کاش! آج جے پی زندہ ہوتے…

محمدعاقل حسین،مدھوبنی(بہار)
موبائل۔9709180100
جب ملک 1947 میں آزاد ہوا تھاتواس وقت اس آزاد ملک کے لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ آزاد ہندوستان کے کسانوں کوایک دن اپنے حقوق کے لئے اپنی حکومت سے ہی لڑنا پڑے گااور ملک کی حکومت اپنے کسانوں کے ساتھ برطانوی حکمراں کی طرح سلوک کرے گی۔اپنے حقوق کے لئے ملک کے کسان 2؍مہینے سےزائد عرصے سے ملک کی دارالحکومت کی سرحدوں پر شدید ٹھنڈ میں جمہوری انداز میںپرامن احتجاج کررہے ہیں۔ آج صورتحال کچھ ایسی ہے کہ حکومت ان کسانوں کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی ہے جیسے احتجاج کرنے والے کسان دوسرے ممالک سے آئے ہوں۔ احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ حکومت کا معاملہ ایسا ہے جیسے کسان ملک کے دشمن ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر حکومت بار بار کسانوں کی تحریک کو کمزور کرنے کے لئے سازش کیوں کرتی ہے؟ نیز تحریک کرنے والے کسان ملک کی دارالحکومت میں داخل نہ ہوں اس کے لئے حکومت کے اشارے پر دہلی پولیس کے ذریعہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی سرحدوں کو جس طرح سیل کیا جاتا ہے اسی طرح 2؍ماہ سے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ نہ ہو اس کے لئے پولیس نے غازی پور سرحد پر سیکیورٹی سخت کردی ہے۔ اور بیری کیڈنگ کو ویلڈنگ کر جوڑ دیا گیا ہے۔ اتناہی نہیں بلکہ سڑکوں پرکیل اورکانٹے لگادیئے گئے ہیں۔کسانوں کی نقل و حرکت کا راستہ مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ پولیس نے غازی پور بارڈر پر پکی بیری کیڈنگ کردی ہے اس کے بعد سے اس راستہ کو کھولنے کا امکان بھی مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔ زرعی قانون کو نافذ کرنے کے لئے جس طرح سے حکومت مصر ہے اور زبردستی تینوں زرعی قوانین کو کسانوں پر تھوپنا چاہتی ہے اس سے لگ رہا ہے ملک ایک بار پھر غلامی کی طرف بڑھ رہاہے۔ ایسے میں لوک نائک جئے پرکاش نارائن یعنی جے پی کا ذکر نہیں کرنا بے معنی ہوگا۔ کیونکہ انہوں نے سن 1974؍ میں تحریک کی راہ اپنائی اور من مانی طریقے سے چل رہی اندرا حکومت کو سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ اندرا گاندھی کےدور اقتدار میں ملک مہنگائی سمیت دیگر مسائل سےدوچار تھا۔ لوگوں میں اندرا کی زیرقیادت مرکزی حکومت کو لے کر غم و غصہ تھا۔ اس وقت جے پی نے حکومت وقت کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ جے پی نے اندرا گاندھی کو ایک خط لکھا اور ملک میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں بتایا۔ اس کے بعد جے پی نے ملک کے دیگر ممبران پارلیمنٹ کو بھی خط لکھا اور اندرا گاندھی کے بہت سے فیصلوں کو جمہوریت کے لئے خطرہ قرار دیا۔ جے پی کی تحریک میں لوگ شامل ہوتے گئے اور تحریک تیز ہوتی گئی۔ بعد میں جے پی تحریک کی وجہ سے اندرا گاندھی کے ہاتھ سے حکومت کی زمین کھسکنے لگی تھی اور کانگریس حکومت کا کئی ریاستوں سے زوال ہونا شروع ہوگیاتھا، نیز بعد میں اندرا گاندھی اقتدار سے بھی محروم ہوگئی۔ سال 1977 میں پہلی بار ملک میں غیر کانگریسی حکومت وجود میں آئی۔ آج ملک کے جو حالات ہیں اس سے ایسا لگتا ہے کہ جے پی جیسی تحریک کی ملک میں ایک بار پھر ضرورت ہے۔ لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ جے پی جیسی تحریک کا آغاز کون کرے گا؟ کیونکہ جے پی تحریک کے قائدین اپنی آسودہ حالی کے لئے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جے پی کی مماثلت یکے بعد دیگرے ان کے ورثاء سے کی جائے تو جے پی کے نظریات کی مایوسی کا احساس دلاتی ہے۔ جس سماجی، سیاسی، معاشی، ثقافتی، تعلیمی انقلاب کے لئے جے پی نے تحریک چھیڑا تھا وہ آج بھارت میں کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ آج لالو یادو، نتیش کمار، شرد یادو، سوشیل مودی، روی شنکر پرساد، ملائم سنگھ یادو، حکم دیو نارائن یادو، وجئے گوئل، کے سی تیاگی، پرکاش سنگھ بادل سے لے کر شمالی ہند اور مغربی ہند کی سبھی ریاستوں میں 60؍ سے زائد جے پی تحریک کے ورثاء فعال ہیں۔ ان میں سے بیشتر مرکزی اور ریاستی حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے عام لوگوں کے لئے جے پی جیسی شخصیت نے کانگریس میں اپنی اثردار حیثیت کو چھوڑ کر سوشلزم اور گاندھی واد کا راستہ منتخب کیا۔ اس جے پی کے پیروکاروں نے ملک کی تعمیر نو میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ نتیش کمار، لالو یادو اور ملائم سنگھ کی شکل میں جے پی کے چیلے صرف اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سیاسی انقلاب برپا تو ضرور ہوا لیکن صرف وزیر اعلی اور دیگر وزراء کے عہدوں تک رسائی کے لئے۔ جے پی اور لوہیا کا نعرہ لگا کر یوپی، بہار، اڈیشہ، گجرات، کرناٹک جیسی ریاستوں کے وزیر اعلی بننے والے قائدین نے ہندوستان میں اس نظام کو تبدیل کرنے کے لئے کیا کیا جس کیلئےجے پی نے اپنی قربانی اور جدوجہد سے انقلاب کا تصور پیش کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت سے سوشلزم کا قریب قریب خاتمہ ہوچکا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر لگاتار ملک میں جمہوری نظام پر حملے ہورہے ہیںمگر جے پی کے چیلے کیوں خاموش بنے ہوئے ہیں؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار اجتماع اور تقریب میں جمہوریت کی دہائی دیتے ہیں کہ جمہوریت میں عوام ہی مالک ہیں۔ لیکن آج ملک میں ان کی حلیف پارٹی بی جے پی ملک سے جمہوریت کو ختم کرنے پر آمادہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت سب سے پرانے جمہوری ملک میں اپنے حق کے لئے تحریک کا راستہ اختیار کرنے والوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور ملک میں آر ایس ایس کا ایجنڈا سونپنا چاہتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مرکزی بی جے پی حکومت نے ٹرپل طلاق، بابری مسجد، جموں و کشمیر سے 370 ؍کو ہٹانے جیسے مدعوں پر فیصلہ سنوایا اور سی اے اے، این آرسی تحریک میں فسادات کرانے کے بعد پھر کسان تحریک میں فسادات کراکر اسے ختم کرانے کی کوشش کی۔ اتنا کچھ ہوجانے کے بعد بھی بھاجپا حکومت معاون، بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار سمیت جے پی کے دیگر چیلے اقتدار کی لالچ میں جمہوریت پر لگاتار ہورہے حملے روکنے کے بجائے خاموش اور تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
