غیراسلامی تہوار ویلنٹاںٔن ڈے

از قلم:- اٌمّ اَحمد (سرگودھا )
پچھلے چند سالوں سے یہ بیماری طاعون، ہیضے اور کرونا کی وبأ کی سی تیزی کے ساتھ پھیلی ہے۔ سوشل میڈیا، ٹی۔وی ڈراموں، کیبل اور موباٸل انٹرنیٹ چیٹ نے اس بیماری کو بڑے شہروں سے لے کر دیہات کے نوجوان لڑکے لڑکیوں تک پھیلا دیا ہے۔”ویلنٹاٸن ڈے“ کی تاریخ کیا ہے یہ جانے بغیر ہماری نسلِ نَو اندھا دھند اس دلدل میں دَھنستی چلی جا رہی ہے۔ ویلنٹاٸن ڈے کی جڑیں بٌت پَرست مذہب سے نکلتی ہیں۔قدیم رٌوما میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک تہوارمنایا جاتا تھا۔ جس میں کنواری لڑکیاں محبت بھرے خط لکھ کر ایک بڑے گٌلدان میں ڈالتی تھیں۔لڑکے اس میں سے ایک ایک خط اٹھاتے اور جس لڑکی کا وہ خط ہوتا اس کے ساتھ کورٹ شِپ کرتے۔ یعنی شادی سے پہلے ذہنی ہم آہنگی پیدا کرنے کیلیے ملاقاتیں کرتے تھے۔ویبسٹر فیملی انساٸیکلو پیڈیا( مطبوعہ امریکہ1987 ٕ) کے مطابق عیساٸیت کے مذہبی رَہنماٶں نے اس رسم کو ختم کرنے کی بجاٸے اسکو سینٹ ویلنٹاٸن ڈے کے تہوار میں بدل دیا۔ اب ذرا اس تہوار کو اسلام اور قرآن و سٌنّت کی رٌو سے ایک مسلمان ہونے کے ناطے دیکھتے ہیں کہ ایک مسلمان کا اس کو منانا کیسا ہے؟ کیا ایک مسلمان قوم کو اس طرح کے تہوار منانا زیب دیتا ہے؟ ارشادِربّانی ہے ”ہر ایک کیلۓ ایک رٌخ ہے پس تم بھلاٸیوں میں سبقت لے جاٶ“ (البقرہ)- ایک اور جگہ ارشاد ہوا ”تم وہ بہترین اٌمت ہو جو لوگوں کے لیے نکالی گٸی ہو“ یعنی ہم وہ اٌمت ہیں جس نے اپنے نبیﷺ کا پیغام لوگوں میں پھیلانا ہے لیکن اب صورتحال کو دیکھا جاٸے تو ہم کیا کر رہے ہیں؟ اٌمتِ مٌسلمہ بَسنت ،نیواِیٸر، کرِسمِس اور ویلنٹاٸن ڈے منا رہی ہے۔ آج سے چودہ سو سال پہلے جب مسلمانوں نے قرآن و حدیث کو مضبوطی سے تھاما ہوا تھا تو تمام دنیا پر حکومت کی تھی۔ آج بھی وہی قرآن اور حدیث ہے لیکن آج مسلمانوں کی حالت کیا ہے پوری دنیا میں ذلیل و رسوا ہونے والی قوم۔ جو رہنما(مسلمان) تھے وہ پیروکار بن بیٹھے ہیں اور جو پیروکار تھے آج وہ رہنما بن گٸے ہیں تو یہی نتیجہ نکلے گا نا۔ ہم نے قرآن و حدیث کو چھوڑ کر ترقی یافتہ بننا چاہا یہی اصل وجہ ہے ہمارے زوال کی۔اللہﷻ نے اپنے نبیﷺ سے یہ بات کہلواٸی ”کہہ دیجیے میرا جینا میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کی لیے ہے“ (القرآن)۔ مسلمان کا مطلب ہی اللہ کی بات ماننے والا ہے تو جب اللہ کی بات ہی نہ مانیں تو ہم مسلمان کہلانے کے حقدار کیسے ہو سکتے ہیں؟ اللہ نے بتا دیا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے وہ تمہیں بے حیاٸی اور براٸی کا حکم دیتا ہے لوگوں اس کی پیروی کرو جو اللہ نے اتارا ہے۔جب اسلام نے ہمیں خوشی منانے کے تہوار اور مکمل طریقہ کار بتا دیا ہے تو ہم کیوں غیر مسلموں کی تہذیب کا رنگ خود پر چڑھا کر خوشیاں مناٸیں۔ کیا کبھی کسی غیرمسلم نے ہماری خوشی کے لیے عید کی تیاری کی، نماز پڑھی، یا قربانی کی تو ہم کیوں اپنے مذہب اور وقار کو غیر مسلموں کے پاٶں تلے روند رہے ہیں۔ یہ دن دوسری قوموں کیلۓ اہم ہوگا ہمارے لیے نہیں ہے۔
آج ہم اپنے ملک میں بہت سے مساٸل کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارا پیسہ ان فضولیات پہ خرچ ہو رہا ہے یہاں تک کہ قربانی کیلیے پیسے نہیں ہوتے جو ہر صاحبِ حیثیت پر فرض ہے لیکن لوگوں کو دکھانے کیلۓ کیا کچھ نہیں کرتے ہم ۔اپنی عیدوں پر بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں جس سے اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور اللہ کو ناراض کرنے والے طریقوں میں خوش ہو رہے ہوتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں حلال کام کرنے اور حرام سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور ہماری کتنی ہی مسلمان لڑکیاں اس دن اپنے دین کی تعلیم کو بھول کر اپنی عزتوں کو خراب کرتی ہیں۔ اور اس مذہب کو آٶٹ آف فیشن کہتی ہیں جس نے انکو زندہ دفن ہونے کی جاہلانہ رسوم سے آزاد کیا جس نےانکو گھر کی چاردیواری میں راج کرنے کا حق دیا۔ اسی مذہب نے اس کو ماں، بیٹی، بہن اور بیوی کی صورت میں جاٸیداد میں سے وراثت کا حق دیا۔ اسی مذہب نے عورت کو مرد کے برابر تعلیم حاصل کرنے کا حق دیا۔ اسلام نے محبت کرنے سے روکا نہیں ہے بلکہ اسلام تو محبت کا سبق دیتا ہے ۔سب سے پہلی محبت کا حقدار ہمارا خالق اور اس کا محبوب نبیﷺ ہیں۔ اس کے بعد دنیا میں ہمارے محبت کرنے والے حلال رشتوں میں ماں باپ کی بے لوث محبت سے نوازا ہے رب نے پھر بہن بھاٸی اور عورت اور مرد کی روحانی اور جسمانی ضرورت کے مطابق نکاح کا حلال اور خوبصورت رشتہ بنایا۔ اور پھر اللہ کے نیک بندوں سے محبت کر سکتے ہیں اللہ کی خاطر۔ اسلام میں تو اپنے مومن بھاٸی کی طرف مسکرا کے دیکھنے کا ثواب اور اجر ملتا ہے تو ہم کیوں خود کو ان پاک صاف محبتوں کی بجاٸے گندے رشتوں سے آلودہ کریں۔ اسلام میں اگر ہم پر کچھ پابندیاں لگتی ہیں تو وہ ہمارے ہی فاٸدے کیلۓ ہیں جیسے جنسی بےراہ روی اور ہم جنس پرستی جیسی براٸیاں غیر مسلم ممالک میں فروغ پا گٸی ہیں تو خود وہ اس سب سے تنگ بھی آگٸے ہیں کیونکہ ایک طرح سے انکا ایک خاندان کا نظام ختم ہوتا جا رہا ہے جس سے معاشرتی براٸیوں کے ساتھ ساتھ اور بہت سے مساٸل جنم لے رہے ہیں ایسے تعلقات کے نتیجے میں آنے والی نسل ذہنی اور جسمانی کمزوریوں کا شکار ہوتی ہے۔ الحمدللہ ہمیں ہمارے رب نے مکمل ضابطہ حیات دیا مگر صد افسوس! کہ ہم اپنی ہی بھلاٸی سے دور جا رہے ہیں۔ نبی ﷺ نے ایک حدیث میں بیان کیا کہ قیامت کے دن انسان انہی میں سے اٹھایا جاٸیگا جن کی وہ پیروی کرے گا یا جن سے وہ محبت کرے گا ۔تو اس کے مطابق اب سوچ لیں کہ وقتی لطف کیلیے ہم قیامت کے دن ویلنٹاٸن ڈے منانے والے عیساٸیوں کے ساتھ اٹھنا پسند کریں گے یا بسنت منانے والے ہندوٶں کے ساتھ؟ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ نے قرآن میں کہا ہے” اللہ انکے وہ اعمال جو وہ دنیا میں کر رہے ہیں جب ان کے سامنے اس طرح سے لے آٸے گا کہ وہ حسرتوں اور پشیمانیوں سے ہاتھ مَلتے رہیں گے اور آگ سے نکلنے کی کوٸی راہ نہ پاٸیں گے۔ اور جو لوگ سن کر بھی عمل نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعالی فرماتے ہیں تباہی ہے ہر جھوٹے بداعمال شخص کیلیے جو آیات کو سن کر اپنے کفر پر تکبر سے اس طرح ڈٹا رہے جیسے کچھ سنا ہی نہیں (الجاثیہ)۔ اگر لوگوں کی خوشی کیلیے ہم اللہ کی حدود پار کر رہے ہیں تو اس کے پاس جا کر کیا جواب دیں گے اس وقت سے بچنے کیلۓ خود کو ان سب فتنوں سے دور کر لیں۔ اگر اس وقت ہماری نسل تباہی کی طرف جا رہی تو وہ اکیلی قصوروار نہیں ہم بھی ہیں۔ جنہوں نےانکو یہ ماحول دیا انکو اللہ کے احکام نہ بتاٸے اور دین کی تعلیم نہیں دی۔ اب بھی وقت ہے ہم خود کو اس مشکل سے نکالنے کی کوشش کریں گے تو اللہ ہماری مدد ضرور کرے گا لیکن پہل اپنے آپ سے اور گھر سے کریں صرف تقریروں سے نہیں عمل سے ثابت کریں کہ ہم سچے مسلمان ہیں اللہ کو ماننے والے اور ساتھ میں اللہ کی ماننے والے۔ کیونکہ ہمارے پیارے نبیﷺ نے اللہ کے ہر حکم کو اپنے اعمال اور اعلی اخلاق کے ذریعے ثابت کیا ۔اسی لیے لوگ انکی بات سن کر باعمل مسلمان بنتے تھے۔ اگر ہم اب بھی سنبھل جاٸیں تو اپنی آنے والی نسلوں کو اس تباہی کے راستے سے بچا سکتے ہیں۔ ہم دین کو سیکھ کر آگے پھیلاٸیں جو اس سے انجان ہیں انکو اخلاق اور پیار محبت سے دین کی دعوت دیں ایک چھوٹی سی بات پہ خود عمل کر کے اس کو آگے دوسروں تک پہنچاٸیں۔ یہ ہم سب کا فرض ہے اپنے اپنے فرض کو پورا کرنے کی ابتدأ آج اور ابھی سے کریں ورنہ کامیابی ممکن نہیں۔ اللہﷻ ہمیں ان فضولیات سے بچنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق دے آمین۔
Comments are closed.