عافیت کی دعا کرتے رہیں۔

محمد صابر حسین ندوی
7987972043
انسان فی نفسہ کمزور مخلوق ہے، وہ اگرچہ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے، سمندر کو چیرنے، درندوں کو قابو میں کرنے اور فضاؤں میں اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے، دنیا کو انگلی پر نچانے اور اس میں موجود مالہ و ما علیہ پر اپنی دھونس جمانے کی بھی قابلیت رکھتا ہے؛ مگر حقیقت یہی ہے کہ وہ جسمانی طور پر لاچار، ضعیف اور ناتواں ہے، وقت کا سکندر اور سیزر بھی اگر معمولی بخار سے دوچار ہوجائے تو اس کی حالت دگرگوں ہوجاتی ہے، موسم کی تبدیلی بھی اسے اتنا متاثر کردیتی ہے کہ بستر پکڑ لے، ایسے میں انسان کیلئے سب سے بڑی نعمت اس کی صحت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دو نعمتیں ہیں جن کے تعلق سے لوگ غفلت میں ہیں، صحت اور فرصت. (بخاری – کتاب الرقاق:٦٠٤٩) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحت بگڑنے سے پہلے پہلے بہتر اعمال کی طرف جلدی کرنے کی ترغیب دی ہے، اور اس کے برعکس نتیجہ پر بھی متنبہ کیا ہے. (مسلم- کتاب الایمان: ١١٨) ظاہر ہے کہ انسان کا کمزور بدن کب اپنی اصل ہیئت کھودے اور کیسی تبدیلیاں اسے چپیٹ میں لے لے کچھ نہیں کہا جاسکتا، اسلام انسان کو صحت مند رہنے کی ہدایت دیتا ہے، اس کیلئے کوششیں کرنے اور مضبوط و توانا بننے پر زور دیتا ہے؛ بلکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور مومن سے بڑھ کر طاقتور مومن کو افضل قرار دیا ہے، (ابن ماجہ: ٢١٤٤) بحیثیت ایک مؤمن ہمیں یہ معلوم ہے کہ صرف دنیاوی کاوشیں کافی نہیں، انسان اگرچہ خود مختار ہے؛ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ خود مختاری بھی مختار کل کی جانب سے ہے، چنانچہ اس کے ہر عمل میں اس کا دخل ہے، انسان وجود رحمت و مہربانی کی رہین ہے، جس کا لازمہ ہے کہ اس ذات سے دعا و مناجات کے ذریعے اپنا ربط مضبوط کیا جائے اور پھر اس سے صحت و عافیت طلب کرنا بھی ایک نعمت ہے، اگر کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ وہ محض اپنی مرضی اور مادی وسائل کی بنا پر عافیت کی چادر پالے گا اور تندرستی و قوت حاصل کرلے گا تو یہ اس کی بھول ہے، دنیا نہ جانے کیسے کیسے طاقتوروں کو نگل چکی ہے، کیڑے مکوڑے اس کے جسم کا ایک ایک ریشہ نوچ چکے ہیں، مگر اللہ تعالی کی جانب سے حاصل شدہ عافیت پر کوئی گزند نہیں آسکتی، انسان خواہ کیسی مصیبت و آزمائش میں پڑ جائے مگر وہ ہر جگہ سے خوش و خرم اور بشاشت کے ساتھ نکل جائے گا، بَس اسے رب کریم کی کریمی اور رحیم کی رحیمی درکار ہے، اگرچہ دنیاوی امور و اسباب اپنائے جائیں مگر لَو تو صرف اسی سے لگائی جائے اور اپنی کاوشوں کو اسی کے سپرد کیا جائے.
مولانا وحیدالدین خان کی ایک تحریر "عافیت کی دعا” پر زیر مطالعہ آئی، جس میں ایک اہم پیغام اور انسانی زندگی کا پہلو پوشیدہ ہے، یہ تحریر انسان کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ کتنا ناتواں ہے اور عافیت کی دعا مانگنا کتنی اہمیت رکھتا ہے، آپ رقمطراز ہیں: "عافیت سے متعلق کئی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے: قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:من فُتِح لہ منکم باب الدعاء فُتِحت لہ أبواب الرحمة، وما سُئِل اللہُ شیئا یعنی أحب إلیہ من أن یسأل العافیة(سنن الترمذی، حدیث نمبر3548)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کیلئے دعا کے دروازے کھولے گئے اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے ۔ اس دنیا میں انسان کو اگرچہ اختیار دیا گیا ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملات میں انسان کا دخل ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ رب العالمین کا دخل ننانوے فیصد سے بھی زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اللہ سے دعا کرنا بہت زیادہ اہم ہے۔ جس انسان کو یہ حقیقت دریافت ہوگئی، اور وہ اس پر قائم ہوگیا، وہ بلاشبہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجائے گا۔ اس دنیا میں انسان کے لیے پہلی رحمت کی چیز ایمان ہے۔ یعنی حقیقت حیات کی دریافت۔ اس کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ عافیت ہے۔ عافیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر اچھی صحت (good health) کہا جاتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک کمزور مخلوق ہے۔ صحت و عافیت میں معمولی خلل انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ جس انسان کو صحت و عافیت حاصل نہ ہو وہ کوئی بھی کام صحیح شکل میں نہیں کرسکتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ سے بہت زیادہ دعا کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو درست طور پر ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔مگر یاد کیے ہوئے عربی الفاظ کو دہرانے کا نام دعا نہیں ہے، سچی دعا وہ ہے جو معرفت کی دعا ہو۔ جو دل کی گہرائیوں سے نکلے، نہ کہ لفظی تکرار کے طور پر۔ایسی دعا بلاشبہ اللہ تک پہنچتی ہے، اور وہ اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔” (الرسالہ فروری2017)
Comments are closed.