"اک پیغام,اس معاشرے کے نام”

میری یہ تحریر اس معاشرے کے نام ہے جس میں ہم جی رہے ہیں. اس تحریر کا مقصد نہ تو والدین کی تربیت پر انگلی اٹھانا ہے اور نہ ہی اس نئی نسل کو گمراہ کرنا ہے. یہ محض اک تجربہ ہے اور اس سے آگاہ کرنا میرا فرض

اگر کسی کو اس تحریر میں کوئ بات ناقابل برداشت لگے تو اس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں….
ایک تحریر کسی کے لیے کہانی ہوتی ہے تو کسی کی زندگانی. اور اس کا تاثر لینا پڑھنے والے پر منحصر کرتا ہے…
ہم اس معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں کوئی پنجرے میں قید پنچھی کی مانند ہوتا ہے تو کوئی کھلی فضا میں اُڑان بھر رہا ہوتا ہے. اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اب اس معاشرے کی تباہی شروع ہے.
ایسے میں یہ "ویلنٹائن” غیر مسلموں کا یہ دن اب مسلمانوں کو رگوں میں بھی پھیلتا جا رہا ہے.. اب خیال تو اس بات کا ہے کہ اس تناہی کا قصوروار کون؟ نوجوان نسل, والدین یا یہ معاشرہ؟؟؟
اس بات کو ذہن میں لاتے ہوۓ میں نے سوچا کہ نہ صرف یہ جدید دور اور اس کی ٹیکنالوجی ہے بلکہ کہی نہ کہی یہ والدین کا بھی قصور ہے..
والدین؟ مگر کیسے…
ہم اس دور میں جی رہے ہیں جہاں ہر کوئی اونچی اُڑان بھرنا چاہتا ہے.. ایسے میں والدین پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ وہ اونچی اُڑان بھرتے ہوۓ بھی اپنی حدود کو یاد رکھے..
پنجرے میں مسلسل قید پنچھی ہمیشہ اس کی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح وہ رہائی حاصل کر لے اور کھلی فضا میں پنچھی کو کسی کی پرواہ نہیں ہوتی وہ یا تو شکار بن جاتا ہے یا پھر شکار کرتا ہے…مگر کسی پنچھی کو قید کے ساتھ اس کی حدود میں اُڑنے کے لیے بھی چھوڑا جاۓ تو وہ اپنے وقت پر واپس لوٹ آتا ہے..تو بجاۓ اس کے کہ اس نسل کو یا تو اڑان بھرنے کے لیے چھوڑا جاۓ یہ پھر مسلسل قید رکھا جاۓ والدین پر منحصر ہے..
ہمارے معاشرے میں عورت ذات کو عزت کے نام پر قتل کرنا عام سی بات ہو گئی ہے..مگر اس عزت کو داغدار کرنے میں قصور صرف عورت کا نہیں ہوتا.عورت ذات کو تلقین کی جاتی ہے کہ اسے غیرت کے نام پر قتل بھی کیا جا سکتا ہے.. مگر اس کے ساتھ اگر مرد کو بھی اس بات سے باخبر رکھا جاۓ کہ اس کی عزت کے ساتھ بھی دوسروں کی عزت جڑی ہے تہ کئی زندگیاں برباد ہونے سے بچ سکتی ہے…اس” ویلنٹائن ” جیسی گندگی کا نام مٹ سکتا ہے…
عورت کی فطرت میں ہے کہ جدھر سے محبت ملتی ہے بس وہی کی ہو کر رہ جاتی ہے..اور مرد کی فطرت اس مکھی جیسی ہے کہ جو پھول دیکھ کر اس کی خوشبو نچوڑ کر اُڑ جاتی ہے.
اس لیے یہ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ اولاد اس بات کو سمجھے کہ وہ اُڑان بھر سکتی ہے مگر اس کے لیے اس کی حدود ہی محافظ ہیں. اولاد کو اس بات کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو کہ وہ پھول یا وہ مکھی بنیں
اس لیے والدین اپنی تربیت میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنی اولاد کو وہ توجہ, محبت اور اعتماد دیں. جو اس نئی نسل کو گمراہی سے بچا لے..اس طرح ویلنٹائن جیسی نحوست کا نام و نشان مٹایا جا سکتا ہے…

از قلم:ماہِ مریم✨

Comments are closed.