اپنے شیئر ہولڈر س کووپرو نے دیا صرف دس ہزار پر 1088 کروڑ کا منافع

ابراہیم آتش ،گلبرگہ کرناٹک
جی ہاں !کوئی یقین نہیں کرے گا شیئر بازار میں اس قدر منافع بھی ہو سکتا ہے ! مگر یہ بالکل سچ ہے ، جس شخص نے 1980 میں وپرو کمپنی کے 100 شیئر خریدے تھے آج کی تاریخ میں اس شخص کے پاس ایک ہزار اٹھاسی کروڑ قیمت کے شیئر موجود ہیں ۔ مگر اس کو چالیس سال کسی شخص نے سنبھال کر رکھا یا نہیں پتہ نہیں مگر کمپنی کے مالک اور پرموٹرس کے پاس تو ضرور رہے ہوں گے اور ان کی دولت میں بے تحاشا اضافہ بھی ہوا ہوگا ۔ مستقبل میں اس طرح کا منافع ہوگا یا نہیں کوئی نہیں جانتا ۔ وقت کے ساتھ حکومت کی پالیسیاں اور ٹکنالوجی کس طرح بدلتی ہے کسی کو نہیں معلوم ۔ اس منافع کی تفصیل میں جانے سے پہلے وپرو کمپنی اور اس کمپنی کے مالک کون ہیں یہ جانتے ہیں ۔ وپرو کمپنی ایک ملٹی نیشنل کمپنی ہے ، اس کی شروعات 29 دسمبر 1945 میں محمد پریم جی نے کی تھی ۔ محمد پریم جی نے ویجیٹبل ریفائنڈ آئل کے کاروبار کے ذریعہ اپنا آغاز کیا ، ان کے انتقال 1966کے بعد عظیم ہاشم پریم جی نے انجینیرنگ کی ڈگری لینے کے بعد اس بزنس کو سنبھالا اور اس بزنس کو نئی سمت دی ۔ اتنی دولت ہونے کے باوجود عظیم پریم جی نے دولت کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا ۔ جس طرح آج کل ہم دیکھ رہے ہیں کوئی شخص اپنی بیوی کو گفٹ میں ہوائی جہاز دے رہا ہے ، کوئی اپنے بچوں کی شادیوں پر کروڑہا روپیہ خرچ کر رہا ہے ۔جس طرح دھوم دھام سے شادیاں ہو رہی ہیں اور جس طرح مہمانوں میں ہمیں فلمی ہستیاں , سیاستدان اور صنعت کار نظر آتے ہیں اور جس طرح سے دولت خرچ ہوتی ہے سب کچھ نظر آتا ہے ۔ عظیم پریم جی کی شخصیت میں سادگی ہے ، وہ پانچ ستارہ ہونل کو بھی پسند نہیں کرتے اور سفر کے لئے ایکنامی کلاس ہی پسند کرتے ہیں ۔ تمام ہندوستانیوں کوان پر رشک کرنا چاہیے اور ان کے نقش قدم پر چلنا چاہیے خاص کر فلمی ہستیوں اور اور ملک کے سیاست دانوں کو ۔ بات یہ ہے کہ عظیم پریم جی ہندوستان کی تیار کردہ ملبوسات اور گھڑیاں اور کاریں ہی پسند کرتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں ۔ عظیم پریم جی کی حب الوطنی دراصل انھیں محمد پریم جی سے وراثت میں ملی ہے ۔ 1947 ملک کی آزادی سے پہلے محمد علی جناح نے محمد پریم جی کو بہت سمجھایا اور منایا کہ وہ پاکستان آ جائیں ، یہاں تک کہ انھیں فائنانس وزارت کی پیش کش بھی کی گئی مگر انھوں نے انکار کر دیا اور ہندوستان میں ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔ جہاں عظیم پریم جی اپنی دولت کو فضول خرچی میں نہیں اڑاتے ہیں وہیں وہ اپنی دولت کو بے دریغ غریبوں اور محتاجوں میں خرچ کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ روپیہ رفاہی کاموں میں خرچ کرتے ہیں تو عظیم پریم جی کرتے ہیں ، حالانکہ ملک میں بڑے بڑے صنعت کار موجود ہیں جن کے پاس بے شمار دولت ہے مگر کوئی ان کا مقابلہ کرتا ہوا نظر نہیں آتا ، مقابلہ تو دور کی بات عظیم پریم جی جتنا خرچ کرتے ہیں انکا پانچ فیصد بھی خرچ کرتے ہیں یا نہیں پتہ نہیں ، اس کے باوجود ملک کا گودی میڈیا ان کے کاموں کو سراہتے ہوئے ہمیں نظر نہیں آتا ۔ لگتا ہے عظیم نام سے گودی میڈیا الرجک ہے ، اگر عظیم کے بجائے دوسرا نام ہوتا تو ٹی وی چینلوں پر اس قدر تعریف ہوتی کہ ہندوستان سمیت بین الاقوامی تمام ایوارڈس دیے ۔
جاتے ۔ نام کی وجہ سے عظیم پریم جی کو بہت سی ذہنی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ٹوئین ٹاور دھماکوں کے بعدامریکہ میں ائر پورٹ پر جس طرح سختی اپنائی گئی وہ سب جانتے ہیں ۔ جارج فرنانڈیز اور شاہ رخ خاں کو جن مراحل سے گذرنا پڑا سب جانتے ہیں مگر عظیم پریم جی کو ان مراحل سے گذرنا پڑا یہ ا فسوس ناک ہے کیونکہ اس وقت عظیم پریم جی دنیا کی پانچ امیر ترین شخصیتوں میں شمار ہوتے تھے اس کے باوجود ان کو گھنٹوں ائر پورٹ پر انتظار کرنا پڑا تھا ، کیو تکہ ان کے پاسپورٹ میں عظیم لکھا ہوا تھا ۔ جبکہ ہمارے ملک میں بل گیٹس کے لئے ر یڈ کارپٹ بچھایا جاتا ہے ۔ عظیم پریم جی ہر چیز پر صبر اختیار کرتے نظر آتے ہیں ، وہ چاہیں تو اپنے لیے کئی چارٹر فلائٹ خرید سکتے ہیں اور استعمال کر سکتے ہیں مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا ۔ بعض دفعہ ایسا بھی اتفاق ہوا ہے کہ وہ بنگلور ائر پورٹ پر کسی دوسرے مقام سے پہنچ گئے ، ان کی کار وہاں موجود نہیں تھی ، ڈرائیور نہیں آسکا تھا ، عظیم پریم جی آٹو ر کشا لے کر گھر پہنچ گیے ۔
1966میں عظیم پریم جی چیرمین بن گئے1977 میں ویسٹرن انڈیا پروڈکٹ لمیٹیڈ کا نام بدل کر وپرو پروڈکٹ رکھ دیا پھر1982 میں وپرو پروڈکٹ لمیٹیڈ سے نام بدل کر وپرو رکھ دیا ۔ وپرو کمپنی سافٹ ویر اور ہارڈ ویر میں قدم رکھنے کے بعد عظیم پریم جی دن بدن ترقی کی بلندیوں پر پہنچتے چلے گیے اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ وہ ہندوستان کے سب سے امیر شخص بن گئے ۔ 2000 میں وپرو شیئر کی قیمت آسمان پر تھی ۔ ہندوستان کے امیر ترین افراد کے ساتھ وہ دنیا کے سب سب بڑے دوسرے امیر شخص بن گیے تھے ۔ عظیم پریم جی کی دولت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی کمپنی کے 75 فیصد شیئر بیچ کر اس وقت ریلائنس ، ہندوستان لیور اور انفوسس جیسی تینوں کمپنیوں کو خرید سکتے تھے ۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ریلائنس ، ہندوستان لیور اور انفوسس کی حیثیت کیا تھی ۔ دس ہزار سے1088 کروڑ کا منافع کس طرح ملا اس کو تفصیل سے جانتے ہیں ۔ 1980 میں جس شخص نے سو شیئر خریدے تھے اس وقت اس کے ایک شیئر کی قیمت ایک سو روپیے تھی ، اس طرح سو شیئر کی قیمت دس ہزار ہوتی ہے ۔ کمپنی نے1981 میں ایک شیئر پر ایک بونس شیئر دیا جس سے شیئر کی تعداد200 ہوگئی ۔ 