کاش ایساہوجائے!

سمیع اللہ ملک
کیایہ اتفاق ہے کہ 3سال قبل ایران میں مسلسل ہونے والے مظاہروں اوراسی دورمیں سعودی عرب میں بھی مذہبی پابندیاں ختم کی گئی،اس حوالے سے سب سے امریکااورمغرب میں یہ پروپیگنڈہ شروع کیاگیاکہ کہ1979 میں مسلم دنیانے شدت پسند دائیں بازو کاتنگ نظرمقف اختیارکرلیاتھااورجس کے بارے میں مشرق وسطی کے ماہرمامون فینڈی نے کہاتھاکہ’’ اسلام کی بریکیں فیل ہوگئی ہیں‘‘اورساری دنیااسے محسوس کررہی تھی کہ آیاان دونوں ملکوں کے ذریعے سے اس کے خاتمے کاآغازہونے والاہے۔ 1979کے واقعات نے خواتین کے مقام ومرتبے،تکثیریت اورجدیدتعلیم کوعرب مسلم علاقے میں گھٹاکررکھ دیاتھااوران واقعات نے القاعدہ،حزب اللہ اورداعش کوقوت وتوانائی فراہم کی جن کی سرگرمیوں نے معصوم وغیرمعصوم مسلمانوں کویکساں نقصان پہنچایا،یہاں تک کہ دنیابھرکے ہوائی اڈوں پرکثیر میٹل ڈی ٹیکٹرلگادیے گئے جومسافروں کے تحفظ کے نام پرمسافروں کیلئے عجیب پریشانی اورتکلیف کاسبب بنے ہوئے ہیں گویاہوائی سفرکے ہرمسافرکویہ یقین دلایاجاتاہے کہ اس ساری مصیبت کے ذمہ داردراصل یہی شدت پسندگروہ ہیں جبکہ ہم توآپ کی سلامتی کیلئے اس مشکل ترین نظام کواستعمال کرنے پرمجبورہیں۔
1979کے واقعات کے بارے میں کچھ میں بھی جانتاہوں کیونکہ اس وقت میں مڈل ایسٹ میں کام کررہاتھااورمیں نے مشرق وسطی کے موضوعات پرتسلسل کے ساتھ لکھناشروع کردیاتھا:ایران میں آیت اللہوں کا حکومت پرقبضہ،حکومتی کنٹرول میں دائیں بازوکے سخت گیرشیعہ علماکی تیاری(جودنیابھرمیں اپنے اسلامی انقلاب کوپھیلانے اورعورت کومسلم دنیامیں نقاب پہنانے کولازمی قراردے رہے تھے)،نیزمکہ میں مسجد الحرام پراچانک20نومبر1979ء کو شدت پسندوں نے قبضہ کرکے ساری دنیاکوجہاں ورطہ حیرت میں مبتلا کردیاوہاں عالم اسلام کودوہفتوں تک سخت اذیت میں مبتلاکردیا،جس سے سعودی حکمران خاندان نے ردعمل کے طورپراپنے ان خیالات کوعملی جامہ پہنانے لگے کہ موسیقی،تفریح اورخوشیوں بھرے مسرت آمیز پروگرامات تک کواپنی صحرائی ریاست سے نکال باہرکرناشروع کردیا۔اپنے معاشرے پر مذہبی پولیس کاکنٹرول بڑھادیا،عورتوں سے نفرت رکھنے اورتکثیریت مخالف تشریح،اسلام کی لندن سے جکارتہ تک برآمدمساجدمیں دگناتگنااضافہ شروع ہوگیا۔ایرانی مذہبی افرادکی طرف سے بھی جوابی طورپراپنے انقلاب کوبرآمدکرنے کی کوششیں بھی تیزہوگئیں اورکئی زبانوں میں انقلاب کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی افکارکی برملاتبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنے ہم خیالوں کی ہرقسم کی امدادکامنہ کھول دیاگیا۔
