ویلنٹائن ڈے اور نوجوان نسل:

حافظہ ایمن عائشہ
تہوار کسی بھی قوم کی ثقافت کا مظہر ہوتے ہیں اور یہی تہوار قوم کی شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ محض تہوار نہیں کسی قوم کی سوچ و فکر، نظریات و عقائد کے ترجمان بھی ہوتے ہیں۔ دورِ حاضر میں مغربی ثقافت کی کثافت نے جہاں ہمارے معاشرے کو بری طرح آلودہ کیا ہے وہاں ہماری نوجوان نسل کو اس ثقافت کا اسیر کر لیا ہے۔ نت نئے رسم و رواج اور تہواروں کی ترویج کر کے بے حیائی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ان تہواروں کو عالمی دنوں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ جیسے مزدوروں کا عالمی دن، عورتوں کا عالمی دن، صحافیوں کا عالمی دن، اساتذہ کا عالمی دن، بچوں کا عالمی دن وغیرہ۔ ان تہواروں کا ہماری مذہبی تہذیب سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن مغرب نے انہی کو اساس بنا کر ہماری نوجوان نسل کے ذریعے ان تہواروں کی ترویج شروع کر دی جو اب نکتہ عروج پر ہے اور در حقیقت یہی کسی قوم کا نکتہ زوال ہوتا ہے۔
انہی رسومات میں سے ایک رسم جو ہمارے وطنِ عزیز میں ہر طرف اپنے پنجے گاڑھ چکی ہے وہ "ویلنٹائن ڈے”۔ جو پوری دنیا میں ہر سال 14 فروری کو بڑے احتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ جہاں نکاح کے بندھن کے بغیر عورتوں اور مردوں کا آزادانہ اختلاط، سرخ رنگ کا گلاب پیش کرنا اور اپنی کمزور محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اس بات سے آگہی بھی ضروری ہے کہ یہ ویلنٹائن آخر ہے کیا؟
اس حوالے سے تاریخ میں نئے نئے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے تاریخ سے ثابت ہے کہ یہ رومیوں کا تہوار ہے جو ایک رومن بادشاہ کے سپاہی کی یاد میں منایا جاتا ہے، جہاں بادشاہ نے سپاہیوں کے شادی کرنے پر پابندی لگا دی اور اسکی فوج کا ایک سپاہی جیلر کی بیٹی سے محبت کر بیٹھا جسکو سزا کے طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اک اور روایت میں رومن پادری سینٹ ویلنٹائن پسند کی شادیاں کروانے کے لیے عیسائیت کی حدود سے بالاتر ہو کر خدمات سر انجام دیتا تھا۔ غرض اس دن سے منسوب تمام حوالہ جات حیا سوز واقعات پر مبنی ہیں جن جا دین اسلام سے اور ہماری تہذیب سے دور تک کوئی تعلق نہیں۔
اس کی حقیقت ہمارے لیے ایک مسلم معاشرے کے فرد ہونے کی حیثیت سے شرمناک بدعت کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
ہمارا اسلام واضح طور پر دوسری اقوام کی مشابہت سے منع فرماتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
"جو شخص دوسری قوم سے مشابہت کرے گا وہ انہیں میں سے ہو گا”۔
افسوس صد افسوس! ہماری نوجوان نسل بھی اسی مشابہت کا بری طرح شکار ہو چکی ہے۔ اہلِ یورپ کی نقالی کرتے ہوئے مسلمانان پاکستان نے بھی اس تہوار کو اپنا لیا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس روز نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے محبوب افراد سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے ایک دوسرے کو "سرخ گلاب” پیش کرتے ہیں۔ بازار سرخ غباروں سے سجائے جاتے ہیں، پھول، کارڈز، اور چاکلیٹ کی فروخت کے لیے دوکانیں سجائی جاتی ہیں،اطرف گلاب کے پھولوں سے مزین نظر آتے ہیں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں بکنگ کروائی جاتی ہے، پارک اور سیر و تفریح کے مقامات کو اس بیہودہ دن کے لیے تیار کیا جاتا ہے، افسوس کی بات یہ ہے کہ نوجوان اپنی تہذیب کا گلا گھونٹ کر اس تہوار میں شامل ہوتے ہیں۔ اس مقام پر اقبال کے اس شعر کی عکاسی نظر آتی ہے کہ
تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
قابلِ توجہ بات تو یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل اس بگاڑ کا شکار کیوں ہے؟ کیا ان میں شعور کی کمی ہے، یا اندھا دھن تقلید کرنے کے قائل ہیں۔ اس حوالے سے ہمارا میڈیا بھی نوجوان نسل کو بے حیائی کے سرخ بخار میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اخبارات کی طرف سے اس سلسلے میں نہ صرف خصوصی ایڈیشن شائع کیے جاتے ہیں بلکہ ویلنٹائن ڈے کے محبت بھرے اور بیہودہ پیغامات کے لیے کئی کئی صفحات مخصوص رکھے جاتے ہیں۔ ٹی وی پر خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مغربی تہذیب کو نوجوان اور معصوم نسل کے ذہنوں میں منتقل کرنے کی سازش کو عملی جامہ پہنایا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں ہمیں تین قسم کے نوجوان دیکھنے کو ملتے ہیں۔
1- جو ویلنٹائن ڈے کو بھرپور طریقے سے مناتے ہیں۔
2- جو ویلنٹائن ڈے کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
3- جو لا شعوری طور پر بس دیکھا دیکھی اس تہوار کو مناتے ہیں۔
پہلی قسم کے نوجوان ہمارے ملک میں زیادہ تعداد میں موجود ہیں۔ اس کی زندہ مثالیں ویلنٹائن ڈے کو پارکوں اور ہوٹلوں میں دیکھنے جو ملتی ہیں۔ جن کا نظریہ ہے کہ محبت کرنا جرم نہیں ہے۔ اس میں حرج ہی کیا ہے؟ محبت کا اظہار تو لازم ہے۔ بڑی ڈیٹھائی سے اس نظریے پر ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس قسم کے نوجوان کے لیے میرا جواب یہی ہے کہ محبت کرنا جرم نہیں ہے، آپ کریں ضرور کریں لیکن وہی محبت جو جائز ہے، یا محبت ہو جانے پر جائز اور حلال طریقہ کار اختیار کریں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ آپ کسی کی بیٹی، بہن کے ساتھ جو مرضی کریں جب یہی حال آپ کی بہن یا بیٹی کے ساتھ ہو تو آپ دوسرے کی جان لینے کے در پر ہو جائیں۔ ایک نوجوان کو اس تہوار کے دن یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اس بات کے لیے تیار ہے کہ خدا نخواستہ کوئی اس کی بہن کو بھی تحائف پیش کرے گا یا اس لڑکی کو جو شریکِ حیات بننے والی ہے، وہ بھی کئی ایسے تحائف وصول کر چکی ہو۔ یقیناً آپ یہ برداشت نہیں کریں گے۔ پھر دوسروں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ایسی سوچ کیوں؟
دوسری قسم کے نوجوان ہمیں کم تعداد میں دیکھنے کو ملتے ہیں، لیکن الحمدللہ ہیں ضرور۔