ایک وہ بھی دور تھا جب کسانوں کے مسائل پولس نے نہیں سنتی تھی۔تب ملک کے ایک نے سال 1979 میں اترپردیش کے اٹاوہ ضلع کے اسراہار تھانہ میں میلی کرتی دھوتی پہنے پہنچے اور اپنے بیل کی چوری کی رپورٹ لکھنے کی فریاد پولس سے کی مگر تھانہ کے داروغہ بابو نے انہیں واپس کردیا۔ جیسے ہی وہ تھانہ سے نکلنے لگے تو ایک داروغہ پیچھے سے کہنے لگا کہ کچھ خرچ پانی دیدو، رپورٹ لکھ دی جائے گی۔ اور اس وقت 35؍ روپئے دے کر رپورٹ لکھانا شروع ہوا۔ رپورٹ لکھ کر تھانے کے منشی نے پوچھا: بابا دستخط کریںگے یا انگوٹھا؟ کسان نے دستخط کرنے کی بات کہی۔ جس پر تھانہ کے مصنف نے دفتی آگے بڑھادی۔ جب کسان نے قلم کے ساتھ انگوٹھے والا پیڈ اٹھایا ،تو تھانہ کا منشی حیرت میں پڑگیا۔ منشی سوچ رہا تھا کہ دستخط کرے گا تو سیاہی کا پیڈ کیوں اٹھا رہا ہے؟ اس کسان نے دستخط میں نام لکھا ’’چودھری چرن سنگھ‘‘ اور میلے کرتے کی جیپ سے مہر نکال کر کاغذ پر ٹھوک دی ۔جس پر لکھا تھا ’’وزیر اعظم حکومت ہند‘‘ یہ دیکھ کر پورے تھانہ میں کھلبلی مچ گئی ۔جس کے پورے تھانے کو معطل کردیا گیا۔جبکہ وزیر اعظم کا قافلہ تھانہ سے تھوڑے فاصلے پر کھڑا تھا۔ تھانہ سے آتے ہی وہ آگے نکل گئے۔ کیونکہ چودھری چرن سنگھ کا تعلق کسان سے تھا۔ انہیں کسانوں کے مسائل کی بہت فکر رہتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ ملک کی ریڑھ کسان ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ کسانوں کا احترام کرتے تھے۔ آج کی دور میں کسان مہینوں سے اپنے حقوق کیلئے ملک کی راجدھانی دہلی کی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی پارلیمنٹ میں اس تحریک کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں ،کہ کچھ عرصے سے ملک میں ایک نئی جماعت پیدا ہوگئی ہے۔ وہ جماعت ہر تحریک میں نظر آتی ہے۔ دنیا کا سب سے قدیم جمہوری ملک ہندستانمیں ملک کے وزیر اعظم کے عہدہ پر بیٹھے ایک ذمہ دار فرد کو کسانوں سے بات چیت کر تحریک ختم کرنےکا کوئی مضبوط راستہ نکالنا چاہئے تھا۔ مگر آج ایک ذمہ دار عہدہ پر بیٹھے فردکے ذریعہ تحریک کرنے والوں کا مذاق اُڑایا جارہا ہے، تو اوروں سے ملک کے عوام کیا امید رکھیں؟
اب سوال اٹھتا ہے کہ اگر آج کسانوں کی تحریک کمزور ہوئی اور زبردستی زرعی قوانین کسانوں پر تھوپنے میں مرکزی حکومت کامیاب ہوجاتی ہے تو آنے والے وقت میں ملک سے جمہوری نظام ختم ہوجائے گا اور حکومت من مانے طریقے سے نئے نئے قوانین بناکر لوگوں پر تھوپتی رہے گی۔ حکومت کے من مانے قانون پر عمل کرنا لوگوں کی بے بسی ہوجائے گی۔ جس سے طرح ملک کی آزادی سے پہلے ہندوستان میں برطانوی حکومت زبردستی قانون تھوپتی تھی اور اس کی تعمیل کرنا ہندوستانی عوام کی مجبوری تھی۔ جس طرح سے ملک میں آج زبردستی قانون بناکر سونپا جارہا ہے۔ آزاد ہندوستان کی جمہوریت کی فتح تب ہوگی جب مرکزی حکومت من مانے طریقے سے بنائے گئے زرعی قانون کو واپس لےلیتی ہے۔
Comments are closed.