اس کے علاوہ1979 میں سوویت افواج نے افغانستان پرحملہ کردیااورامریکانے اپنے اہداف کے حصول کیلئے اسلام پرست مجاہدین(جنگجوں)کی حوصلہ افزائی شروع کردی جبکہ افغان مجاہدین توخالصتاًروسی جارحیت کامقابلہ کرنے کیلئے اپنے ملک کے دفاع کیلئے اپنی جانوں کی بے مثال قربانیاں دیکرایک تاریخ مرتب کررہے تھے تاہم جہاں سعودی عرب نے اس کیلئے وسائل فراہم کیے وہاں پاکستان نے بھی اس جہادکی تائیدمیں لازوال قربانیاں دیکرسوویت یونین کوبدترین شکست دیکراس کے بطن سے مزیدچھ مسلم ریاستوں کو آزادی کاکامیاب راستہ دکھایا۔اسی دورمیں’’تھری مائل جزیرے کاجوہری حادثہ‘‘جس نے امریکی جوہری ملک تک کومزیدجوہری تیاری سے کچھ روک دیا۔جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں تعطل،مشرق وسطی میں بحران اور1978میںڈینگ ژیاپنگ کی یہ تحریک کہ چین میں سرمایہ داری کوکام کرنے کاموقع دیاجائے،کی وجہ سے ضروری ہوگیاکہ تیل کی
مصنوعات میں اضافہ کامطالبہ کرلیاجائے۔اس لیے ایران اورسعودی عرب کے پاس کسی بھی دورکی نسبت سے زیادہ دولت آگئی اوران کے درمیان تیزترین مقابلہ شروع ہوگیاکہ کون اپنی تشریح والے اسلام کی تعبیرکودوسرے تک اوردورتک پہلے پہنچائے گا۔
لیکن اب ایران اورسعودی عرب میں کچھ چیزیں مشترک ہیں،ان کی آبادیوں کی اکثریت کی عمریں تیس سال سے کم ہیں،سوشل میڈیانیٹ ورک اوراسمارٹ فون کے ذریعے نوجوان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،اوران کی بڑی تعداد اس بات سے تنگ ہے کہ پرانے،بدعنوان اورگلاگھونٹنے والے علماکے ذریعے انہیں بتایاجائے گاکہ اپنی زندگی کیسی گزاریں۔وہ1979کے ماضی کودفن کردیناچاہتے ہیں اورہراس چیزکودفن کردیناچاہتے ہیں،جو1979کے واقعات کے ردِعمل کے ذریعے سے آئی ہے۔آج سے تین سال قبل ایران بھر میں جوشدیدمظاہرے ہوئے تھے،ان کی شروعات توقومی بجٹ اورمہنگائی کے خلاف احتجاج تھا جس کوسوشل نیٹ ورک پربہت پھیلایاگیا۔روزگارسے محروم ایرانی نوجوان نسل نے دیکھاکہ کس بڑی مقدارمیں رقوم اسلامی پاسدارانِ انقلاب اوران کی شام،لبنان،عراق اوریمن میں مہمات میں اوراسلامی اداروں میں غرق کی جارہی ہے ۔ٹائمزکے تھامس ایڈنبرنگ کے مطابق ایساشخص جواپنے مرحوم آیت اللہ باپ کی لائبریری سنبھالے بیٹھاتھااس نے دیکھاکہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہورہاہے کہ جب حکومت کم آمدنیوں والے تین کروڑایرانیوں کوملنے والی رعایت ختم کررہی ہے اوراس میں ردِعمل پیداہوا۔
