غیر اسلامی رسومات 14فروری ویلنٹائن ڈے ایک مغربی بیماری

رازداں شاہد،آبگلہ ،گیا۔
موبائل نمبر۔ 08507583990
مغربی تہذیب نے بہت سے بے ہودہ رسوم و رواج کو جنم دیا۔ اور بدتہذیبی اور بدکرداری کے نئے نئے طریقوں کو ایجاد کیا۔ جس کی لپیٹ میں اس وقت پوری دنیا ہے اور بطور خاص مسلم معاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ مختلف عنوانات سے دنوں کو منانے اور اس میں رنگ ریلیاں رچانے کے کلچر کو فروغ دینا شروع کیا۔اور اس کی آڑ میں بہت سی خرافات روایات اور بد اخلاقی و بے حیائی کو پھیلانے لگے۔ آج مسلمانوں میں جو غیر اسلامی رسومات پھیل رہی ہے ان میں سب سے قوی محرک مغرب کی ذہنی غلامی ہے جو مسلمانوں کے دل و دماغ پر مسلط ہے۔آج کل خاص کرمسلمان نو جوانو ں میںغیر اسلامی رسومات میں ۱۴ فروری کو ولنٹائن ڈے جس کو ’’یوم عاشقاں ‘‘یا ’’یوم ِ محبت ‘‘ کے نام سے منانے کی بماری ہو گئی ہے جس میں تمام حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بڑے شہروں سے لے کر قصبوں اور دیہاتوں کے نو جوان لڑکوں لڑکیوں کو اس مغربی بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
آخر یہ ولنٹائن ڈے ہے کیا ؟ایک خالص رومی عید ہے جسکی ابتداء سے متعلق کوئی تحقیقی بات کہنا ایک مشکل امرہے البتہ اس عید سے متعلقہ کتابوں اور مقالوں سے پتہ جلتا ہے کہ اسکی ابتداء تقریباً۱۷۰۰سال قبل ہوئی ہے ،اس وقت یہ ایک مشرکانہ عید تھی کیونکہ اہل روم کے نزد یک یہ دن ــ’’یون‘‘”دیوی کے نزدیک مقدس تھا اور ’’یون‘‘”کو عورتوں اور شادی بیاہ کی دیوی کہا جاتاتھا اس لئے رومیوں نے اس دن کو عید کا دن تھہرا لیا ،بعد موقعہ پر ایک حادثہ پیش آیا جسکی وجہ سے یہ دن عشقیہ ،فحش اور غیر شرعی تعلقات رکھنے والوں کی عید بن گیا،کہا جاتا ہے کہ تیسری صدی میں رومی بادشاہ کلا وڈیوس ((Claudiusکو اپنے مخالف کے خلاف فوج کشی کی ضرورت پڑی جس کے لئے اس نے فوج میں بھرتیاں شروع کی تو لوگوں کی رغبت نہ دیکھی ،وجہ معلوم کیا تو معلوم ہوا کہ لوگوں کا اپنے اہل وعیال اور خصوصاًبیویوں کی طرف رغبت ہے لہازااس نے شادی کی رسم کو ختم کرنے کا اعلان کیا ،لیکن ایک پادری جسکا نام ولنٹائن تھااس نے اس حکم کی مخالفت کی اور چھپ چھپا کر نکاح پڑھا تا رہا بادشاہ کو اطلاع ملی تو اس نے پاد ری کو جیل میں ڈال دیا ،جیل میں پادری پر جیلر کئی لڑکی عاشق ہو گئی لیکن معشقہ مکمل نہ ہو پایا کہ پادری کو سولی پر لٹکا دیا گیایہ واقعہ ۱۴ فروری ۲۷۹ء کا بتلا یا جاتا ہے ،اسی مناسبت سے ہر سال ۱۴ فروری کوشادی شدہ اور غیر شادی شدہ جوڑے یہ عیدمناتے ہیں ،جس میں اپنی محبت کا اظہار مختلف انداز سے کرتے ہیں ۔
