ڈاکٹر محمد یونس حکیم کی کتاب’’ ہمارا تعلیمی لائحہ عمل‘‘ مسلمان اورتعلیم کی روشنی میں

مولانا انیس الرحمن قاسمی
قومی نائب صدرآل انڈیا ملی کونسل
تعلیم تمام ہی انسانوں کے لیے ضروری ہے۔اسی سے دنیا اورآخرت کی کامیابی ملتی ہے،کسی کو علم دینا، کتابیں مہیا کرنا،تعلیمی ادارے قائم کرنا،تعلیم حاصل کرنے والوں کی ہمت افزائی کرنا،معلمین واساتذہ کا قومی وسماجی سطح پر اکرام کرنا یہ اور اس جیسے اہم عناوین پرمشتمل ایک علمی کتاب الحاج پروفیسرڈاکٹرمحمد یونس حکیم قادری چشتی،چیئرمین بہار اسٹیٹ اقلیتی کمیشن پٹنہ کی ”مسلمان اورتعلیم“ کے نام سے شائع ہوئی ہے،اس کتاب کو بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے،بہت دنوں سے دل کی خواہش تھی کہ ایک ایسی مختصر کتاب ہوجوعلوم اسلامیہ اورعلوم عصریہ کی اہمیت بتائے۔مسلمانوں کی شاندار علمی تاریخ پر روشنی ڈالے۔ اللہ کی کتاب قرآن کریم کی تلاوت ومطالعہ کی اہمیت کو بتائے۔اسلام میں علم کی اہمیت وفضیلت کو بیان کرے،احادیث رسول میں انسانوں کے لیے کیا ہے؟اورکس قدر احادیث کی اہمیت ہے، اس کے نمونے پیش کرے۔موجودہ عہد میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے اسباب کی نشان دہی کرے اورآگے بڑھنے کے طریقوں کوبتائے اور لائحہ عمل پیش کرے اوریہ واضح کرے کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہی نہیں؛بلکہ انسانیت کے لیے تعلیمی ادارے کس طرح کے ہونے چاہئیں،اس اکیسویں صدی میں ہمیں کیا کرنا ہے۔ اس کتاب سے یہ اور اس طرح کے دیگر موضوعات پر روشنی پڑتی ہے۔خاص طورپر قرآن میں تدبرکو چھوڑ نے سے علوم کاکیا نقصان ہوا اورمسلمان کس قدر خسارے میں ہیں،وہ لکھتے ہیں:
قرآن علم کا خزانہ ہے اوراللہ عالم الغیب ہے اس کا علم بے حساب ہے،زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہے سب چیزوں کا مالک اللہ تعالی ہی ہے،وہ ان میں جس طرح چاہتا ہے تصرف کرتا ہے۔جو کچھ بھی کسی انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے عطاکردہ ہے۔اللہ جس کو جتنا علم دینا چاہتا ہے وہ عطا کرتا ہے۔انسان کا علم محدود ہے اوراللہ کا علم لا محدود ہے۔قرآن کریم کی بہت سی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے علم والوں کو غورکرنے کی تاکید فرمائی ہے۔
پھر انہوں نے ایسی قرآنی آیات کے ترجمے پیش کیے ہیں،جوعلوم سائنس، جیولوجی، ایکوسائنس، ہائیڈر ولوجی،علم زراعت،علم نباتات(ایگری کلچروٹیکسونومی)فن بوٹانی،ایسٹرونومی، اسپیس ٹکنالوجی،علم جینیات،علم حیوانات،ڈیری ٹکنالوجی،انٹامونوجسٹی،علم طب،نائیٹروجن،شوگروہائیڈروجن،کیمیکل وغیرہ کی طرف اشارے کر تے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں: ”قرآن تو علم کا خزانہ ہے“دنیا میں جتنے بھی علوم پائے جاتے ہیں،سب کا سرچشمہ قرآن ہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے قرآن مجیدمیں اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔اورباربار تاکید کی ہے کہ ان پر غورکرو۔اورہم ہیں کہ قرآن وحکمت سے دورہوتے چلے گئے،نتیجہ ہر جگہ ذلیل وخوار ہو گئے اورغلام بنتے گئے،اس لیے ان کی رائے ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کرنی چاہییے۔ترجمہ کے ساتھ قرآن ودینیات کی تعلیم حاصل کرنے میں پانچ سال کا وقفہ ضرور لگ جائے،مگر اس کے اندر ایسی صلاحیت پیدہوجائے گی کہ وہ آگے دوسال میں ہی عصری تعلیم کے تقاضے پورے کر لے گا اورزیادہ اچھا رہے گا۔
ان کا خیال ہے کہ قرآن ودینیات کی تعلیم کا انتظام ہر محلہ میں ہونا چاہئے؛تاکہ ہر مسلمان قرآن ودین کی بات سیکھ لے،قرآن کے بعد ہی کوئی عصری تعلیم کرے۔
