حکیم اجمل خاں

حکیم انصاری مشیر اختر محمد(ایم ڈی ،بی یو ایم ایس)
یونانی فیزیشن اینڈ حجامہ ایکسپرٹ، بائیکلہ ممبئی۔
اسسٹینٹ پروفیسرڈاکٹر محمد اسحاق جمخانہ والاطبیہ یونانی میڈیکل کالج ورسوا۔
حکیم حافظ اجمل خان اس وقت عالم فانی میں تشریف لائے جب کہ ہندوستان کے لئے عموماً اور طب کے لئے خصوصاًایک سچے رہبر بہترین رفارمر ، مخلص دوست ،مدبرا ور ہمدرد انسان کی سخت ضرورت تھی۔حکیم اجمل خان کی پیدائش ۱۷؍شوال۱۸۶۸ عیسوی میں شریف منزل دہلی میں ہوئی ۔آپ کے پر دادا حکیم شریف خاں طبی دنیا میں کافی شہرت رکھتے ہیں۔آپ کے والد حکیم غلام محمود خان اپنے دور کے مشہور طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے خدا دوست متقی اور پرہیز گار بزرگ تھے ۔آپ کے دو بڑے بھائی حکیم عبد المجید خان اور حکیم واصل خان بھی طبابت کے پیشے سے منسلک تھے ۔حکیم صاحب نے طب کی ابتدائی کتابیںاپنے والد بزرگوار سے پڑھیں اور انتہائی کتابیں حاذق الملک اول حکیم عبد المجید خان سے پڑھیں اور انہیں سے مطب سیکھا۔ طب کا تعلیمی ادارہ اگر چہ ان کے بھائی حکیم عبد المجید نے قائم کیا تھا لیکن ان کے انتقال کے بعد آپ نے اس ادارے کو مزید فعال بنایا ،نظام تعلیم میں تجدید کی اور اس طبی ادارہ کو حکومت سے بحیثیت کالج رجسٹرڈ کرایا ساتھ ہی ملکی حالات کے پیش نظر آیوروید کی تعلیم شروع کی حکومت سے تعاون لینے کے لئے وائسرائے سے سنگ بنیاد رکھوایا عوامی مقبولیت حاصل کرنے کے لئے گاندھی جی سے اس کا افتتاح کروایا ۔ موجودہ قرول باغ آیورویدک یونانی کالج حکیم صاحب کی اہم یادگار ہے۔
حکیم اجمل خاں حاذق الملک تقریبا ۹ سال ریاست رامپور میں طبیب خاص کی مقام پر فائز رہے۔اسی زمانے میں ریا ست رامپور میں عربی زبان کے مشہور ادیب و شاعرمحمد طیب موجود تھے ا ن سے انھوں نے عربی تحریر و تقریر میں ملکہ حاصل کیا۔ جسکا اعتراف خود عراق اور مصر کے علماٗ نے کیا ہے۔حکیم محمد حسن قرشی کا کہنا تھا کہ میری نظر میںہندوستاں بھر میں حکیم اجمل خاں سے زیادہ کوئی شخض قابل عزت نہیں ہے کیونکہ علم و امارات کا ان سے بہتر پیکرملنامشکل ہے۔ حکیم نذراحمد کے مطابق علی گھڑ ھ کے عربی کے پروفیسر نے کہا تھا کہ ہندوستان میں عربی ادب کے ماہر صرف دو شخض ہیں ان میں سے ایک حکیم اجمل خاں صاحب ہیں۔
ٓ آپ کا شمار بحیثیت طبیب ہی نہیں بلکہ سیاسی مفکّر اور قومی رہنما کے بھی ہوتا ہے حکیم صاحب ہندوستان کی آزادی کی لڑائی میں بھی صف اوّل کے مجاہدین میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ حکیم صاحب واحد وہ شخص ہیں جوکہ انڈین نیشنل کانگریس،مسلم لیگ،آل انڈیا خلافت کمیٹی اور ہندو مہا سبھا کے صدر رہے۔ ۱۹مارچ ۱۹۲۰کو پورے ملک میں یوم خلافت منایا گیا اس میں حکومت سے عدم تعاون کے تعلق سے اہم فیصلے ہونے تھے اسی کے بعد سب سے پہلے حکیم صاحب نے اپنا خطاب حاذق الملک، قیصر ہند طلائی تمغہ اور انگلستان اور ہندوستان مین تاجپوشی دربار میں عطا کردہ دو نقرئی تمغے واپس کردیئے ۔حکیم صاحب کے اس جرات مندانہ اقدام سے ملک کی عوام نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے حکیم صاحب کو مسیح الملک کے خطاب سے نوازا۔
