*جس کے اندر امانت داری نہیں وہ صحیح اور کامل مسلمان نہیں*

*مولانا محمد قمر الزماں ندوی*

(گڈا نامہ نگار) گزشتہ کل جامع مسجد دگھی میں جمعہ کی نماز سے قبل خطاب کرتے ہوئے مولانا محمد قمر الزماں ندوی نے کہا کہ کامیاب مومن کے اوصاف اور صفات میں سے ایک نمایاں وصف اور خوبی امانت داری ہے، یہ انتہائی اعلی انسانی وصف ہے، اگر انسان کے اندر امانت داری کا وصف نہیں۔ تو گویا اس کے ایمان و اسلام کا کوئی اعتبار نہیں ہے، وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ ناکام و نامراد ہے۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے اندر امانت داری نہیں، اس کے ایمان کا بھی کوئی اعتبار نہیں۔۔
سورہ مومنوں میں کامیاب ہونے والے مومنین کی سات علامتیں بیان کی گئی ہیں، ان میں ایک امانت کا پاس و لحاظ کرنا بھی ہے۔۔ و اللذین ھم لاماناتھم و عھدم راعون۔ اور کامیاب ایمان والے اور نجات پانے والے مومنین وہ ہیں جو اپنی امانتوں اور وعدے کا پاس و لحاظ کرتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کی ایسی مثال دنیا میں قائم کی کہ اس کی نظیر دنیا میں موجود نہیں ہے۔ پورے مکہ میں ہر ایک کی زبان پر دوست ہو یا دشمن یہ جملہ تھا کہ محمد ﷺ صادق و امین ہیں، دشمن بھی اعتراف کرتے تھے کہ اس وصف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔۔ ہجرت کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ میں روک دیا کہ جن جن کی امانتیں میرے پاس ہیں، پہلے وہ ان کو واپس کر دو پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت درجنوں مشرکین کی امانتیں رکھی ہوئی تھیں۔۔ فتح مکہ کے موقع پر جب عثمان بن طلحہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی چابی لی اور اندر جاکر نماز ادا کی، تو حضرت علی اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس موقع پر خواہش ظاہر کی کہ اب یہ کنجی اور یہ امانت ہمیں دی جائے، ماضی میں بھی سدانت اور سقایہ کی ذمہ داری میرے خاندان کے پاس تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا اور کنجی دوبارہ حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالہ کردیا اور فرمایا یہ کنجی ہمیشہ تمہارے خاندان میں رہے گی اور سوائے فاسق اور فاجر کے کوئی تمہارے خاندان والوں سے چھیننے کی کوشش نہیں کرے گا، آج بھی یہ کنجی اسی خاندان میں چلی ارہی ہے۔۔۔ اس موقع پر آیت کریمہ نازل ہوئی ان اللہ یامرکم الخ
بیشک اللہ تعالیٰ تم لوگ کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے مستحقین تک پہنچاو۔ اور جب لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف اور عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔۔۔۔ اللہ تعالی کیا ہی بہترین نصیحت کرتے ہیں، بیشک اللہ تعالی بہت زیادہ سننے اور جاننے والا ہے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی ایک علامت یہ بتائی کہ اگر اس کے پاس امانت رکھو تو وہ خیانت کریں گے۔۔۔
مولانا محترم نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج پوری دنیا میں اس اعلیٰ انسانی وصف کا فقدان ہے، نوے فیصد لوگ امانت میں خیانت کا ارتکاب کر رہے ہیں، مالیات، لین دین اور معاملات کی خرابی نے معاشرے کو تعفن زدہ بنا دیا ہے۔ ہیرا پھیری چالاکی، عیاری،مکاری ، دھوکا دھڑی اور بے ایمانی سے آج کا سماج کراہ رہا ہے، ضرورت ہے کہ پیارے آقا ﷺ کی تعلیمات کو اور اسلام کے بتائے ہوئے اخلاقی اور انسانی تعلیمات کو عام کیا جائے، امانت کو ان کے مستحقین تک پہنچانے کی کوشش کی جائے، یہی مطالبہ ہے قرآن کا ہم سے، اور اسی کی تاکید کی پیارے آقاﷺ نے اور اسی کا ہم کو اللہ تعالیٰ نے مکلف بنایا ہے۔۔۔۔۔
آج نیجی اداروں، سرکاری اداروں بلکہ بعض دینی اداروں میں بھی امانت داری کا فقدان ہے، معاملات اور حساب کتاب صاف نہیں ہے، بہت سے اساتذہ ذمہ داروں کے ساتھ دھوکا کر رہے ہیں، تو ذمہ داران ان کو بھی بیوقوف بنا رہے ہیں، لوگ من مانا طور پر عہدہ و منصب پر قابض ہیں اور اس پر اپنے عزیزوں اور تعلق والوں کو بحال کر رہے ہیں ، صلاحیت اور معیار کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی۔۔۔ جس کی نحوست ہے کہ دینی ادارے بھی زوال پذیر ہیں، اور ان کا معیار دن بدن گرتا جارہا ہے۔۔۔

Comments are closed.