تُحفہ۔۔۔

از قلم: مِصباح نواز(پنڈدادنخان)
”ہر سال کی طرح اس سال بھی سٹوڈنٹ آف دی ایئر کا ایوارڈ مسٹر عبد الہادی کو دیا جاتا ہے“۔
سکول کی سالانہ تقریب کے موقع پر پرنسپل صاحب نے اعلان کیاتو پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ عبدالہادی تالیوں کے بھرپور شور میں ایک ادا سے چلتا ہوا اَپنا ایوارڈ وصول کرنے گیا۔ اُس کا چہرہ خوشی سے جگمگا رہا تھا۔ سب ہی اُس کی کامیابی پر خوش تھے۔ ایسے میں کچھ چہروں پر جہاں تفکر کی لکیریں تھیں وہیں کوٸی حسد کی آگ میں بھی جھلس رہا تھا۔ ایوارڈ وصول کرتے ہی عبدالہادی نیچے آتے ہی حسن کے گلے لگ کر خوشی کا اِظہار کرنے لگا لیکن دوسری طرف حسن کے چہرے پر کوٸی خوشی کی ہلکی سی رَمق بھی نہیں تھی۔ اُس نےایک جھٹکے سے عبدالہادی کو خود سے الگ کیا اور بغیر کچھ کہے وہاں سے چلا گیا۔ عبدالہادی ہونقوں کی طرح اُسے جاتا ہوا دیکھتا رہا۔
عبدالہادی اور حسن گہرے دوست تھے۔ حسن اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ جبکہ عبدالہادی چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ حسن کے والد ایک کاروباری آدمی تھے یوں حسن عیش سے بھرپور زندگی گزار رہا تھا۔ گھر، گاڑی اور ہر وقت جی حضوری کرنے والے نوکر اُس کے اردگرد گھومتے رہتے۔ جبکہ عبدالہادی کے والد پھلوں کی ریڑھی لگاتے تھے۔ یوں اُس کے لیے ضروریات زندگی پورا کرنا ہی غنیمت تھا۔
وہ بچپن سے اکٹھے رہے ایک ہی سکول میں پڑھا اور ہر کام میں ایک ساتھ نظر آتے۔ دونوں کے بیچ کبھی کوٸی امیری غریبی کا فرق نہیں دیکھا گیا۔ دونوں کی جان بستی تھی ایک دوسرے میں۔ پھر اچانک وقت نے پلٹا کھایا اور دونوں کی دوستی میں گہری دراڑ پڑ گئی۔ اور اس کی وجہ عبدالہادی کی کامیابی تھی۔ حسن تو ہمیشہ اپنے دوست کی کامیابی پر خوش ہوا کرتا تھا لیکن نا جانے اب کیا ہوا کہ اسے دوست کی کامیابی چبھنے لگی۔ اور اب وہ عبدالہادی سے دور ہونے کے بعد آوارہ دوستوں کی صُحبت میں رہنے لگا۔
عبدالہادی گھر آیا تو کافی پریشان تھا ۔ اُسے نہیں سمجھ آرہا تھا کہ وہ اپنے دوست کو کیسے راضی کرے۔ دوسری طرف حسن گھر آتے ہی دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے نکل گیا۔
گلی کی نُکڑ پر دوستوں کے ساتھ بیٹھے آج وہ معمول سے کچھ الگ نظر آرہا تھا۔ دوستوں کے اصرار پر اُس نے بتایا کہ وہ عبدالہادی کو سبق سکھانا چا ہتا ہے اور وہ اس کے لیے کسی بھی حد تک جائے گا۔ اب وہ دوستوں سے مدد مانگ رہا تھا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا کہ وہ سب کچھ اس پر چھوڑ دے وہ عبدالہادی کو راستے سے ہٹادے گا۔ لیکن اس کے لیے اسے کچھ پیسوں کی ضرورت پڑے گی۔ حسن اس پر راضی ہو گیا۔ اب وہ اگلے دن رقم دینے کا وعدہ کر کے گھر کو چل دیا۔ کافی رات بیت چکی تھی وہ گھر آتے ہی آرام سے سو گیا۔
اگلے دن حسن نے اسے مطلوبہ رقم دے دی۔ اب وہ مُطمئن نظر آرہا تھا۔
اگلے دن حسن کے دوست نے بازار جاکر ایک خوبصورت سیاہ جلد والی کتاب خریدی جس کے کور پر ایک خوبصورت لال رنگ کا پھول بنا ہوا تھا ۔اور اُس کو ایک خوبصورت پیکنگ میں بند کر دیا۔وہ جانتا تھا کہ عبدالہادی کو کتابیں پڑھنا بہت پسند ہے۔
اگلے دن وہ عبدالہادی کے دروازے پر اُس کتاب کا تحفہ دینے کھڑا تھا۔ عبدالہادی کے منع کرنے کے باوجود پر وہ یہ کہہ کر کتاب پکڑا کر چلاگیا کہ ”تحفہ دینے سے محبت بڑھتی ہے“
عبدالہادی نے کمرے میں آکر تحفہ والی کتاب کو کتابوں کی الماری کے سب سے اوپری خانے میں رکھ دیا کہ وہ رات کو فارغ بیٹھ کر پڑھے گا۔ رات کو جیسے ہی کمرے میں سونے کی غرض سے آیا۔ اس کی نظر سامنے کتابوں کی الماری پر پڑی۔ وہ کتاب کو الماری سے نکال کر بستر پر بیٹھا اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ پھر اچانک اسے حسن کا خیال آیا تو اس نے کچھ سوچ کر کتاب کو واپس الماری میں رکھ دیا۔
اگلے دن اس نے کتاب کو تُحفتاً حسن کے حوالے کردیا۔ کہ شاید اس کی ناراضگی دور ہو جائے حسن رات کے وقت کتاب کو بستر میں لیٹ کے پڑھنے لگا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے اوراق پر زہریلا کیمیکل لگا ہوا ہے۔ جو حسن کے دوست نے عبدالہادی کو جان سے مارنے کے لیے لگایا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ کتاب کو پڑھتے پڑھتے نیند کی آغوش میں چلا گیا یا شاید موت کی آغوش میں۔۔۔۔۔
صبح جب اسے جگانے کے لیے نوکر کمرے میں آیا تو اس کے منہ سے نکلتی جھاگ کو دیکھ کر حسن حسن کہہ کر چلانے لگا لیکن اب حسن بہت دور جاچکا تھا۔ کبھی نا واپس آنے کے لیے۔
سچ کہتے ہیں کسی کے لیے کنواں کھودنے والا خود اُس میں اوندھے منہ گر جاتا ہے۔
Comments are closed.