عنوان : بجھی عشق کی آگ اندھیرا ہے

آمنہ صغیر(سیالکوٹ )

یہ صحبت الہی کا جذبہ انسان کے لیے ایسا ہے جیسا کسی پودے کے لیے پانی ہوتا ہے۔ پانی ملنے سے پودا سرسبز ہوتا ہے اس کے پھول اور پتے کھل اٹھتے ہیں۔ انسان کے اندر محبت الہی کی مثال بھی یہی ہے کہ جس انسان میں یہ جذبہ بیدار ہوجائے تو اس کی صفات کھلنا شروع ہو جاتی ہیں اور اس میں ایمان کی خوشبو آنے لگتی ہے۔ آج محبت الہی کا جذبہ کیوں کم ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ دنیا کی محبت ہے موت سے دوری ہے نفس ہم پر غالب ہے۔ انسان کی خواہشات یوں ہے کے جیسے ایک بلب جل رہا ہو اور اس کے اوپر ٹوکری رکھ دیں تو کمرے میں انھیرا ہو جائے گا۔ غافل مومن کی مثال یہی ہے کہ اسکا بلب روشن ہے کیونکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا ہے مگر اس کے اوپر غفلت کی ٹوکری آگئ ہے۔ محبت بڑھانے کے اسباب: یہ اللہ تعالی کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں پیدا کرکے بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیا بلکہ انبیاء کرام کا ایک طویل سلسلہ لوگوں کی رہنمائی کرتا تھا اور آخر میں حضرت محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے اور اس سلسلے کی تکمیل کی۔ اب ان کی تعلیمات قیامت تک کے لیے ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ اللہ رب العزت نے قرآن نازل فرما کر لوگوں کی رہنمائی کا سامان کیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ، قل کہ دیجیے اے لوگوں! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو فاتبعون تم میری اطاعت کرو۔ یحببکم اللہ اللہ تم سے محبت فرمائیں گے۔ اب یے ہم پر ہے کہ ہم اللہ کی محبت میں کتنا اتباع رسول اللہﷺ میں آگے بڑھتے ہیں اور کتنی سنتوں کو اپناتے ہیں ۔ اللہ کریم قرآن کریم میں فرماتے ہیں ” تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر کرو اور کفر نہ کرو” جتنی زیادہ اللہ کی یاد ہوگی اتنا ہی بڑا محبت کا پیمانہ ہوگا۔ نماز، روزہ، زکوتہ، حج اور جہاد کے علاوہ قرآن کریم کی تلاوت بہترین ذکر ہے۔ قرآن کی تلاوت اس طرح کرے جیسا کہ حق ہے سیدنا جابر ری اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالی کے ہاں قران کی شفاعت قبول کی جائے گی اور بندے کے متعلق اس کی شکایت بی سنی جائے گی ۔ جس نے قرآن کو رہنما بنا لیا تو وہ اسے جنت میں لے جائے گا اور جس نے اسے پس پشت ڈال دیا اسے قرآن جہنم میں پہنچا دے گا۔” ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں نبی پاک نے فرمایا: ” اللہ کے ننانوے نام ہیں جس نے ان کا ذکر کیا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ مثلا جب بندہ کہے "الرزاق” تو اس کو صرف اللہ تعالی سے ہی رزق ملنے کا اعتماد ہوتا ہے ۔ ایسے ہی دیگر اسماء ہے ۔ جتنا ان کے مطلب ان کے مطالب کو جتنا سمجھے گے اتنی اللہ پاک کی معرفت حاصل ہو گی۔ اس کے علاوہ قرآن اور اسماءالحسنی پر غور کرنے اور ان کو عملی زندگی کا حصہ بنانے سے شکر کے جذبات پیدا ہوں گے۔ مزکورہ آیت میں اللہ پاک فرما رہے ہیں کہ میرا شکر ادا کرو اور کفران نعمت نا کرو۔ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل نا کرنا کفران نعمت ہی تو ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ : ” اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو گن ہی نہیں سکتے۔ ” اسی لیے تو نبی پاک نے اللہ تعالی کی حمد ان الفاظ میں کی ہے۔ ترجمہ: پس محبت کی حقدار صرف اور صرف اللہ پاک کی ذات ہے، کیونکہ مومن جب اللہ تعالی کی معرفت کو پا لیتا ہے تو محبت کرتا ہے۔ اللہ سے محبت کرنے والوں کی صحبت میں بیٹھنے سے بی محبت الہی میں اضافہ ہوتا ہے اس لے علاوہ نفس کی خواہشات کو محدود کرنے اور موت کس کثرت سے یاد کرنا بھی محبت الہی میں اضافے کے اسباب ہیں ۔ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ: ” جس نے اللہ کے لیے محبت کی، اور اللہ کے لیے ہی نفرت کی، اللہ کے لیے ہی دیا اور اللہ ہی کے لیے منع کیا اس نے اپنے ایمان کو کامل کر لیا ” تو سیدھی سی بات یہ سمجھ میں آتی ہے کے ہمیں پروردگار سے محبت کرنی چاہیے۔ جب تک یہ عشق دل میں نہیں ہوگا، اس وقت تک ایمان کی حقیقی لذت نصیب نہ ہو گی۔ بقول اقبال ۔ حقیقت خرافات میں کھوگںٔی

یہ امت روایات میں کھوگںٔی

بھاتا ہے دل کو بیان خطیب مگر

لذت شوق سے بے نصیب عجم کے خیالات میں کھو گیا

وہ سالک مقامات میں کھو گیا

بجھی عشق کی آگ انھیرا ہے

مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیرا ہے

Comments are closed.