چین کے مظلوم مسلمان اور ظلم وبربریت کی خوفناک داستان!

سرفراز احمدقاسمی،حیدرآباد
برائےرابطہ:8099695186

چین ایک ایسا ملک ہے جہاں دنیا کی سب سے قدیم تہذیب وتمدن کا ظہور ہوا، گویا یہ ملک تہذیب وثقافت کے لحاظ سے انتہائی قدیم ہے، اسکے بارے میں مؤرخین نےلکھاہے کہ "چینی تہذیب دنیاکی چار سب سے قدیم تہذیبوں میں سے ایک ہے اسکی ثقافت کئی ہزار برسوں کی مسلسل تاریخ پرمبنی ہے، جو اسے تہذیبوں کا گہوارہ بناتی ہے” وکیپیڈیا کے مطابق چینی تہذیب دنیا کی ان چند تہذیبوں میں سےایک ہے جو بیرونی مداخلت سے تقریبا محفوظ رہیں، اور اسی وقت سے اسکی زبان تحریری شکل میں موجود ہے، چین کی کامیابی کی تاریخ کوئی 6ہزار سال قبل تک پہنچتی ہے، صدیوں تک چین دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم اورمشرقی ایشیا کا تہذیبی مرکز رہا، جسکے اثرات آج تک نمایاں ہیں، اسی طرح چین کی سرزمین پر بہت ساری ایجادات ہوئی، جن میں چار مشہور چیزیں،کاغذ، قطب نما، بارود اورچھاپہ خانہ شامل ہیں، آبادی کے لحاظ سے بھی چین دنیا کاسب سے بڑا ملک ہے، جسکی آبادی ایک ارب چالیس کروڑ 50ہزارہے، چین میں مسلمان چودہ سوسال سے موجود ہیں اورچینی معاشرے کے ساتھ مسلسل رابطے اور تعلق میں ہیں، مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد چین کے مختلف علاقوں میں رہتی ہے، مسلم آبادی کے لحاظ سے چین کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک حصہ وہ ہے جو ترکستان کہلاتا ہے، اسکی سرحدیں منگولیا، روس، قازقستان کرغستان ،تاجکستان، افغانستان، پاکستان، بھارت اور تبت وغیرہ سے ملتی ہیں، اس حصے کو اب سنکیانگ کہا جاتا ہے، اس حصے پرعرصہ دراز تک مسلمانوں کی حکومت رہی اور اب چین نے اس علاقے پر ناجائز قبضہ کررکھاہے، اس علاقے میں ترکی النسل مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے، دوسرا حصہ وہ ہے جو ترکستان کہلاتا ہے، ترکستان کے علاوہ چین کے دیگر مختتلف علاقوں میں بھی مسلمانوں کی آبادی ہے، ایک محتاط اندازے اور مجموعی اعتبار سے پورے چین میں تقریباً دس کروڑ مسلمان آباد ہیں، لیکن چینی حکومت اس اعدادوشمار سے انکار کرتی ہے،اور بہت کم تعداد بتاتی ہے،‌ جو ناقابل یقین اور بعید‌ از حقیقت ہے۔
ابتدائے اسلام میں مسلم تاجروں نے چین کا سفر کیا جسکی وجہ سے وہاں لوگوں نے اسی وقت سے اسلام قبول کرنا شروع کردیا تھا، مشرقی ترکستان جسے اب سنکیانگ کہا جاتاہے اس پر چین نے آج تک قبضہ کر رکھا ہے، مغربی ترکستان وہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جس پرسوویت یونین (روس) نے قبضہ کرلیا تھا جسکو 1991 میں آزاد کردیا گیا،جبکہ مشرقی ترکستان(سنکیانگ) ابھی بھی چین کے قبضے میں ہے،اس علاقے پر اٹھارویں صدی کے وسط میں چنگ سلطنت نے قبضہ کرلیا تھا،اور اسکا نیا نام سنکیانگ رکھا تھا،اس علاقے کو اب بھی اسی نام سے جانا جاتا ہے، یہاں آباد ایغور ترکی النسل مسلمانوں کی آبادی بتدریج کم ہورہی ہے، 1948 میں اس خطے میں مسلم آبادی 98فیصد تھی، یہ صوبہ چین کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اور اسکی آبادی تقریباً 3کروڑ ہے، اس علاقے میں پٹرول، کوئلہ اور پورینیم کے ذخائر ہونے کی وجہ سے چین کی اقتصادی اور عسکری حالت کافی حدتک اس علاقے پرمنحصر ہے، چین ایک طویل عرصے سے وہاں کے کمزور مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے، چینی مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی خبریں وقفے وقفے سے اخبارات وغیرہ میں آتی رہتی ہیں،
