ویلینٹائن ڈے

ازقلم:طاہرہ لیاقت (چکنمبر 24ایم بی)
14 فروری کا پوری دنیا میں نہایت بے صبری سے انتظار کیا جاتا ہے۔کیونکہ یہ دن ویلینٹائن ڈے محبت کے دن کے طور پہ عالمی سطح پہ منایا جاتا ہے۔ غیر مسلم تو کجا مسلمان اس دن کو بہت ہی جوش و خروش کے ساتھ مناتے ہیں۔ آج کی اس ٹیکنالوجی کی دنیا میں یہ بات تو کہنا کم عقلی ہوگی کہ ہم اس کے پس منظر سے ناآشنا ہیں۔ویلینٹائن ایک پادری کا نام تھا جسے ایک لڑکی سے محبت ہوگئی تھی لیکن عیسائیت مذہب میں پادری نہ تو محبت کر سکتا ہے اور نہ ہی شادی۔
کہا جاتا ہے کہ روم کے بانی رومولوس نامی شخص نے ایک بار بھیڑیے کی مادہ کا دودھ پیا تھا جس سے اسے بہادری اور عقلمندی حاصل ہوئی تھی۔ اہل روم اس کی یاد میں ہر سال وسط فروری میں جشن منایا کرتے تھے۔ جس میں ایک کتے اور بکری کی قربانی دی جاتی تھی اور ان کے خون سے دو نوجوان غسل کرتے اور اس خون کو دھونے کےلیے دودھ کا استعمال کیا جاتا تھا۔ دودھ جو کہ خدا کا نور ہے یہ غلیظ لوگ کیسے اس کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ تو کیا ہم مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس بے حیائی کو اپنے اندر پلنے دیں اور آگے پروان چڑھائیں۔ بلکہ ہمیں تو ابھی سے اس پر گرہ لگانی ہوگی تاکہ ہماری آنے والی نسلیں اس بے حیائی سے دور رہیں۔
محبت کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ تو ہمارے اللہ کو بھی اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ سے تھی۔ لیکن آج کل لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو سرخ گلاب دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے محبت کا حق ادا کر دیا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ تو اسلام میں حرام ہے۔ اس طرح سے محبت کی بے حرمتی کرنا اور اسے بے حیائی کے روپ میں ڈھال کر اس کو پوری دنیا کے سامنے لانا نہایت ہی افسوس ناک ہے۔ اگر کسی لڑکے کو لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے تو اس کو پروان چڑھانے کا احسن ذریعہ نکاح ہے بجائے اس کے کہ آپ اس کو بے حیائی کا روپ دے دیں۔ ماں باپ کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہیں چاہیے اگر کبھی ایسا مسئلہ ہو بھی تو وہ نکاح کو ترجیح دیں نہ کہ اس میں رکاوٹ بن کر بچوں کو بھٹکنے کا موقع فراہم کریں۔
اس دن کو منانے کا مطلب ہے آپ خود بے حیائی کو دعوت دے رہے ہیں۔ بےحیائی کی حمایت کرنے والا اور اس کو برداشت کرنے والے کو اسلام میں دیوث کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اللہ نے تین قسم کے اشخاص پر جنت میں داخلہ حرام کیا ہے:
1۔دائمی شرابی 2-ماں باپ کا نافرمان 3-(دیوث) جو اپنے بیوی بچوں میں بے حیائی برداشت کرتا ہے۔
- تو ہم مسلمان ہونے کے باوجود کیسے اس بے حیائی پر خاموش رہ سکتے ہیں ہمیں کل نہیں بلکہ آج ہی اس برائی کے خلاف آواز اٹھانا ہوگی تاکہ اس کا قلعہ قمع کیا جا سکے۔ہمیں اس ناپاک محبت سے ہٹ کر پاک (نکاح) محبت کی طرف آنا ہو گا۔ نکاح کو عام کرنا ہو گا۔ کیونکہ ایک برائی سے نجانے کتنی برائیاں جڑی ہوتی ہیں اور ہمیں اس ایک برائی کو ختم کرنا ہو گا۔ بحیثت مسلمان اور پاکستانی ہمیں اپنی سرزمین کو پاک کرنا ہو گا اور اسلام کے اصولوں کو اپنی زندگیوں میں لاگو کرنا ہو گا۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس بےحیائی سے محفوظ رکھے اور ملک پاکستان کو سرسبز و شاداب رکھے۔ آمین ثمٰ آمین
Comments are closed.