسی سوالات کے جوابات دے گئ وہیں خطہ میوات کی قومی رہنمائی کا ایک نیا رخ بھی مہا پنچایت دے گئ ، مجموعی اور قومی طور پر میو قوم عام طور پر مذہبی نسبت پر ہمیشہ بڑے پیمانے پر تبلیغی جلسوں میں شریک ہوتی آئی ہے اور یہی قوم نے سیکھا ہے عام طور پر زیادہ تر قوم نے تبلیغی اجتماعات کی نسبت پر بڑے پیمانے پر گھروں سے نکلنا سیکھا ہے لیکن جس طرح سے گذشتہ سال سی اے اے این آر سی کے خلاف عوامی سیلاب پورے میوات کے ہر ہر کونے سے چل کر نوح سے گھاسیڑہ تک 9 کلومیٹر تک پیدل چل قوم بڑے پیمانے پر اپنے مسائل کے حل کے لیے حکومت کے خلاف گھروں سے نکلی وہ ایک تاریخی اقدام تھا جو 1947 کے بعد پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر قوم مجتمع ہوئی۔
وہیں اب سنہیڑہ بورڈر پر قوم نے میوات کسان مہا پنچایت میں شرکت بڑے پیمانے پر شرکت کی ہے اس سے اب میوات کے بارے میں تصویر اور عوامی تصور تبدیل ہوتا نظر آ رہا ہے، ایسا لگتا ہے کہ قوم اب اپنے. سیاسی سماجی عائلی و ملی مسائل کے تیئں بیدار ہو رہی ہے دوسرا پیغام ان دونوں واقعات سے یہ بھی کھل کر سامنے آ رہا ہے کہ قوم آج بھی اپنے ملی رہنماؤں پر مکمل اعتماد اور بھروسہ کرتی ہے بشرطیکہ قوم کی بر وقت درست سمت ملی رہنماؤں کے ذریعے رہنمائی ملے اور رہنما سامنے آئیں ۔
جہاں تک میوات کے سیاسی رہنماؤں کا ذکر اگر کیا جائے تو بر ملا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ قومی و ملی معاملات میں بھی اپنی اور اور اپنی سیاسی پارٹیوں کی بہت باریک بینی سے سیاست کر جاتے ہیں وہ عموماً پارٹی کے ہت اور پارٹی کے مفاد کو ترجیح دیتے رہے ہیں جبکہ قومی علاقائی اور ملی مفاد کی رہنمائی کو نیچے رکھتے ہے چاہے قومی و علاقائی مفاد کو کتنی ہی زد پہونچے، تقریباً پانچ لاکھ افراد پر مشتمل بیواں مہا پنچایت کا ذکر اگر یہاں پر نہ کروں تو سیاسی رہنماؤں کی قومی نا انصافی اجاگر کیسے ہوگی؟
میوات کے دونوں صوبوں یعنی ہریانہ راجستھان میں اس وقت کانگریس کی سرکار تھی جس وقت دل گوپال گڑھ دہلانے والا سانحہ رونما ہوا اس وقت دونوں صوبوں سے تعلق رکھنے والے سبھی کانگریسی سیاسی رہنما اتنی بڑی منعقدہ پنچایت کو انصاف سے دور رکھنے کے لیے سرگرم ہو گیے، جس سے انصاف کا راستہ تمام تر ملک کے انصاف پسند لوگوں کے مظلوم و مقہور میواتیوں کے ساتھ آنے کے باوجود انصاف کا راستہ مسدود ہوگیا، جس سے میو قوم کو قومی سطح پر بڑی سبکی کا سامنا کرنا پڑا 2011 میں گوپال گڑھ سانحہ ایسا سانحہ تھا جس میں مقتولین کا کوئی گناہ ایسا نہیں تھا جس کے بدلے میں ان پر گولی برسائی جاتی چونکہ بلا گناہ اور قصور محض افواہ کی بنا پر ایس پی بھرتپور اپنی پولس کو مسجد میں موجود لوگوں پر گولی چلانے کا آڈر کردیتا ہے اور نتیجہ میں دس لوگوں کو بیک وقت مسجد عائشہ بنت مطرف میں پولس فورس کے اہلکار بلیٹ پروف گاڑی سے گولیاں چلا کر ہمیشہ کے لیے 10 میو نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں یہ اتنا انتہائی سنگین اور حساس معاملہ تھا جس کی آواز ملکی و بین الاقوامی فورم پر بھی اٹھی،لیکن اس وقت اپنے ہی سیاسی رہنماؤں کی سرگرمیوں نے قوم کو انصاف لینے والا راستہ ہی سرکار سے عہدہ داری کے لالچ اور واہ واہی لوٹنے کے لالچ میں قومی ڈیل کر لی، یہ محض الزام نہیں بلکہ اس کے ثبوت روز روشن کی طرح آج تک عیاں ہیں، اس طرح قوم کی انصاف کی تحریک اس طرح دم توڑ گئ،اس وقت میو مینا کا نعرہ دیکر مینا سیاسی رہنما کروڑی لال مینا سامنے آیا لیکن وہ بھی میو مینا کے بھائی چارہ کے بھیس میں سیاسی مفاد کی ذاتی سیاست کر بیٹھا اتنے اس کو سمجھتے اتنے مدعہ کمزور اور سرد پڑ گیا ۔