حکیم صاحب کے مزاج میں عصبیت اور تنگ نظری کو ذرا بھی دخل نہیں تھا ۔ ملک میں ان کی ہر دلعزیزی کا ایک بڑا سبب یہ بھی تھا وہ ایک وسیع القلب انسان تھے ۔حکیم صاحب کے نزدیک امیر غریب سب برابر تھے کسی کے اعلیٰ عہدے کو کوئی فوقیت نہیں دیجاتی ۔ ڈاکٹر ذاکر حسین سابق صدر جمہوریہ نے لکھا ہے کہ ـ ’’وہ ان بڑوں میں تھے جو قریب سے اور بڑے ہوجاتے ۔دور سے دیکھنے والے جن کی عزت کرتے ہیں اور قریب سے دیکھنے والے جن پر عاشق ہو جاتے ہیں ۔وہ ہندوستان میں ہندو اور مسلم اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے اور انھوں نے ا س عظیم تر مقصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھا۔مہاتما گاندھی نے آزادی کے جد وجہد اور ہندو مسلم اتحاد کے اس عظیم رہنما کے موت کے بعد کہا تھا ـ ــ ۔ ’’کہ اس نازک گھڑی میں یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے ۔ حکیم صاحب ہندوستان کے سچے سپوت تھے ہندو مسلم ایکتا کے سلسلے میں تو ان کی حیثیت ایسی تھی کہ اس کی قدر و قیمت کا کوئی اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ میں تو بس یہ آس لگائے بیٹھا ہوں کہ ہم لوگ جو ان کے جیتے جی نہیں سیکھ پائے وہ اب ان کے مرنے کے بعد سیکھنے کی کوشش کریں گے مجھے امید ہے کہ ان کے مرنے سے دلی میں دوستی اور بھائی چارے کی جو فضاء پیدا ہوئی ہے وہ برقرار رہے گی اور پورے دیس میں سرایت کر جائے گی اور میرے لئے تو حکیم صاحب کا دنیا سے اٹھ جانا ایک نجی سانحہ ہے ۔ ‘‘
حکیم صاحب کے ذریعے ادویہ پر تحقیق اور اصلاح و تجدید فن کے سلسلے میں کی گئیں کوششیں طب کی تاریخ میں ناقابل فراموش ہیں
طب کی معیاری تعلیم کی طرح وہ یونانی دواؤں کو بھی نئی شکل میں لانا چاہتے تھے ۔ قدیم دواسازی میں بنیادی تبدیلیوں کے ساتھ یونانی کے اصل امتیاز پر بھی ان کا زور تھا ۔کیمسٹری کی نئی معلومات کے بغیر نہ ادویہ پر جدید سائنٹفک طور پر کام کیا جاسکتا تھا اور نہ دواسازی کو جدید شکل دی جا سکتی تھی ، اس غرض کی تکمیل کے لئے حکیم صاحب نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو اعلیٰ تعلیم کے لئے وظیفہ دے کر جرمنی بھیجا تاکہ وہ وہاں کیمیاوی تجزیہ و تحلیل میں مہارت حاصل کریں۔ ۱۹۲۶ میں انھوں نے طبیہ کالج میں ریسرچ کا باقاعدہ شعبہ قائم کیا ، یہ ملک کا پہلا ریسرچ کا شعبہ تھا جو یونانی میں قائم ہوا اس سے پہلے آیورویدک یا یونانی میں ریسرچ کی کوئی باضابطہ کوشش نہیں کی گئی تھی۔ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے ہاتھوں اسرول کی تحقیق آج بھی اجملین،اجملینین اور اجملینس نامی الکلائڈ کے ذریعہ ادویاتی تحقیقات میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
ملک ہندوستاں میں جن طبیبوں نے طبی ہزاقت کے ساتھ علمی و تصنیفی میدان میں نمایاں کردار انجام دیاہے ا ن میں بھی بہت ممتاز حکیم اجمل خاں کی ذ ا ت ہے۔ حکیم اجمل خاں کی سحر انگیز شخصیت طبی قامت،قومی و سیاسی تحریکوں اور تعلیمی و ملی مسائل میں انکی خدمات کا اعتراف عام طور پر کیا جاتا ہے۔ لیکن انھوں نے جو طب کے موضوع پر اآزادانہ قلم اٹھائی ہے اس کا زیادہ ذکر نھیں کیا جاتاہے ۔ان کی تحریروں میں طبی مسائل کو سائنسی افکار و خیالات کے طرز پر پیش کرنیکے ساتھ طب کی شناخت اور اسکی بنیادی قدروں کا مکمل طور پر لحاظ رکھا گیاہے ۔رامپور میں انھیں ریاست کے کتب خانہ کی نگرانی کے عہدہ پر فایض کیا گیا تھا جہاں انھوں نے نایاب کتابوں کے مطالعہ پر پورا وقت صرف کیا۔کتب خانہ رامپور کے طبی مخطوطات پر ان کے قلم سے حواشی اور علمی یادداشتیں تحریر ہیں۔