پروفیسرڈاکٹرمحمد یونس حکیم صاحب کا تعلیمی تجربہ ساٹھ سالوں سے زائد ہے،انہوں نے بہت قریب سے مسلمانوں کی تعلیمی حالت اوران کے اداروں کو دیکھا ہے۔اس لیے وہ اپنے تجربات کی بنیاد پرلائحہ عمل پیش کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ:
۱۔ مسلمانوں کو ایسی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے جس سے ان کی تہذیب بچ سکے، اردویعنی مادری زبان،اس کے ساتھ لنگویج کی بھی پڑھائی پانچ سال تک قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ہونی چاہیے۔جیسے عربی،انگلش،ہندی وغیرہ۔
۲۔ مسلمانوں کو ایسی تعلیم حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے جس سے روزی کمایا جاسکے،یعنی عصری تعلیم،اس کے تحت ٹکنیکل اورسائنٹیفک تعلیم جو جدید زندگی کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اس سے ملک کی بھی ترقی ہو سکتی ہے۔
۳۔ مسلمانو ں کوایسی تعلیم حاصل کرنے کی بھی ضرورت ہے جس کے ذریعہ دنیا سے رابطہ قائم ہوسکے۔یعنی لنک لنگویج۔انگریزی،عربی،فرنچ وپرشین۔
۴۔ ایسی تعلیم جس سے دیش کے اندر رابطہ قائم ہو،یعنی ہندی۔
۵۔ ایسی تعلیم جس سے جمہوریت کو مضبوطی ملے،یعنی اڈلٹ ایجوکیشن۔
۶۔ ایسی تعلیم جس سے قومی تہذیب مضبوط ہو تی ہو،یعنی آرٹ وفنون ولطیفے کی تعلیم۔
۷۔ تعلیم نسواں،یعنی لڑکیوں اورعورتوں کی تعلیم۔
وہ اپنے تعلیمی تجربے کی بناء پر تعلیمی بہتری کے لیے مدارس اوراسکولوں کے معیارکوبہتر بنانے پر زوردیتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ ہر جگہ تعلیم کا معیار اونچاہونا چاہیے،یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ آپ میٹرک تک کی بہتر تعلیم کے لیے اپنا اسکول قائم کیجئے،جہاں مفت تعلیم دی جاتی ہو،ایسا ادارہ مت قائم کیجئے جہاں تعلیم بیچی اورخریدی جاتی ہو، ہائرایجوکیشن سب کے لیے نہیں ہے،اونچی تعلیم وہی لوگ حاصل کریں جومیری ٹوریس ہیں،اس لیے ہر ایک کا اپنی چیوڈٹسٹ ہونا چاہیے جس سے یہ پتہ چلے کہ کس کے لیے کون سی تعلیم ضروری ہے،اس لیے میٹرک یا فوقانیہ کے بعد عام میرٹ کے بچوں کے لیے پروفیشنل کورسیزکرائی جائے،جیسے پولی ٹینک،پارا میڈیکل،ٹکنیشین،کمپیوٹر اپلیکیشن،اوربہت طرح کے ووکیشنل کورسیز ہیں کرائیے،اس کے لیے چنے ہوئے مدارس،اسکولوں یا الگ سے ادارہ قائم کیجئے،اوردینیات کا ایک پرچہ ضرور پڑھائے۔
وہ کہتے ہیں کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ میرٹ والے لوگ کالج یا مدارس میں اونچی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں،کوشش یہ ہونی چاہیے کہ جن بچوں کا رجحان سائنس کی طرف ہو،ایسے بچوں کو آی،ایس،سی کے بعد انجیئرنگ،میڈیکل،ایگری کلچر،انفارمیشن ٹکنالوجی،بایوٹکنالوجی اورالکٹرونس کی کوچنگ کراکر آگے کی پڑھائی جاری رکھی جائے۔باقی بچے ڈگری کی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں،اورگریجویشن کے بعد پھر پروفیشنل کورسیز کی طرف جانا چاہیے،جیسے ایم،سی اے۔ایم،بی،اے۔چارٹرڈاکاؤٹنٹ،وغیرہ،اس کے بعد بچے ہوئے بچے ایم اے یا فاضل کا کورس کرے،جنرل کالج کھولنے کی ضرورت نہیں ہے،مسلمانوں کو ٹکنیکل یا پروفیشنل کورسیز کے لیے ادارے قائم کرنے چاہیے،جہاں مفت تعلیم کا نظام ہو،تاکہ غریب بچے وہاں تعلیم حاصل کر سکیں۔
وہ لڑکیوں کی تعلیم کو ضروری قراردیتے ہیں،کہتے ہیں کہ یہ نظریہ غلط ہے کہ بچے کو پڑھاؤ،کیوں کہ یہ بڑھاپے کا سہارا بنے گا یا لڑکی گھر ہی میں رہے گی،نتیجہ بہت برا ہے کہ ہمارے یہاں عورتوں کی کثیر تعداد ان پڑھ ہے۔