2018 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی نے جینوا میں ہونے والے اجلاس میں یہ بتایا تھا کہ چین میں دس لاکھ سے زیادہ ایغور مسلمانوں کو ایک بہت بڑے خفیہ حراستی کمیپ میں بند رکھا گیا ہے،اور انکے تمام حقوق سلب کرلئے گئے ہیں، اقوام متحدہ کے رپورٹ کے مطابق چین میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، جیسے وہ ملک دشمن ہوں، چین اپنے ظالمانہ کردار کو دنیا سے چھپانے کی ہمیشہ کوشش کرتا ہے، اور عالمی میڈیا پر غلط بیانی کاالزام عائد کرکے ان خبروں کو غلط قرار دیتاہے، چین ہمیشہ سرخیوں میں رہتاہے، بھارت کی سرحد پر بھی قبضہ کرکے اس نے گاؤں بسالیا ہے، چینی مسلمانوں پر ظلم وبربریت کی ایک طویل اور خوفناک داستان ہے، بھارت کی سرحد پر وقتاً فوقتاً کشیدگی پھیلانے کے لئے بھی چین اپنا تعارف کراتا رہتا ہے، 1949 میں چین پر کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد چینی حکومت نے سنکیانگ کے مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر پابندی لگادی، دینی اداروں کو بند کردیا گیا،مساجد کو اصطبل اورفوج کی رہائش گاہ بنادی گئی، علاقائی زبان کوختم کرکےچینی زبان تھوپ دی گئی، شادی وغیرہ سے متعلق تمام مذہبی رسومات پر پابندی عائدکردی گئی،چین میں مسلمان نہ مساجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں نہ روزہ رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی انھیں کسی طرح کی کوئی مذہبی آزادی حاصل ہے،وہاں کے مسلمانوں پر عرصہ حیات مسلسل تنگ کیا جارہا ہے،اب تو اس سے بھی زیادہ ہولناک بات یہ ہے کہ وہاں نسل کشی کی جارہی ہے، ایک تازہ رپورٹ اسی ماہ اخبارات میں شائع ہوئی ہے، آئیے دیکھتے ہیں اس رپورٹ میں کیا ہے، مقامی اخبار کے مطابق "گذشتہ ہفتہ برطانیہ کے ایک نشریاتی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ”چین میں ایغورافراد کےلئے بنائے گئے تربیتی کیمپوں میں خواتین کے ساتھ منظم انداز میں ریپ کیا جاتا ہے،انھیں جنسی طورپر ہراساں کیاجاتاہے اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے، متعدد سابق قیدیوں اور ایک گارڈ نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ خود انکے ساتھ اسطرح کا ہولناک تجربہ ہوچکا ہے،یا وہ ایسے منظم ریپ، اجتماعی جنسی زیادتی اوراذیت رسانی کے شاہد رہے ہیں،
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے ان خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ان خبروں پر انتہائی تشویش ہے، اور ان مظالم نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھدیا ہے،یہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کے لئے بنائے گئے تربیتی کیمپوں میں خواتین کے ساتھ منظم ریپ اور جنسی استحصال کے براہ راست ثبوت ہیں، امریکی عہدیدار کا مزید کہنا تھا کہ چین کو سنکیانگ میں ایغور اقلیتوں پر ہونے والی دیگر زیاتیوں کے علاوہ جنسی زیادتی کے ان الزامات کی بین الاقوامی مشاہدین کے ذریعے فوری اور آزادانہ تفتیش کی اجازت دینی چاہئے، گزشتہ برس ایک جرمن محقق نے چین پر الزام لگایا تھا کہ سنکیانگ میں مسلم عورتوں کو زبردستی بانجھ بنایا جارہا ہے، انھیں حمل ساقط کرانے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اورڈرا دھمکا کر فیملی پلاننگ کرائی جاتی ہے۔ چین نے اگرچہ اس خبر کو حقائق سے بالاتر قرار دیا ہے اور اس سے انکار کیا ہے، لیکن چین کے انکار کردینے سے کیا اس خبرکی حساسیت ختم ہوجائے گی؟ سوال دراصل یہ ہے کہ اب تک اتنے سنگین جرائم کے بعد عالمی طاقتیں خاموش کیوں ہیں؟پوری دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں کے تعلق سے اسطرح کے معاملے سامنے آتے ہیں اس پر عالمی برادری معنی خیز خاموشی کیوں اختیار کرلیتی ہے؟ کیا صرف تشویش کا اظہار کردینے سے معاملہ حل ہوجائے گا یا اس سے آگے بھی اور کسی اقدام کی ضرورت ہے؟اتنے سنگین اور ہولناک مسئلے پر پوری دنیا کے ضمیر فروش مسلم حکمرانوں کی پراسرار خاموشی کا کیا مطلب ہے کیاوہ اسکے مجرم نہیں ہیں؟ آخر ہر طرف سناٹا کیوں ہے؟ اصل سوال یہ ہے، کیا مسلم حکمرانوں کا ضمیر بالکل مرچکا ہے، تھوڑی دیر کے لئے اگر یہ مان لیا جائے کہ پوری دنیا میں اسلام مخالف فضاء بنائی جارہی ہے اورعالمی حکمراں مسلمانوں کے ساتھ ہورہی ظلم وستم پرخاموش رہتے ہیں تو اور کوئی آواز نہیں اٹھاتے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ اس کے لئے مجبور ہیں لیکن مسلم حکمراں کیوں اسطرح کے مسائل پر چپی سادھ لیتے ہیں انکی مجبوری کیا ہے؟
گذشتہ سال جرمن وزارتِ خارجہ نے اپنی ایک خفیہ رپورٹ جاری کی تھی ،جس میں یہ بتایا تھا کہ چند سالوں کے دوران سنکیانگ میں انسانی حقوق کی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے، ڈوئچے ویلے اور دو دیگر جرمن صحافتی اداروں نے جرمن وزارتِ خارجہ کی اس خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 2016 کے بعد سنکیانگ میں ایغور مسلمان اقلیت کے خلاف امتیازی سلوک کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے، جرمن وزارت خارجہ نے یہ رپورٹ انسانی حقوق کی تنظیموں، وکلاء اور مغربی ممالک کے سفارت خانوں اوربین الاقوامی تنظیموں کی معلومات کی روشنی میں تشکیل دی تھی، چین میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے بارے میں جرمن وزارت خارجہ نے یہ رپورٹ گذشتہ برس دسمبر یعنی 2019میں تیار کی تھی،ایغور کے باشندے سنی مسلمان ہیں، انسانی حقوق کے جائزے کی اس رپورٹ میں جرمن وزارتِ خارجہ نے مزید بتایا تھا کہ سنکیانگ میں تقریباً ایک کروڑ ایغور مسلمان آباد ہیں، اور ان میں سے دس لاکھ افراد نظر بند ہیں یا پھر چینی حکام کے حراستی مراکز اور کیمپوں میں قید ہیں،چین نے 2016 کے اواخر میں ایغور مسلمانوں کے لئے یہ مبینہ کیمپ تیار کئے تھے، اس رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کیمپوں میں ایغور برادری پر جنسی تشدد بھی کیا گیا، اور جسمانی تشدد سے اموات بھی ہوئی ہیں، اب تک لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا جاچکا ہے،