واقعہ بہر حال جو بھی ہو اور جس مقصد کے لئے بھی اس کا آغاز کیا گیا ہو لیکن آج اس رسم ِ بد نے ایک طوفان ِ بے حیائی برپا کردیا۔ عفت و عصمت کی عظمت اور رشتہ نکاح کے تقد س کو پامال کردیا۔ اور نوجوان لڑکو ں اور لڑکیوں میں آزادی اور بے باکی کو پیدا کیا۔ معاشرہ کو پراگندہ کرنے اور حیا و اخلاق کی تعلیمات، اور جنسی بے راہ روی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ بر سرعام اظہار محبت کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ شرم و حیا،ادب وشرافت کو ختم کرڈالا۔اس کی وجہ سے جو نہایت شرمناک واقعات رونماں ہورہے ہیں اور تعلیم گاہوں اور جامعات میں جس قسم کی بے حیائی بڑھتی جارہی ہے۔ ویلنٹائن ڈے نے پاکیزہ معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ بد امن اور داغ دار کیا ہے۔ اخلاقی قدروں کو تہس نہس کیا ہے، اور رشتوں، تعلقات، احترام، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔ لال گلاب اور سر خ رنگ اس کی خاص علامت ہے، پھول کی تقسیم اور اس موقع پر ویلنٹائن کارڈ کا تبادلہ بھی اظہارِمحبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بڑی پیمانے پر اس کی تجارت ہوتی ہے اور ہوس پرست اس کو منہ بولے دام میں خریدتے ہیں۔ منچلوں کے لئے ایک مستقل تفریح کا سامان بن گیا۔
ویلنٹائن کی جھوٹی محبت کا انجام کیا ہوتا ہے اس کو مختصر جملوں میں بیان کیا کہ:
٭عشق کا بھوت نفرت میں بدل گیا، محبت کی شادمی کا دردناک انجام، خاوند کے ہاتھوں محبوبہ کا قتل۔
٭عشق کی خاطر بہن نے بھائی کا قتل کردیا۔
٭محبوبہ محبوب سمیت حوالات میں بند۔
٭محبت کی ناکامی پر دوبھائیوں نے خود کشی کرلی۔
٭محبت کی ناکامی میں نوجوان ٹرین کے آگے کود گیا، جسم کے دوٹکڑے۔
٭ناکام عاشق نے لڑکی کو والدین چچا اور ایک بچی سمیت قتل کرڈالا۔
یہ وہ اخباری سرخیا ں ہیں جو نام نہاد محبت کی بناپر معاشرتی المیہ بنی آئے روز اخبارات کی زینت بنتی جارہی ہیں۔
اسلامی رو سے جو آدمی اس تہوار کو مناتا ہے یا ایسے تہواروں کی محفل میں شرکت کرتا ہے وہ در حقیقت مشرکین کے تہوار منا رہا ہوتا ہے اور جو مشرکوں کے تہوار مناتا ہے اس کے اعمال اور نیکیاں ساری کی ساری ضائع ہو جاتی ہیں۔(الانعام:۸۸)
عیسائیوں کی آج یہی کوشش ہے کہ مسلمان معاشرے کے اندر اس تہوار کو رواج دے دیا جائے اور اتنا عام کردیا جائے کہ اسلامی تہذیب ،اقدار،تعلیمات اور تشخص بے حیائی کے اس سیلاب کے اندربہہ جائے اور مسلمان اپنی عبادات، فرائض، اعمال اور ذمہ داریوں کو بھول کر اسی میں گم ہو جائے،اور آج ان کی کوشش بہت حد تک کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے ۔
اسلامی تہذیب کی سب سے بڑی خصوصیت ’’شرم وحیا‘‘ہے، سرور کائنات فخر موجودات ختم المرسلین رحمتہ اللعالٰمین احمد مجتبٰے محمد مصطفٰے ﷺکا فرمان ہے : ’’ہر دین کا ایک اخلاق ہوتا ہے اوراسلام کا اخلاق حیا ہے‘‘بے حیائی مسلمان قوم کی موت ہے۔
آج نوجوان مسلمان بچے اور بچیاں مغربی تہذہب کا شکار ہو کر اس تہوار کو منانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی سر توڑ کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔گھروں میں ،اسکولوں میں،کالجوں میں،یونیورسٹیوں ،دفتروں میں اس تہذیب کو فروغ دیا جا رہا ہے۔آج نوجوان مسلمان بچے اور بچیاںجان بوجھ کر حرام کا ارتکاب کر رہے ہوتے ہیں۔نبی کریم ﷺنے بھی اپنے ارشادات میں اس قسم کے کاموں سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے۔