ایران کی آبادی تعلیم یافتہ ہے اوران کی ٹھوس تہذیبی روایات ہیں۔یہ قوم باصلاحیت ہے کہ سائنس،میڈیسن،کمپیوٹراورآرٹس میں غیرمعمولی اضافہ کرسکے۔تاہم جوٹولہ حکومت میں بیٹھاہے اس کی کوشش یہ نہیں ہے کہ ایرانی نوجوانوں کوقوت فراہم کی جائے بلکہ یہ کوشش ہے کہ ناکام عرب ریاستوں میں ایران کانفوذبڑھایاجائے،جس پراربوں ڈالرخرچ ہو رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مظاہرین نے نعرے لگائے۔مرگ برحزب اللہ،(لبنان میں ایرانی حکومت کی حمائت یافتہ فوج)مرگ برآمر(ایران کے رہنماعلی خامنہ ای)،شام کو چھوڑ دو،ہمارے بارے میں غورکرو۔ان واقعات کے چندماہ بعدمیں سعودی عرب میں بھی نوجوان انہی خیالات کااظہارکررہے تھے’’ہم چاہتے ہیں کہ(المطوع)مذہبی پولیس ہمارے سامنے سے ہٹ جائے‘‘۔’’میں اپنی زندگی بغیرکسی مداخلت کے گزارناچاہتی ہوں۔میں اپنی قوت کوبھرپورطریقے سے عمل میں لاناچاہتی ہوں‘‘۔یہ وہ آوازہے کہ جس کاسعودی عورتیں اظہارکر رہی تھیں۔
نوجوان عورتیں یہ کہتی بھی سنائی دیں’’میں چاہتی ہوں کہ میں کنسرٹس میں جاؤں،اپنی گاڑی چلاؤں،اپناکاروبارشروع کروں، دوسری صنف کے لوگوں سے ملوں جلوں اورسینما دیکھوں،میں یہ بھی چاہتی ہوں کہ سعودی ثقافت،سعودی کھانوں اورسعودی فنونِ لطیفہ سے لطف اندوزہوں،صرف اسلام سے نہیں ‘‘لیکن سعودی عرب میں وہ پرتشدد مظاہرے نہیں ہوئے جوایران میں نظر آئے۔ایران میں رہنما80سال کابوڑھاعلی خامنہ ای ہے جبکہ سعودی عرب پرایک34سالہ ارب پتی نوجوان کی حکمرانی ہے،جو ایم بی ایس کے نام سے جاناجاتاہے۔یہاں عام قاری کے ذہن میں یہ خدشات بھی جنم لیتے ہیں کہ کیاسعودی عرب میں نوجوان مردوزن میں آزادی کی لہرمیں کوئی خفیہ ہاتھ بھی شامل تھاجواپنے مقاصد کیلئے امریکاومغرب میں مقبولیت حاصل کرکے اپنے اقتدارکاراستہ ہموارکررہاتھا۔
محمدبن سلمان کے سامنے کئی مسائل ہیں وہ من موجی اورمطلق العنان رہاہے،جس کی وجہ سے اس کے ملک اوراس کے اعتماد کونقصان پہنچاہے۔لبنان کے وزیراعظم کواستعمال کرکے اس سے استعفی دلوانا،یمن کی جنگ میں کودپڑنااوریمن میں انسانی المیہ میں حصہ ڈالنااوراربوں ڈالرکی پینٹنگزخریدنااوراپنے ملک میں بدعنوانی کے خلاف مہم چلانا،کیسے عجیب معاملات ہیں لیکن یمن کی موجودہ تباہی میں ایران کوبھی بری الذمہ ٹھہرایانہیں جاسکتاجنہوں نے ایک ہم خیال اقلیت کی حمائت میں اپنی ہی قوم کے اربوں ڈالرجنگ کی آگ میں جھونک دیئے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔
مغربی میڈیاکے مطابق یہ محمدبن سلمان کی کامیابی ہے کہ وہ سعودی نوجوانوں کے جذبات سے آگاہ ہے اورجہاں تک معاشرتی اصلاحات کاتعلق ہے(سیاسی شمولیت ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے)اس نے وہ اقدامات کیے ہیں جواس کے کئی عم زادکرنے کی جرأت بھی نہ کرسکے۔مذہبی پولیس کوبازاروں سے ہٹانا،سعودی عورتوں کوگاڑی چلانے کی اجازت دینا ، علماومفتیان کی طاقت کومحدودکرنا،عورتوں کواجازت دیناکہ وہ مردوں کے ساتھ کھیلوں میں حصہ لے سکیں،سنیماگھرکھولنا،مغربی اورعرب عوامی فنکاروں کواجازت دیناکہ وہ مملکت میں آکراپنے فن کامظاہرہ کریں اوراس عزم کااظہارکرناکہ وہ سعودی اسلام کومزید ماڈریٹ اسلام میں تبدیل کردیں گے،جوکہ1979سے پہلے کے دوروالاہوگااوراس کانام وژن2030رکھاگیاہے۔
محمدبن سلمان حقیقت میں چین کے ایک ملک دونظام کے خاکے کاسعودی چربہ تیارکررہے ہیں۔یہ بات مجھ سے خلیج کے کئی ایک تاجروں اورقلمکاروں نے کہی،اگرآپ مذہبی ہیں اورمکہ جاناچاہتے ہیں آپ کوراستہ ہموارملے گا،اگرآپ مذہبی نہیں ہیں اور ڈزنی ورلڈجاناچاہتے ہیں توآپ کیلئے وہاں جانابھی آسان ہوگا۔محمدبن سلمان صرف ایک سعودی عرب سے متزوج ہیں جہاں ابھی تک یہ قبائلی کلچرہے،جس کامطلب ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعدادآمریت اورفوج سے متنفرہے۔محمدبن سلمان ان دنوں اپنے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پوری طرح کوشاں ہے کہ مذہبی انتظامیہ کے درمیان سے راستہ کیسے نکالاجائے،جس کے اندراب بھی یہ صلاحیت ہے کہ کم تعلیم یافتہ مفتی،دیہاتی اورچھوٹے شہروں کے سعودیوں کوآل سعود کے خلاف متحرک کرسکیں،اگروہ محسوس کریں کہ سماج میں بہت تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں یایہ کہ نوجوانوں کوبڑے پیمانے پرنوکریاں نہیں مل رہی ہیں۔
اس سلسلے میں سابقہ امریکی صدرٹرمپ کے یہودی دامادجیرالڈکشنزکی محمدبن سلمان کے ساتھ دوستی،اورخصوصی مہمان کی حیثیت سے ذاتی محل میں قیام،سعودی معاشرے میں جدید تبدیلیوں کے منصوبوں کے آغازاوراپنے مخالفین کو کرپشن کے نام پر قیدکرکے ان سے کئی سوبلین ڈالرزکی وصولی کے ساتھ ساتھ جہاں ان کوہمیشہ کیلئے اقتدارکی دوڑسے باہر کرنا مقصودتھاوہاں امریکاکی دیوالیہ اوربندہوتی ہوئی اسلحے کی انڈسٹری کودوبارہ زندگی عطاکرنے کیلئے سعودی تاریخ کی سب سے بڑی اسلحے کی ڈیل کے ساتھ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے منصوبے پربڑی کامیابی کے ساتھ عملدرآمدکرواناان کے مشن میں شامل تھا۔
ایرانی مذہبی راہنما،اس کے برعکس ایک ملک دونظام میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ایران زیادہ جدیدمعاشرہ ہے اوربادشاہت سے دورجاچکاہے،اس لیے ایرانی نوجوانوں کوکوئی خطرہ نہیں ہے کہ وہ سڑکوں پرنکلیں۔ایرانی نوجوان اپنے مظاہروں کے دوران برملایہ الزام لگاتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ آیت اللہ مذہبی آمرجس قدراپنے معاشرے کااستحصال کرتے ہیں(اورمذہبی راہنماں کالبادہ اوڑھے رکھتے ہیں)،نوجوان ایرانی اسی قدران کی مزاحمت کرتے ہیں۔