گذشتہ سال نوح سے گھاسیڑہ عوامی طور پر عظیم قومی پیدل مارچ کی آہٹ اتنی موثر ہوئی جس سے نہ صرف ریاست ہریانہ کی سرکار ہل گئ بلکہ میوات کی اس آہٹ سے خوف زدہ ہوکر بھارت کی سرکار نے میواتیوں کے ڈر اور خوف کے مارے قومی راجدھانی دہلی کے 18 میٹروں اسٹیشنوں کی خدمات معطل کر دی اتنے بڑے احتجاج میں بھی سیاسی رہنماؤں کا کردار قوم کے مزاج کا نہ رہا وہ ہی رہا جو ان کی سیاست کو جس سے فروغ ملے اس وقت بھی کانگریسی لیڈران کی شمولیت بھی اس معنی کر تھی کہ کانگریس پارٹی کے لیے احتجاج میں شمولیت کرنا ان کی سیاست کی ہانڈی کو شوٹ کر رہی تھی اس لیے موقع بموقع انہوں نے شامل ہو کر اپنے ہی سیاسی نظریات کو زیادہ فروغ دیا قومی و علاقائی رہنما کردار کہیں بھی جھلکتا نظر نہیں آیا اس لیے خوب نیتاگیری کی سرگرمی دکھائی دی،
بات کرتے ہیں کل گزشتہ میوات کسان مہا پنچایت کے کامیاب انعقاد کی جس کی قیادت اور رہنمائی کا بوجھ میو قوم کے عظیم دینی تعلیمی تبلیغی گھرانے سے تعلق رکھنے والے مولانا محمد ارشد قاسمی گھاسیڑہ میل کھیڑلا کے کاندھو پر تھی اور جس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں اس مہا پنچایت کے آرگنائزر علماء میوات تھے واسطہ یا بالواسطہ اور جو کامیابی کے ساتھ اختتام ہوئی اور کامیابی کے چرچے ملک کی مین اسٹریم میڈیا سے لیکر ملک کے نامور قومی و سماجی رہنماؤں کے زبانوں سے سننے کو برابر مل رہے ہیں، یہاں تک کہ مرکزی کانگریس پارٹی کے سیاسی رہنما غلام نبی آزاد اور ریاست ہریانہ کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر سنگھ پڈا تک نے میوات کسان مہا پنچایت کے کامیاب انعقاد پر اپنی پارٹی کے میوات سے قد آور لیڈران کو مبارکباد دیکر مہا پنچایت کو کامیاب قرار دیا، تا ہم میواتی سیاسی رہنماؤں نے یہاں بھی وہی کردار ادا کیا جو ان کی پارٹی کے مفاد میں تھا اقتدار والے غیر حاضر رہے جبکہ اقدار سے محروم سیاسی لیڈران نے شریک ہو کر اپنے پارٹی کے نظریہ کو بلند کرنے کا کام کیا ، تاہم عوام اپنے ملک اور میوات کے کسانوں کے مفاد کے لیے آئے تھے جس سے مہا پنچایت ہر کسی کو کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے،ایک نکتہ یہ بھی دیکھنے کو ملا چاہیے این آر سی کا معاملہ ہو یا پھر سنہیڑہ بورڈر پر مہا پنچایت میں ہزاروں میواتی خواتین کا شریک ہونا اپنے علماء کی رہبری کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

میواتی قوم کے نام اہم گذارش
ملک کے ایسے حالات میں میوات میں ایسی عوامی تحریک کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جس میں علماء کی شمولیت قائدانہ اور رہبرانہ ہو جس سے میوات اور دیش کا بھلا ہو، اور قومی طور پر علاقہ میوات اور اس میں بسنے والی قوم کا اگر سیاسی سماجی و معاشی مستقبل کو اگر کامیاب اور روشن دیکھنا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ قومی مسائل اور تمام تر معاملات کے تحفظ کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے ملی رہنماؤں پر بھروسہ کرتے ہوئے ان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں ۔
اب وقت آگیا ہے کہ وقت اور حالات کی سیاسی نبض کو سمجھتے ہوئے اپنے معتمد میدانی اور منصف امانتدار علماء کرام کی قیادت میں ہم سیاسی سرگرمیوں کو آگے بڑھائیں اور سیاسی قیادت کے لیے علماء کرام کو اپنا قائد و رہبر تسلیم کریں۔
9813837480 – 9664398297

Comments are closed.