ان نوجوانوں کا نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے، کہ وہ اس تہوار کو مغربی تہذیب کا عکاس اور بے حیائی کا سامان سمجھتے ہیں۔ وہ اس بیہودگی سے روکنے کے لیے اپنی آواز بلند کرتے ہیں، اپنا قلم اٹھاتے ہیں، اپنے دوست احباب کو دلائل سے سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مختلف کانفرنسز میں اس بے حیائی کو روکنے کی ترویج دیتے ہیں۔ حکومت تک آواز پہنچاتے ہیں کہ خدارا! وہ اقدامات کریں اور اس بے حیائی کو روکیں۔ ایسا عملی طور پر نظر بھی آتا ہے۔ پچھلے سال ہی حکومت نے بہت سے پارک اور تفریحی مقامات کو بند رکھنے کا حکم دیا، سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ نے نوجوانوں کو یونیورسٹی کے اوقات سے پہلے باہر جانے پر پابندی لگائی۔ یہ انہی آوازوں کا نتیجہ تھی جو باشعور نوجوانوں نے بلند کی۔ اپںے قلم کے ذریعے اقرار کیا کہ وہ اس بیہودگی میں اپنے مسلمان ساتھیوں کا ساتھ نہیں دیں گے۔ الحمد للّٰہ ایسے نوجوان بھی اسی ملک کا حصہ ہیں ۔ یہی ہمارا فخر ہیں۔
تیسری قسم کا نوجوان طبقہ وہ ہے جو شعور اوع غیر شعوری طور پر بس لوگوں کو دیکھا دیکھی اس بے حیائی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ان کا نظریہ کچھ یوں ہوتا ہے کہ اگر آج کے دن اظہارِ محبت نہ کیا تو محبوبہ روٹھ جائے گی۔ لوگ کیا کہیں گے۔ محبت سچی ہے تو اسی دن اظہار ضروری ہے۔ ایسے نوجوان غفلت کا شکار ہیں جو یہ نہیں سمجھ سکتے کہ کیا اتنی کمزور محبت ہے جس کا اظہار بس آج کے دن ہی ضروری ہے؟ یا یہ کیسی محبوبہ/محبوب ہے جو اس بے حیائی کو ہی محبت قرار دیتی/ دیتا ہے۔
ان تین قسم کے نوجوانوں میں دو قسم کے نوجوان قابلِ ترس ہیں۔ جو شعور ہی نہیں رکھتے اور رکھتے بھی ہیں تو عمل سے غافل ہیں۔ اسلامی تعلیمات سے روشناس ہی نہیں۔ وہ بھی مسلمان تو ہیں لیکن افسوس صرف نام کے مسلمان۔ عملاً وہ مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کے قائل ہیں۔
اس ضمن میں وہی نوجوان طبقہ سب سے بہترین اور قابلِ فخر ہے جو صرف نام کے نہیں عملاً بھی مسلمان ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔
اہم ترین بات یہ ہے ہماری نوجوان نسل کے قلب و ذہن میں یہ موذی بیماری جڑ پکڑ چکی ہے اور ہم ہیں کہ میٹھی نیند سو رہے ہیں۔
نوجوان ہمارا مستقبل ہیں، ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں، اگر یہی اس غفلت کا شکار ہو کر رہ جائیں گے تو ہمارا مستقبل کیا ہو گا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا لیکن آج بھی ہندوؤں اور انگریزوں کی غلامی سے نکیں نکلے اور انکی فرسودہ روایات کو فروغ دئیے جارہے ہیں۔ ہمارے "روشن خیال” طبقے کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قومیں کبھی زر کی کمی یا سیلابوں اوع میں زلزلوں کی وجہ سے صفحہ ہستی سے نہیں مٹتیں بلکہ اپنی تہذیب و اقدار کو کھو دینے کی وجہ سے مٹتی ہیں۔ اگر ہم اب بھی نہ جاگےاور روشن خیالی و جدس پسندی کی آڑ میں غلام ابن غلام کا کردار ادا کرتے رہے تو ہماری تباہی و بربادی عنقریب ہمیں آ گھیرے گی۔ اور اسی وجہ سے ہم اس صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ میری نوجوان نسل سے التجا ہے کہ خدارا! اس دن کا بائیکاٹ کر کے اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دیں۔ خود بھی اور آنے والی نسلوں کو بھی قرآن و سنت سے آراستہ کریں۔ تب ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
خدا ہمارے حال پر رحم فرمائے۔ آمین
اپنی ہی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
Comments are closed.