حا ذق: اردو میں معالجات کی ایک ایسی مختصر اور مفیدکتاب ہے۔جس سے ان کے انداز مطب کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔مطب کے رموز اور کامیاب معالجے درج ہیں جو کہ طالب طب کے لیے کسی نعمت سے کم نھیںہیں۔
افادات مسیح الملک : اس میں حکیم اجمل خان کے علاجی واقعات اور کلینکی مشاہدات کو شائع کیاگیا ہے۔
رسالہ طاعون: ۱۸۹۵کی طاعو ن کی وبانے ہزاروں جانیں لے لی تھیںاسی غرض سے عام لوگوں کی معلومات اور استفادہ کے لیے طاعون پر اردو میں یہ رسالہ تصنیف کیا۔اس میں تاریخی پس منظرکے ساتھ اسباب و علامات اور علاج پر تفصیلی گفتگوکی گئی ہے۔
الوجیرۃ:اس رسالہ میں ابن سینا کی کلیات قانون میں بیان کردہ نبض کی شرح کی گئی ہے۔
القول المرغوب فی الماء المشروب :یہ رسالہ ۱۸۸۵ میں زمانہ طالب علمی میں لکھا گیا۔کلیات قانون کی سولھویں فصل احوال المیاہ کی شرح ہے۔ جس میں پانی کے جز بدن ہونے یا نہ ہونے پر بحث کی گی ہے۔
التحفۃالحامدیہ فی اصناعۃ اتکلیسیۃ : اس میں کشتہ جات کے استعمال کے جواز اور ا ن کے فوائد پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اور ان کے اعتراضات کا جواب دیاہے جو بلخصوص لکھنوء اسکول کی جانب سے کئے گئے تھے۔
الغات طبیہ مقدمہ :کتاب لغات طبیہ کا مقدمہ جو تقریبا ۲۷صفحات پر مشتمل ہے اس میں لغت کے بارے میں بڑی بیش قدر معلومات شامل ہیں۔اسکے ساتھ یہ وضاحت کی ہے کہ طب میں الفاظ کن صورتوں اور کن اوزان میں استعمال ہوتے ہیں۔
المسائل خمسہ :اس میںطب کے پانچ اہم مسائل تعین ایام بحران،عفونت خلط صفرا،خلط صفرا کا تلخ ذائقہ،داخل خلط تعفن اور غذاء کے مطلق وجود۔ کے بارے میں جمہور اطبا سے اختلاف کیاہے۔حکیم صاحب کی یہ تحریر حکیم فیروزالدین کی کتاب رموز الاطبا میں ۱۱۹۱ میں شائع ہوئی
البیانالحسن بشرح المعجون المسمی باکسیرالبد ن:اس میں حکیم شریف خان کی کتاب علاج الامراض کے مشہور مرکب معجون لنا کے معمہ کو حل کیاہے۔
اوراق مزھرۃ مثمرہ مسفرۃ: یہ رسالہ چند طبی استفسارات مثلا سبب و علاج طاعون، زمانہ حمل میں مدرات، ورم طحال میں مسہلات اور سعال میں نمکیا ت کا استعمال وغیرہ پر مشتمل ہے۔
ان کتا بوں کے علاوہ حکیم صاحب کی چار کتابیں رسالہ فی ترکیب الادویہ و استخراج درجاتہا۔ المحاکۃ بین القرشی و العلامہ۔ حاشیہ شرح اسباب اور الغات الطبیہ زیور طبع سے آراستہ نھیں ہویئں۔غرض یہ کہ حکیم اجمل خاں اپنی ذات میں ایک درسگاہ تھے اور گوناگوں شخصیت کے مالک تھے۔انھوں نے ہندوستان میں طب کا ایک نیا دور شروع کیاجو آج تک جاری ہے۔
حکیم صاحب کا انتقال ۶۴ سال کی عمرمیں۲۹دسمبر ۱۹۲۷کو ہوا۔چاروں طرف صف ماتم بچھ گئی۔اہم رہنمائوںمیںمہاتماگاندھی،پنڈت جواہر لال نہرو،پنڈت گوندولبھ پنت ،چودھری خلیق الزماں وغیرہ کی تحریریں آج بھی اشکبار ہیں۔

Comments are closed.