1985 میں ایک ایک بونس شیئر دیا گیا جس سے چار سو شیئر ہوگئے ۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ وپرو شیئر کی فیس ویلو سو روپے تھی اس شیئر کو 1986 میں تقسیم کر کے دس روپے کا کر دیا گیا جس سے جس کے پاس چار سو شیئر تھے اس شخص کے پاس چار ہزار شیئر ہو گیے ۔ 1987 میں ایک ایک بونس شیئر دیا گیا جس سے 8000 ہزار شیئر ہوگیے ۔ 1989 میں پھر ایک ایک بونس شیئر دیا گیا جس سے 16000 شیئر ہو گیے ۔ 1992 میں پھر ایک ایک بونس شیئر دیا گیا جس 32000 ہزار شیئر ہوگیے ۔ 1995 میں ایک ایک شیئر دیا گیا جس سے 64000 ہزار شیئر ہو گیے ۔ 1997 میں ایک شیئر کے بدلے دو شیئر دیے جس سے 192000۱یک لاکھ بیانوے ہزار شیئر ہوگیے ۔ 1999 میں دس روپیے کے شیئر کو دو روپے کا کر دیا گیا جس سے شیئر ہولڈر س کے پاس960000 چھیانو لاکھ شیئر ہوگیے ۔ 2004 میں ایک شیئر کے بدلے دو شیئر دیے گیے جس سے 2880000 شیئر ہوگیے ۔ 2005 میں ایک ایک بونس شیئر دیا گیا جس سے5760000 ستاون لاکھ ساٹھ ہزار شیئر ہوگیے ۔ 2010 میں تین شیئر پر دو شیئر دیے گیے جس سے کل شیئروں کی تعداد9600000 چھیانوے لاکھ ہوگئی ۔ 2017 میں ایک ایک بونس شیئر دیا گیا جس سے 19200000ایک کروڑ بیانوے لاکھ پھر2019 میں تین شیئر کے بدلے ایک بونس شیئر دیا گیا جس سے جملہ شیئروں کی تعداد 25600000 دو کروڑ چھپن لاکھ ہوگئی ۔ کیا کوئی یقین کرے گا 100 شیئر کے بدلے اس کو دو کروڑ چھپن لاکھ شیئر مل سکتے ہیں ۔ مگر یہ حقیقت ہے کوئی بھی اس کی تحقیق کر سکتاہے ہیںچالیس سال میں اس کے پاس کل شیئروں کی تعداددو کروڑ چھپن لاکھ کے پار ہو جائے گی ۔ اگر اس طرح بونس شیئر یا شیئر کو تقسیم نہ کیا جائے تو ایک شیئر کی قیمت دس کروڑ اٹھاسی لاکھ ہوگی اس کو نہ کوئی خرید سکتا ہے اور نہ وپرو کے شیئر شیئر بازار میں ٹریڈ ہوتے ہیں ، اس لیے کمپنی جب شیئر کی قیمت زیادہ ہوتی ہے بونس کے ذریعہ اس کی قیمت کو کم کر دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شیئر 500 روپیے پر ٹرید کر رہا ہوتا ہے تو ایک بونس شیئر دینے کے بعد اس کی قیمت 250 ہوتی ہے ۔ آج وپرو کے شیئر کی قیمت شیئر بازار میں 425 چل رہی ہے اور جملہ دو کروڑ چھپن لاکھ شیئروں کو 425 روپیے سے بیچا جائے تو اس کی قیمت ایک ہزار اٹھاسی کروڑ ہوجاتی ہے ۔ جس شخص نے 1980 میں دس ہزار کے سو شیئر خریدلیے تھے آج وہ ایک ہزار اٹھاسی کروڑ کا مالک بن گیا ہے ۔ اگر وہ ایک ہزار کے دس شیئر خرید لیتا تو آج اس کی قیمت ایک سو آٹھ کروڑ اسی لاکھ کے قریب ہوتی ۔ اگر وہ ایک سو روپیہ کا ایک شیئر خرید لیتا تو بھی آج دس کروڑ اٹھاسی لاکھ کا مالک ہوتا ۔ اس قدر منافع دنیا کے کسی بزنس میں نہیں ملا ہوگا ، یہ کارنامہ وپرو کے چیرمین عظیم ہاشم پریم جی نے کر دکھایا اور ایمانداری سے اپنے شیئر ہولڈروں کو فائدہ پہنچایا ۔ اس وقت جن لوگوں نے زمین خریدی یا سونا لیاتھا وہ اس منافع کے سامنے ہیچ ہے ۔

Comments are closed.