ایران کے زیادہ ماڈریٹ صدرحسن روحانی نے اپنے عوامی خطاب میں کہاآنے والی نسلوں پرکوئی اپنے طرززندگی کومسلط نہیں کرسکتا۔مسئلہ یہ ہے کہ ہم دونسلوں پر یہ پابندی عائدکرناچاہتے ہیں کہ وہ اس راستے پر چلیں،جس پرہم چلتے رہے ہیں۔ کارنیگی انڈومنٹ کے ایک ایرانی ماہرکریم سجدہ پورکاکہناہے کہ اس لحاظ سے آج کاسب سے دلچسپ سوال یہ ہوگا کہ کس کا تزویراتی وژن زیادہ موثرہوگا،محمدبن سلمان کاوژن 2030 یاعلی خامنہ ای کاوژن1979۔یادرہے محمدبن سلمان ایک جدیدحکمران ہے جوکہ واضح طورپرروایتی معاشرے پرحکمرانی کررہاہے،جبکہ خامنہ ای ایک روایتی لیڈرہے
جوایک جدیدمعاشرے پرحکمرانی کررہاہے لیکن فرق واضح ہے کہ سعودی عرب میں اب بھی کسی کواپنے حقوق کیلئے کسی بھی قسم کے مظاہرے کی قطعااجازت نہیں جبکہ ایرانی نوجوانوں کے مظاہروں میں مطالبوں جیسے عمل کاتوتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔
تاہم سعودی عرب میں یہ تحریک اب بھی جاری ہے کہ1979کوبھول جایاجائے اورایک مختلف سماجی کلچرکوپروان چڑھایا جائے۔ایران میں بھی نیچے سے اوپرتک نوجوانوں میں یہ مہم چل رہی ہے کہ1979کوپیچھے چھوڑدیاجائے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ برسراقتدارانتہاپسندچاہتے ہیں کہ حکومت کے خلاف متوازی قوت کوملیامیٹ کردیاجائے۔ہمیں چاہیے کہ ایران اورسعودی عرب دونوں کویہ راستہ دکھائیں کہ 1979کوبھول جائیں،یہ دنیابھرکے مسلمانوں کیلئے تحفہ ہوگااورتمام دنیاکیلئے بھی،جن کے کھربوں ڈالران لڑائیوں میں جھونکے جاچکے ہیں جو1979کے بعدشروع ہوئیں۔اگرجنگ کے شعلوں میں جھونک جانے والے وسائل اپنی عوام پرخرچ کیے جاتے تویقینانہ صرف ان دونوں ملکوں کی معیشت خوشحالی کے آسمان کوچھورہی ہوتی بلکہ خطے میں بھی امن کے ساتھ ساتھ ترقی کے نئے راستے کھل سکتے ہیں۔نئے امریکی صدرجوبائیڈن نے بظاہریمن جنگ کی حمائت سے لاتعلقی کااظہارکرتے ہوئے سعودی عرب کی حفاظت کی ذمہ داری کااعلان کرتے ہوئے مزیداسلحے کی فروخت پرپابندی کاعندیہ دیکرمزیدکئی عنوانات کی طرف اشارہ کردیا ہے۔گویااس دوستی کی آڑمیں سعودی عرب میں مزیدکئی تبدیلیوں کامطالبہ بھی کیاجائے گااوربالخصوص انسانی حقوق کی پامالی کے حساب کے ساتھ ساتھ کئی سعودی روایات کوختم کرنے پربھی زوردیاجائے گا۔کیاخطے میں ایران اورسعودی عرب اس دباکامقابلہ کرنے کیلئے براہ راست دوستی کاہاتھ بڑھاکر اپنے عوام کی خوشحالی کویقینی بنانے پرآمادہ ہوجائیں گے؟کاش ایساہوجائے!
Comments are closed.