وہ نئے تعلیم ادارے قائم کرنے پر زور دیتے ہیں کہتے ہیں کہ:
اللہ کا نام لے کر تعلیمی ادارہ کھولیے،غیب سے مدد ہوگی انشاء اللہ،آپ چراغ جلا دیجئے کوئی نہ کوئی خدا کابندہ اس میں تیل ڈالتا رہے گا،اورہر صاحب حیثیت کو چاہیے کہ کم سے کم ایک غریب بچے کی کفالت کرے،تاکہ وہ علم حاصل کر لے،ہر گاؤں میں دینی ادارہ چلانے کے لیے مٹھیا کا انتظام رکھئے، تعلیم پر بحث ہوتی رہے گی اوروقت وحالات کے مطابق نصاب میں تبدیلی ہوتی رہے گی،لیکن ایک چیزہمارے پاس ہے یعنی اللہ کی کتاب اس میں قیامت تک کوئی تبدیلی نہیں ہو گی،یہ سارے انسانوں کے لیے نصیحت و ہدایت کی کتاب ہے،قرآن خود بھی سیکھئے اورسکھا تے رہیے،اورزندگی کو قرآن وسنت کے مطابق گزارتے رہیے۔
سرکار کی طرف سے اڈلٹ ایجوکیشن،لٹریری مشن،سروشکشاابھیان، کستورباگاندھی ودھالیہ،نودے دوھالے،سینٹرل اسکول،پولیٹیکنک اوربہت سی پروفیشنل کورسیز کی تعلیم کا انتظام ہے،آپ اس کی جانکاری حاصل کیجئے اور اس سے فائدہ اٹھائے،منصوبہ بنانا آسان ہے لیکن عمل مشکل ہے،آپ جو کہیں وہ کریں،جونہ کرسکیں وہ نہ کہیں۔
انہوں نے قوم مسلم کی ماضی کی تعلیمی سرگرمیوں کا جائز ہ اورمختلف علوم فنون،سائنس میں مسلمانوں کے گراں قدر تعلیمی ورثہ کا تذکرہ کر کے قرآن وحدیث سے رشتہ استوارکرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کو حال سے جوڑ کر یہ رائے دی ہے کہ مسلمانوں کو اس دورمیں انفارمیشن ٹکنالوجی،ٹیلی میڈیسن، بایو ٹکنالوجی، بایوسائنس اینڈ ٹکنالوجی،ایگری کلچر سائنس،الکٹرونک سائنس،انوائرمنٹل سائنس حاصل کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے،وہ لکھتے ہیں کہ:
میرا ماننا ہے کہ بیسک سائنس ہو یاٹکنیکل سائنس آپ جس میں بھی اچھی صلاحیت رکھیں گے، آپ کی پوچھ تاچھ ہوگی،سائنٹفک ورلڈمیں میرٹ کوبہت دخل ہے اگر آپ میں صلاحیت ہے تو دنیا آپ کو پوچھے گی اورنوکری آپ کے دروازے پر ہوگی اس لیے اپنے میں صلاحیت پیدا کیجئے یہ دورکمپٹیشن کا دور ہے جوپڑھے گا وہ بڑھے گا۔
مگر اس کے ساتھ ہی وہ شریعت پر عمل کو ضروری قراردیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
آپ ڈاکٹرانجینئر،آئی اے ایس،آئی پی ایس،لیڈر،پروفیسر،تاجر وکیل سائنٹسٹ،ملازم یا مزدور جو بننا چاہتے ہیں بنئے لیکن آپ سب سے پہلے مسلمان بنیے،عہد کیجئے کہ قرآن و سنت کے مطابق عمل کریں گے اورکوئی کام خلاف شریعت نہیں کریں گے۔
یہ اس کتاب کے آخری پیراگراف کا ایک حصہ ہے،جوانتہائی اہم ہے،انہوں نے درمیان کتاب احادیث رسول کا اچھا انتخاب کرکے اس کا ترجمہ بھی کیا ہے،جومسلمانوں کی زندگی کے لیے مشعل راہ ہے،انہوں نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ مسلما ن کسے کہتے ہیں اورمسلمان کو کیسا ہونا چاہیے،ساتھ ہی موجودہ تعلیمی زبوں حالی پر بھی انہوں نے مختلف کمیٹیوں کے رپورٹ سے روشنی ڈالی ہے،اس طرح یہ کتاب مختصرہونے کے باوجودجامع ہے اوراس کے لیے مؤلف کتاب بلا شبہ مبارکباد کے مستحق ہیں، امید ہے کہ اصحاب علم اس کتاب سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے،اوریہ کتاب تعلیمی تحریک میں مؤثرکردار اداکرے گی۔
ابتدائی تعلیم سے لے کر اختصاص تک کی تعلیم کا مختصر خاکہ اس کتاب میں آگیا ہے اس سے فائدہ اٹھا نا چاہئے،اس وقت بھارت سرکار کی نئی ایجوکیشن پالیسی پر غورکرکے اس سے اکتساب کرنے کی ضرورت ہے،اورجہاں تک تہذیبی دیومالائی ودیگر مضرامور کا حصہ ہے اس سے احترازکرنا چاہیے اوراس کو بدلنے کی تحریک بھی جاری رہنی چاہئے۔
Comments are closed.