چینی مسلمانوں کی داستان اتنی خوفناک ہے جسے سن اور پڑھکر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں،وہاں مسلمان ہونا ہی سب سے بڑا جرم ہے اور اسی جرم کی قیمت وہ کئی سالوں سے ادا کررہے ہیں،چین نے مظالم کی انتہاء کردی ہے، معصوم بچوں کو ماں کی گودسے چھین کر بورڈنگ اور اسکول بھیج دیا جاتا ہے،2019میں ایک ٹیچر نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ معصوم بچوں کو انکے ماں باپ سے الگ کرکے 5لاکھ مسلم بچوں کو بورڈنگ میں بھیج دیاگیا، بچے روتے رہتے ہیں، اس ٹیچر نے ایک بچی کے بارے میں لکھا کہ”سب سے زیادہ دل توڑنے والی بات تو یہ ہے کہ ایک بچی اکثر ٹیبل پرسرجھکائے اکثر بیٹھی رہتی تھی اور روتی رہتی تھی، جب میں نے تفتیش کی تو پتہ چلا کہ وہ اپنی ماں کو یاد کرکے رورہی تھی، اس ٹیچر نے آگے لکھاکہ بچی کی ماں کو اقلیتی مسلم برادری سے ہونے کی مدنظر حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا ہے،بچی کے والد کی موت ہوگئی ہے، لیکن دیگر رشتہ داروں کو اسکی دیکھ بھال کرنے کی اجازت دینے کے بجائے حکام نے اسے حکومت کے ذریعے چلائے جارہے ایک بورڈنگ اسکول میں بھیج دیا ہے، یہ ایسے سینکڑوں اسکولوں میں سے ایک ہے جسے سنکیانگ میں حکومت کی جانب سے کھولا گیا ہے،‌ اسی طرح 2019 میں یہ خبر بھی میڈیا میں آئی تھی کہ کیمپوں میں محروس مسلمانوں کو جمعہ کے دن خاص طور پر خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا جاتا ہے، اسلام میں جمعہ کو خاص اہمیت حاصل ہے، اور خنزیر حرام ہے لیکن جمعہ ہی کے دن جبری طور پر کیمپوں میں مقیم لوگوں کو خنزیر کا گوشت کھانے پرمجبور کیا جاتا ہے، ان باتوں کا انکشاف ایک خاتون نے اپنے انٹرویو میں کیا تھا جو حکومت کے ان مظالم کا شکار ہوچکی ہیں، انھوں نے کہا تھا کہ "ہرجمعہ کو ہمیں خنزیر کا گوشت کھانے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے، حکومت نے جان بوجھ کر یہ دن منتخب کیا ہے جمعہ کا دن مسلمانوں کے لئے پاک دن ہے، اگر آپ اسے کھانے سے انکار کرتے ہیں تو آپ کو سخت سزادی جاتی ہے” وہاں مسلم قبرستان کو چن چن کر منہدم کیا جارہا ہے، یہ ہے چین کے مظلوم مسلمانوں کی خوفناک اورہولناک داستان، کیا آپ کو لگتا ہے کہ اسطرح ظلم وبربریت کاسلسلہ بھی جاری رہے اور دنیا میں امن وامان بھی قائم رہے، یہ تو ہرگز نہیں ہوسکتا، آج پوری دنیا میں امت مسلمہ انتہائی پرآشوب دور سے گذررہی ہے، ایسے میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں یہ ہمیں سمجھنا ہوگا، ہرجگہ مسلمان ذلیل وخوار ہورہے ہیں، ہر شعبہ حیات میں مسلمان زوال پذیر ہیں، کمزوری و بے بسی کی آخری اسٹیج پر ہم اس وقت کھڑے ہیں آخر اسکی وجوہات کیا ہیں کیا ہمیں سنجیدگی سے اس پرغور وفکر نہیں کرناچاہئے؟ اسلام دشمن طاقتیں اور پوری دنیاکی غیرمسلم قومیں ہمارے پیچھے پڑی ہیں، ہرجگہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، ساری قومیں مسلمانوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑی ہیں آخر ایسا کیوں ہے اسکی وجوہات کیا ہیں؟ کیا ہمیں ان غور نہیں کرنا چاہئے سوچئے گا ضرور، کیونکہ جو قومیں اپنی کمی کوتاہی اورخامیوں کا محاسبہ نہیں کرتی وہ کبھی شان وشوکت اور عزت کی زندگی نہیں گذار سکتی، انھیں کبھی حکومت واقتدار حاصل نہیں ہوسکتا، اگر ہم عزت وسربلندی چاہتے ہیں ہو تو ہمیں سوچنا اورسمجھنا ہوگا اور پھر نئے سرے سے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا، کیا ہم اسکے لئے تیار ہیں یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہوگا۔

(مضمون نگار کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)
[email protected]

Comments are closed.