ارے نوجوان مسلمان بچے اور بچیاں اسلام نے محبت کرنے سے روکا نہیں ہے بلکہ اس کے طریقے بتائے ہیں۔محبت کرو اپنے اﷲ سے ،اپنے نبی کریم ﷺسے،اپنے والد سے،اپنے والدہ سے،اپنی بیوی سے اور بیوی کو حکم دیا کے اپنے شوہر سے محبت کرو ،اپنی اولاد سے محبت کرو ،اسلام تو ہر سطح پر محبت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ محبت ایک ایسا جزبہ ہے جو اﷲرب العزت نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے مگر محبت کسی ایک دن کی محتاج تو نہیں،یہ محبت کا دن تووہ طبقہ منائے جہان محبت کا وجود ہی ختم ہو گیا ہو۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا "وہ ہم میں سے نہیں جو غیروں کی مشابہت اختیار کرتا ہے "
امت ِمسلمہ کے نوجوانوں کو ان تمام لغویات اور واہیات قسم کی چیزوں بچنا ضروری ہے، اور معاشرہ کو پاکیزہ بنانے اور اخلاق وکردار کو پروان چڑھانے کے لئے اس طرح کے بے حیائی کو فروغ دینے والے دنوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہے، اور ا س کے بالمقابل اسلام کی حیا کی پاکیزہ تعلیمات کو عام کرنے سکولوں،کالجوں، یونیورسٹیوں کے ماحول میں بالخصوص اور نوجوان اپنے افراد واحباب اور دوستوں میں بڑے اہتمام کے ساتھ اس دن کے حقیقت اور تباہ کاری سے آگاہ کریں اور ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچائیں جو کسی بھی اعتبار سے معاشرہ میں بے حیائی کے پھیلنے کا ذریعہ بنے اور دنیا والوں کو اسلام کی بلند ترین تعلیمات کا خوبصورت نمونہ پیش کرنے والے بنیں۔
مسلمانوںکامعاشرہ مسلمانوں کے ہاتھ میںہے۔وہ جس طرح چاہیں اپنے معاشرے کی تربیت کر سکتے ہیںاور جس انداز میں چاہیں سنوار سکتے ہیں۔ یہاں مرد بھی موجود ہے اور عورت بھی ،محبت حلال ہو حرام نہیں ہونی چاہئے ،اس لئے یہ جو آج ہمارے معاشرے کے اندر ایک سیلاب آرہا ہے غیر وں کی تہذیب اور ان کے تہوار منا نے اور ان کو اپنانے کا سیلاب ،یہ مسلمانوں کے ایمان کے لئے خطرہ ہے۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اس سیلاب کو بڑھنے سے روکیں ۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اس مغربی تہذیب سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔اس لئے جہاں تک ہماری ہمت ہے وہاں تک اسلامی زندگی کو رواج دیں۔
اس لئے ہر عزت مند مسلمان کے لئے یہ پیغام ہے کہ وہ اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہے اور اس بات پر فخر محسوس کرے ۔غیر قوموں کی مشابہت ،انکی عیدوں میں شرکت ،انکی عیدوں کو اپنے ملکوں میں ترویج دینے اور کافروں کیشرکہ وبدعیہ عیدوں کے موقع پر انہیں تحفہ تحائف اور مبارک باد پیش کرکے اپنے دین کو برباد ہونے سے بچا لیں یہ ہم سب کا فرض ہے ورنہ آخرت میں ایک عبرت ناک عذاب ہمارا مقدر ہے گا ،اﷲ ہم سب کو سوچنے اور سمجھنے کی تو فیق دے۔
اﷲرب العزت تمام مسلمانوں کو ہر برے رسم و رواج اور روایات سے محفوظ فرمائے
اور اسلامی اقدار کو اپنانے کی توفیق ؑطا فرمائے (آمیں)۔
Comments are closed.